Juraat:
2025-03-15@03:08:50 GMT

لوگ ناکام ہوجاتے ہیں، کیوں ؟

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

لوگ ناکام ہوجاتے ہیں، کیوں ؟

آفتاب احمد خانزادہ

ہر انسا ن کے اندر ایک کامیاب ، دانش مند اورعقل مند انسان قید ہوتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی انسان اپنے اندر قید اس انسان کو کیسے آزادی دلواسکتاہے۔
آئیں پہلے سقراط کاایک قصہ پڑھتے ہیں سقراط کاباپ سو فرونس کس ایک نامور سنگ تراش تھا ۔گھر کے صحن میں جب بھی اس کا باپ کا م کرتا تھا تو وہ اس کا ہاتھ بٹا تا تھا ۔خاصے عرصے تک سقراط صرف تراش خراش کے ابتدائی کام کرتا رہا۔ ابتدائی مشق کے لیے سنگ مرمر جیسی قیمتی چیز کو ضائع نہیں کیاجاسکتا تھا ۔اس لیے سطح کے ہموار ہوجانے کے بعد جب اصل کام شروع ہوجاتا تو سقراط کابا پ خود کام کرنے لگتا اور سقراط ایک ایک کرکے اسے اوزار دیتا رہتا اورکام کو غور سے دیکھتا رہتا ۔ایک مرتبہ ایک فوارے کے منہ کے لیے ایک شیر کا سر بناناتھا۔ سو فر ونس کس نے سنگ مر مر کا ایک ٹکڑا لیااورا س پر کا م شروع کردیا۔ سقراط نے اپنے باپ سے پوچھا کہ آپ کو یہ اندازہ کس طرح ہوتا ہے کہ تیشہ کہاں کہاں رکھیں اور اس پر کتنی سخت چوٹ لگا ئیں تو وہ انتہائی کو شش کے باوجود صحیح جواب نہیں دے سکا ۔اس نے کہا ” یوں سمجھو کہ سب سے پہلے تمہیں شیر پتھر میں دیکھنا پڑتا ہے پھر یوں محسو س کرو کہ شیر سطح کے نیچے قید ہے وہ تمہارا منتظر ہے اور تمہیں اسے آزاد کرنا ہے ،اب جتنی اچھی طرح تم شیر کو دیکھ سکو اتنے ہی یقین کے ساتھ تمہیں یہ بات معلوم ہوگی کہ تمہیںتیشہ کہاں رکھنا چاہیے اور کتنی سخت چوٹ لگانی چاہیے۔ سقراط نے اپنے باپ کی اس بات پر بہت غور کیا اور اس موقع پر اسے اپنی ماں کی کہی ہوئی ایک بات یادآئی ۔وہ دائی کے کام میں بہت ماہر سمجھی جاتی تھی ۔سقراط نے اس سے پوچھا تھا ماں تم یہ کام کس طرح کر لیتی ہو ” اس نے جواب دیا تھا ”میں ،خود کچھ بھی نہیں کرتی میں تو بچے کے آزاد ہونے میں معاون ہوتی ہوں ”۔
یادرکھیں !اگر آپ اپنے آپ کو اپنے آپ سے آزاد نہیں کریں گے اور اپنے آپ کو دریافت نہیں کریں گے تو پھر آپ اپنے آپ کو تھوڑا تھوڑا کرکے کھاتے رہیں گے اور پھر ایک دن آپ کے اندر قید کامیاب ، خوشخال ،دانش مند اورعقل مند انسان آپ کے ساتھ ہی مرجائے گا ، وہ انسان اپنے جنم لینے سے پہلے ہی مرجائے گا۔ ” ہر چیز ممکن ہے یقین ہی ان چیزوں کی اصل حقیقت ہے جن کی ہم امید کرتے ہیں ان چیزوں کا ثبوت ہے جو دکھائی نہیں دیتیں ” ۔ہنری فورڈ کی سوانح عمری اس مختصر اور انتہائی رجائیت پسندانہ فارمو لے پر ختم ہوتی ہے ۔یہ آخری الفاظ ایک قسم کاروحانی ترکہ ہیں اور اس نے یقین کے بارے میں جو کہا ہے وہ قطعاً کوئی اتفاقیہ کہی گئی بات نہیں ہے۔ اس کی تمام زندگی اور کام اس بات کا ثبوت ہیں کہ غیر متزلزل یقین کے حامل شخص کے لیے سب کچھ کرنا ممکن ہے۔ کیا آپ نے حال ہی میں کوئی یخ بستہ جمی ہوئی مچھلی دیکھی ہے کیا آپ نے کبھی اس مچھلی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے باتیں کرنے کی کوشش کی ہے ۔اگر نہیں تو پھر آپ اپنے نزدیکی مچھلی بازار میں دوڑتے ہوئے جائیے اور اس یخ بستہ مچھلی کا انتخاب کیجئے جو آپ کوبہت اچھی معلوم ہوتی ہے اور اسے خرید کر گھر لے آئیے اس یخ بستہ مچھلی کو پھر اپنے ہاتھ میں تھا م لیجیے اس کی آنکھوں میں دیکھئے اور جہاں تک ممکن ہو اس سے باتیں کرنے کی کو شش کیجئے اپنے آپ اور اس یخ بستہ مچھلی کے درمیان آنکھوں ہی آنکھوں کے ذریعے تعلق قائم کرنے کی کو شش کیجئے تاکہ آپ کے اندر موجود آپ کی ذات کا یخ بستہ مچھلی کے ساتھ بامقصد ذاتی تعلق استوار ہوجائے اگر آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو آپ کو اس کی جانب سے یہ پیغام ملے گا کہ ” ایک یخ بستہ مچھلی کی مانند نہ بنیے ” آپ پیدا ہی اس لیے ہوئے تھے کہ آپ کو کامیابی و کامرانی نصیب ہولیکن پھر بھی لوگ ناکام ہوجاتے ہیں کیوں ؟ ان کی ناکامی میں یقینا فطرت کا کوئی قصور نہیں کیونکہ فطرت ہر حال میں انسان کے لیے کامیابی چاہتی ہے اور جب انسان اپنی مرضی اور خو اہش کے مطابق کامیابی اور کامرانی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کی تمنا فطری قانو ن و اصول کے عین مطابق ہے ،لوگ صرف اس لیے ناکام ہوجاتے ہیں اورکامیابی و کامرانی حاصل نہیں کر پاتے کیونکہ وہ اپنے آپ کے اندرکے انسان کو ساری عمر قید رکھتے ہیں۔ وہ اپنے آپ سے ملاقات ہی نہیں کرپاتے ہیں۔ اپنے آپ کو پہچان ہی نہیں پاتے ہیں۔ ایک مشہور کہاوت کے مطابق ” جب ایک طالب علم حصول تعلیم کے لیے آمادہ اور تیار ہوجاتا ہے تو استاد بھی فوراً آن موجود ہوتا ہے ”۔ اس لیے آپ فوراً رونا دھونا بند کردیجئے اپنے نصیبوں کو برابھلا کہنا فوراً روک دیجئے اور ساتھ ہی ساتھ ساری دنیا کی برائیاں کر نا فوراً چھوڑ دیجئے کیونکہ آپ کی ناکامی ، بدحالی ، غربت افلاس ، بے اختیاری کا سار اقصور نہ تو آپ کے نصیبوں کا ہے اور نہ ہی آپ کی قسمت خراب ہے ،ان تمام ناکامیوں کے آپ ہی اکلوتے ذمہ دار ہیں۔ اس لیے یہ رونا دھونا ، چیخنا چلانا ، دہائیاں دینا اور کوسنا آخرکیوں ، کیا آپ معذور ہیں، محتاج ہیں، بیمار ہیں، اپاہج ہیں، کیاآپ ہی صرف بغیر صلاحیتوں اور قابلیتوں کے پیدا کیے گئے ہیں ۔کیا آپ کو کسی نے زنجیروں میں جکڑرکھا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اپنے آپ کو لعنت ملامت کیجئے۔ اپنے آپ کو شرمندہ کیجیے، امریکہ ، روس ، فرانس اور دیگر ممالک کے لوگوں کی حالت تو ہم سے کہیں زیادہ بد ترین تھی لیکن انہیں اس بات پر یقین تھا کہ فطرت ہر حال میں ان کی کامیابی و کامرانی چاہتی ہے ۔
بہت عرصے پہلے ایک بہت ہی کمزور ، معذور بچہ ایلیس ہوتا تھا، وہ اس قدر غریب تھا کہ وہ اور اس کے اہل خانہ اکثر بھوک کا شکار رہتے تھے اور انہیں کھانے کے لیے کوئی چیز بھی میسر نہ ہوتی تھی اس نے سینے کی مشین ایجاد کی لیکن کوئی شخص بھی اسے خریدنے کے لیے تیار نہ تھا ،اس کی تجربہ گاہ میں آگ لگ گئی، اس کی بیوی فوت ہوگئی لیکن وہ پھر بھی مسلسل کو شش کرتا رہا اور بالا آخر اپنی یہ مشین بیچنے میں کامیاب ہوگیااور پھر ایلیس محض بارہ سال کے اندر کروڑ پتی بن گیا۔ عظیم سائنس دان اور برقی سائنس کاموجد ایک غریب لوہار کا بیٹاتھا ۔اس عظیم سائنس دان کا نام مائیکل فراڈے تھا۔ ایلس فوٹی میک ڈوگال خاتون نیو یارک کے ریلو ے اسٹیشن پر کافی اور بسکٹ فروخت کیاکرتی تھی پھر ایک دن اس نے پچاس لاکھ ڈالر مالیت پر مشتمل بے شمار ریسٹوران قائم کیے۔ سٹیوارٹ نیویارک آیا تو اس کی جیب میں صرف ڈیڑھ ڈالرتھے اور محنت کے بعد جلد ہی کروڑوں پتی بن گیا۔ اینڈر یو جیکسن اور اور ابراہم لنکن دونوں امریکہ کے عظیم صدور تھے۔ ابتدائی زندگیوں میں یہ دونوں اشخاص انتہائی غریب تھے۔ اولیسس ایس گرانٹ ابتدا ء میں ایک کاروباری فرد کی حیثیت سے ناکام ہوگیا۔ 39سال کی عمر میں وہ ایندھن کے لیے استعمال کر نے کے لیے لکڑیاں کاٹتاتھا اور پھر صرف 9سال بعد ہی وہ امریکہ کا صدر بن گیا۔ مصطفی کمال ترکی فوج میں ایک عام سپاہی تھا جو ترکی کا حکمران بن گیا ۔رضاشاہ ایرانی فوج میں ایک ادنیٰ رنگروٹ تھا جو بعد میں ایران کا شہنشاہ بنا ۔جو لیس سیزر مرگی کا مریض تھا جس نے معلوم دنیا فتح کر ڈالی تھی۔ دیماس تھینز ہکلا کر بولتا تھا لیکن وہ قدیم یونان کا ایک عظیم خطیب اور مقرر بنا ۔فرینکلن دی روز ویلٹ بچپن میں فالج کا شکار ہوگیا تھا لیکن سخت محنت کے باعث امریکہ کا صدر بنا ۔
اگر آپ اب بھی اپنے اندر قید کامیاب ، خوشحال، دانشمند اورعقل مند انسان کو رہائی دلوانے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر آپ کے لیے دعائیں بھی بے اثر رہیں گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: ہوجاتے ہیں اپنے آپ کو نہیں کر ہوتا ہے کے اندر کیا آپ ہے اور بن گیا اور اس کے لیے اس لیے تو پھر

پڑھیں:

خالی ہاتھ

سہراب سائیکل کے بانی اور مالک شیخ اکرم صاحب ارب پتی پاکستانی تھے جو بے بسی اور انتہائی کسمپرسی کی حالت میں چند روز قبل دنیا سے رخصت ہوئے۔ کہا جاتا ہے ان کی میت کئی دنوں تک ہسپتال میں بے گوروکفن پڑی رہی مگر اسے وصول کرنے کے لئے وارثین نہیں پہنچے۔ اپنی موت سے چار دن پہلے تک وہ ڈاکٹروں سے مسلسل التجا کرتے رہے کہ وہ نصیحت لکھنے کے لئے اپنے بچوں سے ملنا چاہتا ہیں مگر تمام ڈاکٹر اس کی درخواست کو مسلسل نظر انداز کرتے رہے۔ ڈاکٹروں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ وہ اس کی اولاد کو اس بارے آگاہ کرتے رہے تھے مگر اس کے بچوں کو مرنے سے پہلے اپنے باپ کو دیکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا کیونکہ وہ سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ شیخ اکرم انتہائی نیک دل انسان تھے وہ یتیم بچیوں کی شادی کرواتے تھے اور درجنوں غریب گھروں کا خرچہ اٹھاتے تھے۔ ان میں سے بھی کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کس حالت میں ہیں۔ آخرکار یہ نیک دل باپ اپنی نصیحت لکھے اور اولاد کو آخری بار دیکھے بغیر آنکھوں میں آنسوئوں کی سسکیاں بھرتے بھرتے موت کے منہ میں چلا گیا، اور جن بچوں کے لئے ورثے میں باپ نے اربوں روپے کی جائیداد چھوڑی تھی وہ اپنے باپ کی آنکھوں پر آخری بار ہاتھ رکھنے کے لئے بھی میسر نہیں تھے۔
یہ حسرت بھری اور المناک موت ہماری ہر دوسری المیہ کہانی کا نتیجہ ہے جس کا آغاز غربت اور انجام امارت کی چاردیواری کے حبس میں ہوتا ہے۔ جب تک انسان کی صحت ہو اور دولت بھی ہو تو اس کے گرد درجنوں سینکڑوں لوگوں کا مجمع لگا رہتا ہے۔ لیکن کسی امیر آدمی کے مرنے کا جونہی وقت قریب آتا ہے تو اس کی اولاد اور رشتہ دار مرنے والے کو بھول کر اس کی جائیداد کا بٹوارہ کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یوں انسان کے رشتوں اور تعلقات کی حد فاصل بستر مرگ ہے جس پر پڑا انسان ساری دنیا کی دولت رکھنے کے باوجود بھی کسی کو اپنے پاس بلا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی جتنا بھی پیارا ہو مرنے والے کے ساتھ جانے کو تیار ہوتا ہے۔
ہمارے سرمایہ داری زدہ معاشرے میں تو صورتحال اور بھی بدتر ہے کہ جہاں اخلاقی اقدار اور رکھ رکھائو کو بھی رسم و رواج اور دکھاوے میں بدل دیا گیا ہے۔ آپ شہروں یا دیہاتوں میں میت والے گھروں میں جا کر دیکھ لیں کہ ابھی میت گھر میں پڑی ہوتی ہے اور لواحقین اسے جلدی دفنانے کی تیاری کر رہے ہوتے کہ اس سے بدبو نہ آنے لگے مگر سوگواران اور اہل خانہ مہمانوں کے کھانے پینے کا بندوبست کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ایسا نہ کیا جائے تو افسوس کرنے کے لئے آئے ہوئے دوست احباب طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں اور طعنے تک دیتے ہیں کہ میت والے گھر میں اتنی بھی سکت نہیں ہے کہ وہ ڈھنگ سے مہمانوں کو کھلا پلا سکیں۔ بہت سی جگہوں پر اس مد میں سوگ کو شادی کی طرح منانے کے خلاف انتظامات کیے گئے ہیں جہاں کمیٹیاں بنائی گئی ہیں جو یہ سارا انتظام و انصرام کرتی ہیں۔
لیکن اصل بات یہ نہیں کہ ہمارے معاشرے میں کوئی کتنا امیر ہے یا وہ کس بری طرح غربت کی چکی میں پس رہا ہے۔ اس معاملے میں ہمارا اصل مسئلہ ہمارے ذہنی رجحان (مائنڈ سیٹ) کا ہے جس کی روشنی میں ہم لوگوں کے درمیان غربت اور امارت کے تفاوت کی لکیر کھینچتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے مقابلے میں ایسی طبقاتی سوچ یورپ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک میں تقریبا مفقود ہے۔ یہ تہذیب یافتہ ممالک اسی وجہ سے ’’سوشل سٹیٹس‘‘ کہلاتی ہیں کہ وہاں کوئی غریب ہے یا نان نفقہ سے تنگ ہے تو ان ممالک کی حکومتیں ایسے شہریوں کو عزت کے ساتھ سرکاری گھر اور اسے چلانے کے لیئے ہفتہ وار رقم کی ادائیگی کرتی ہیں۔ وہاں ایک دوسرے کو کوئی یہ الزام نہیں دیتا کہ وہ سوشل بینیفٹس پر زندگی کیوں گزار رہا ہے کیونکہ اس طرح کے فوائد لینے والے شہری اپنی وہ رقوم وصول کر رہے ہوتے ہیں جو وہ پہلے ہی حکومت کو ٹیکس کی مد میں ادا کر چکے ہوتے ہیں۔ان ممالک میں آپ کو کوئی حادثہ پیش آ جاتا ہے یا آپ بیمار پڑ جاتے ہیں تو آپ کی تیمارداری اور نگہداشت کے لئے حکومت کے منظور شدہ سوشل ورکر فوری طور پر خدمت کے لئے آپ کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور بعض دفعہ زخم یا بیماری وغیرہ کی صورت میں حکومت آپ کو اتنا کچھ دے دیتی ہے کہ اتنا آپ نے عمر بھر نہیں کمایا ہوتا ہے۔
سکندر اعظم کے بارے ایک محاورہ بڑا مشہور ہے کہ، ’’سکندر جب چلا جہاں سے دونوں ہاتھ خالی تھے۔‘‘ انسان پوری کائنات کا مالک بھی بن جائے مگر وہ مرتے وقت اپنے ساتھ کچھ نہیں لے جا سکتا۔ اسی لئے ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کو زیادہ دولت جمع کرنے کا لالچ ہوتا ہے اور نہ کم پیسہ ہونے کی وجہ سے ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ ہمارے ایشیائی لوگ امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور جاپان وغیرہ کا پاسپورٹ لینے کے لئے اسی معیار زندگی کی وجہ سے جدوجہد کرتے ہیں۔ دولت کی ہوس بذات خود ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ ہمارے معاشرے میں شیخ اکرم جیسی امیرانہ مگر تکلیف دہ اذیت تب محسوس ہوتی ہے جب اتنا کچھ کما کر بھی آخر میں انسان اکیلا رہ جاتا ہے اور اس کے بلانے پر اس کی اولاد تک اس کے پاس آنے سے انکار کر دیتی ہے۔ اس لئے زندگی میں اتنا ہی کمائیں جس سے آپ کسی کے محتاج نہ ہوں اور آپ کی پہچان بن جائے یا اسے آپ کی اولاد جتنا ہضم کر سکے۔ اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ دولت کے انبار لگانے اور جائیدادیں بنانے کی بجائے اپنا کمایا ضرورت مندوں اور دوستوں پر خرچ کریں تاکہ ایسی دولت کو سخاوت اور نیک اعمال کی شکل میں اپنے ساتھ اوپر لے جا سکیں۔
یہ پہلی کہانی نہیں جو ایک مرنے والے دولت مند آدمی کے ساتھ پیش آئی ہے۔ پاکستان کی بہت سی امیر فیملیوں کے ساتھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں بلکہ ورثے میں ملنے والی زمینوں اور جائیداد پر بہت زیادہ لڑائیاں اور قتل و غارت بھی ہوتی ہے۔اس کے برعکس ترقی یافتہ تہذیبوں کے امیر ترین افراد بھی آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ وہ سیکورٹی عملہ کے بغیر لائن میں لگ کر برگر خریدتے نظر آتے ہیں یا بستر مرگ تک پہنچنے تک وہ اپنی ساری یا آدھی دولت چیرٹی کے نام کر جاتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے اتنی دشمنی کیوں!
  • خالی ہاتھ
  • دہشت گرد عام شہری کو قتل کر کے چین کو کیوں للکارتے ہیں؟ بلاول بھٹو زرداری
  • نوکیا کا چاند سے 4G کال کا منصوبہ ناکام کیوں ہوا؟
  • جرنیلوں کے اثاثوں کی چھان بین کیوں نہیں کی جاتی :شیر افضل مروت
  • 7 لاکھ فوج 10 ہزار طالبان کیخلاف کیوں کامیاب نہیں ہورہی، سروسز چیف کو کٹہرے میں کھڑا کریں، شیر افضل
  • پاکستان پوسٹ رمضان میں مستحقین کو رقم گھر پہنچانے کی ذمہ داری کیوں پوری نہ کرسکا؟
  • کدھر ہیں محسن نقوی؟ وہ تو ادھر آتے ہی نہیں: عمر ایوب
  • بھارت نے چیمپئینز ٹرافی جیتنے کے بعد وننگ پریڈ کا اہتمام کیوں نہیں کیا؟