حماس کے بیان پروٹکوف کا ردعمل: امریکی اسرائیلی فوجی کی رہائی امریکہ کی پیش کردہ جنگ بندی کی تجویز کی شرط تھی
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
ویب ڈیسک —
امریکہ کے مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کہا کہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کا یہ بیان کہ اس نے ایک امریکی اسرائیلی فوجی کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے حقیقت میں اس ہفتے کے شروع میں امریکی حکام کی طرف سے پیش کردہ جنگ بندی کو جاری رکھنے کی تجویز کی ایک شرط تھی۔
اس سے قبل جمعے کو امریکہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دی گئی تنظیم حماس نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا کہ اس نے غزہ میں قید آخری زندہ امریکی یرغمال ایڈن الیگزینڈر کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
حماس نے یہ بھی کہا تھا کہ بین الاقوامی ثالثوں کی جانب سے غزہ جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی تجویز موصول ہونے کے بعد اس نے چار دیگر یرغمالوں کی لاشیں بھی حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جمعے کو بعد میں امریکی ایلچی وٹکوف نے ایک مشترکہ بیان میں وضاحت کی کہ ا نہوں نے اور قومی سلامتی کونسل کے مشرق وسطیٰ کے سینئرڈائریکٹر ایرک ٹریگر نے موجودہ جنگ بندی کو رمضان اور یہودی تہوار پاس اوور سے آگے بڑھانے اور مستقل جنگ بندی کے لیے فریم ورک پر بات چیت کے لیے وقت دینے کی تجویز پیش کی تھی۔
وٹکوف نے بیان میں کہا کہ اس تجویز کے مطابق حماس فلسطینی قیدیوں کے بدلے مزید یرغمالوں کو رہا کرے گی، اور یہ کہ پہلے مرحلے کی جنگ بندی میں توسیع سے غزہ میں انسانی امداد کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے مزید وقت ملے گا۔
ایلچی نے کہا کہ امریکہ نے اپنے قطری اور مصری ثالثی شراکت داروں کو کہا تھا کہ حماس کو دو ٹوک الفاظ میں یہ پیغام دیا جائے کہ نئی تجویز پر جلد عمل درآمد کرنا ہوگا اور اسے ایڈن الیگزینڈر کو رہائی فوری طور پر کرنا ہوگی۔
بیان میں وٹکاف نے کہا، "بدقسمتی سے، حماس نے عوامی طور جواب دینے کا فیصلہ کیا اور لچک دکھانے کا دعویٰ کیا ہے جب کہ (حماس) نجی طور پر ایسے مطالبات کر رہی ہے جو کسی مستقل جنگ بندی کے بغیر بالکل ناقابل عمل ہیں۔”
وہ 250 کے قریب ان افراد میں شامل تھے جنہیں حماس نے سات اکتوبر 2023 کے اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر حملے کے دوران یرغمال بنا لیا تھا۔
رواں سال جنوری میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے تحت پہلے مرحلے میں متعدد یرغمالوں کو سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی اسرائیلی جیلوں سے رہائی کے بدلے میں آزاد کردیا گیا۔
پہلے مرحلے کے اختتام پر امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی سے ہونے والی جنگ بندی کے عمل کو اس وقت غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے جبکہ ثالثی ملک اس وقت قطر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے اگلے مرحلے پر مذاکرات کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امریکہ اور بعض مغربی ملکوں نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہےکہ اکتوبر 2023 کے حملے میں تقریباً 1200 لوگ ہلاک ہوئے تھے۔
حملے کے جواب میں اسرائیل نے حماس کے خلاف جنگ میں غزہ پر بمباری اور آپریشنز کی مہم چلائی جس میں حماس کے زیر انتظام صحت کے حکام کے مطابق اب تک 48ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیارہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں جبکہ پٹی میں مختلف علاقے تباہ ہو چکے ہیں۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے جنگ بندی کو مزید بڑھانے کے لیے تجاویز کا ذمہ داری اور مثبت انداز میں جواب دیا ہے۔
دوسری طرف اسرائیل نے حماس پر "ہر اپھری کرنے اور نفسیاتی جنگ” چلانے کا الزام لگایا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ اسرائیل نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کا تجویز کردہ منصوبہ منظور کر لیا ہے لیکن حماس اس سے انکار کررہی ہے اور وہ اپنے موقف سے مطلق بھی پیچھے نہیں ہٹی۔
دفتر نے کہا کہ وزیر اعظم ہفتے کے روز اپنے وزرا کے ساتھ ایک اجلاس میں اسرائیلی مذاکرات کاروں سے ایک تفصیلی رپورٹ لیں گے جس کے بعد یرغمالوں کی رہائی کی جانب اگلے اقدامات پر فیصلہ کیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ کے ایلچی کی تجویز کے مطابق اگر اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدہ طے پا جاتا ہے تو یہ اپریل تک جاری رہے گا جس کے پہلے روز باقی کے نصف یرغمالوں کو ایک ساتھرہا کیا جائے گا۔ معاہدے کے آخری دن باقی کے یرغمالوں کو اکٹھےا آزاد کیا جائے گا۔
حماس کی طرف سے امریکی تجویز کے شروع میں مسترد کیے جانے پر اسرائیل نے غزہ بھیجی جانے والی تمام امدار اور بجلی کی سپلائی روک دی۔ متعد ملکوں نے دباو ڈالنے کے ان اقدامات کی مذمت کی ہے جبکہ اقوام متحدہ نے فلسطینیوں پر امداد روکنے اور بجلی منقطع کیے جانے کے تباہ کن اثرات کے بارے میں خبر دار کیا ہے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: میں اسرائیل یرغمالوں کو جنگ بندی کے اسرائیل نے نے کہا کہ کی تجویز کے مطابق حماس کے نے ایک کے لیے نے اور
پڑھیں:
جنگ بندی کی امریکی تجویز یوکرین کے لیے مہلت کے سوا کچھ نہیں، روس
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 مارچ 2025ء) روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے خارجہ پالیسی کے اعلیٰ معاون نے کہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے یوکرین جنگ کے لیے تجویز کردہ تیس روزہ فائر بندی سے یوکرینی افواج کو جنگ کے میدان میں انتہائی ضروری مہلت ملے گی۔
واشنگٹن میں ماسکو کے سابق سفیر یوری اُوشاکوف، جو خارجہ پالیسی کے اہم امور پر صدر پوٹن کی جانب سے موقف پیش کرتے ہیں، نے روسی سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ انہوں نے بدھ کے روز امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز سے یوکرین میں جنگ بندی پر روس کے موقف کا خاکہ پیش کرنے کے لیے بات چیت کی تھی۔
ُاشا کوف کا یہ بیان آج بروز جمعرات ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی سٹیوو وٹکوف صدر پوٹن سے ملاقات کے لیے ماسکو پہنچے ہیں۔
(جاری ہے)
روسی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے بدھ کو جنگ بندی کے خیال کی تفصیلات فراہم کی ہیں اور روس اس پر بات کرنے کے لیے تیار ہے۔
خیال رہے کہ حالیہ مہینوں میں روسی فوجوں کی یوکرینی محاذ پر پیش قدمی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یوکرین میں جاری تین سال پرانی جنگ ختم کرنے کے لیے امن معاہدے پر زور دینے کی کوششوں نے خدشہ پیدا کر دیا ہے کہ مغرب کا حمایت یافتہ یوکرین یہ جنگ ہار سکتا ہے۔
ٹرمپ نے بدھ کے روز وائٹ ہاؤس میں کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ کریملن تیس دن کی جنگ بندی کی اس امریکی تجویز سے اتفاق کرے گا، جس کی حمایت کے لیے یوکرین بھی راضی ہے۔
اوشاکوف نے کہا، ''میں نے اپنا موقف بیان کیا کہ یہ یوکرین کی فوج کے لیے ایک عارضی مہلت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ ہمارا مقصد ایک طویل مدتی پرامن تصفیہ ہے، جو ہمارے ملک کے جائز مفادات اور ہمارے معروف خدشات کو مدنظر رکھتا ہو۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ کسی کو بھی ایسے اقدامات کی ضرورت نہیں ہے، جو اس صورت حال میں (محض) پرامن اقدامات کی نقل کرے۔
‘‘کریملن کے ایسے سینئر عہدیدار کے تبصروں سے ظاہر ہوتا ہے صدر پوٹن سمجھتے ہیں کہ یوکرین اور مغربی روس میں میدان جنگ میں روس کی پیش قدمی ماسکو کو امن مذاکرات میں مضبوط پوزیشن فراہم کرتی ہے۔
یہ واضح نہیں کہ ٹرمپ اس صورت حال میں کس طرح کا رد عمل ظاہر کریں گے۔ اس سے بدھ کو ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ ماسکو ''خون کی ہولی‘‘ ختم کرنے کے لیے جنگ بندی پر راضی ہو جائے گا اور یہ کہ اپنی پہلی مدت میں وہ دوسرے صدور کے مقابلے میں روس پر زیادہ سخت رہے تھے۔
ٹرمپ نے کہا کہ میں مالی اعتبار سے وہ کام کر سکتا ہوں جو روس کے لیے بہت برا ہو گا۔ ''میں ایسا نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں امن حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ میں امن دیکھنا چاہتا ہوں اور ہم دیکھیں گے۔ لیکن مالی لحاظ سے، ہاں، ہم روس کے لیے بہت برا کام کر سکتے ہیں۔ یہ روس کے لیے تباہ کن ہوگا۔‘‘
ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر وہ مذاکرات میں ناکام ہوتا ہے تو ماسکو پر سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی، لیکن اگر وہ یوکرین میں جنگ بندی پر راضی ہوتا ہے تو پابندیوں میں نرمی کر دی جائے گی۔
دو روسی صنعتی ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ روس کی صنعت اور تجارت کی وزارت کمپنیوں سے یہ تجویز کرنے کو کہہ رہی ہے کہ کن پابندیوں کو فوری طور پر ہٹانے کی ضرورت ہے۔کریملن نے جمعرات کو کہا کہ اسے یقین ہے کہ یہ تمام پابندیں غیر قانونی ہیں اور انہیں فوراﹰ اٹھایا جانا چاہیے۔
یوکرین کا روس پر پانچ قیدی فوجیوں کو قتل کرنے کا الزام
کییف حکو مت نے جمعرات کے روز روسی افواج پر الزام لگایا کہ اس نے پانچ مزید گرفتار یوکرینی فوجیوں کو قتل کر دیا ہے۔
یہ یوکرین کی جانب سے روسی فوج کے خلاف جنگی جرائم کے ارتکاب کا تازہ ترین الزام ہے۔ یوکرینی حکام نے ماسکو کے فوجیوں پر الزام لگایا ہے کہ 2022 کے اوائل میں کریملن نے یوکرین پر اپنے حملے کے آغاز کے بعد سے درجنوں گرفتار یوکرینی فوجیوں کو ہلاک کیا۔یوکرین کے انسانی حقوق کے محتسب دیمیترو لوبینٹس نے سوشل میڈیا پر کہا کہ روسی افواج ''یوکرینی جنگی قیدیوں کو قتل کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔
‘‘ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ مبینہ ہلاکتیں کہاں ہوئی ہیں۔ انہوں نے میسجنگ ایپ ٹیلی گرام پر لکھا، ''روسیوں کے ہاتھوں پکڑے گئے غیر مسلح یوکرینی فوجیوں کو مبینہ طور پر قتل کرنے کی ایک اور ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔‘‘انہوں نے کہا اس ''ویڈیو میں کم از کم پانچ مبینہ طور پر مارے گئے جنگی قیدیوں کو دکھایا گیا ہے۔
ایک بار پھر، ہم روسی فوج کی جانب سے بین الاقوامی انسانی قانون کی بے حسی دیکھ رہے ہیں۔‘‘لوبینٹس نے کہا کہ اس نے اقوام متحدہ اور ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کو مطلع کیا ہے اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ گرفتار یوکرینی فوجیوں کے قتل کے شواہد کی تحقیقات کریں۔ اقوام متحدہ نے گزشتہ ماہ اس بات پر خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی کہ روس کی جانب سے زیر حراست یوکرینی فوجیوں کو سزائے موت دینے میں ''خطرناک اضافہ‘‘ ہوا ہے اور حالیہ مہینوں میں اس نے ایسی درجنوں ہلاکتیں ریکارڈ کی ہیں۔
ماسکو کی جانب سے فوری طور پر اس بارے میں کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔
ش ر ⁄ ک م (روئٹرز، اے ایف پی)