بھارت بنگلہ دیش بحریہ کی مشترکہ مشق: ‘علاقائی سالمیت کے لیے باہمی دفاعی اشتراک بہت ضروری ہے’
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
نئی دہلی — بھارت اور بنگلہ دیش کی بحریہ نے رواں ہفتے خلیجِ بنگال میں مشترکہ مشقیں کی ہیں۔ ‘بونگوساگر’ نامی مشقوں میں بھارتی بحریہ کی جانب سے آئی این ایس رن ویر اور بنگلہ دیش بحریہ کی جانب سے بی این ایس ابو عبیدہ نے حصہ لیا۔
‘پریس انفارمیشن بیورو'(پی آئی بی) نے بحریہ کے ایک بیان کے حوالے سے کہا ہے کہ اس مشق نے دونوں ملکوں کی بحریہ کے درمیان باہمی اشتراک اور جنگی صلاحیتوں اور مشترکہ میری ٹائم سیکیورٹی چیلنجز کے تعلق سے جوابی کارروائی کی اہلیت اور باہمی اعتماد میں اضافہ کیا ہے۔
‘سیکیورٹی اینڈ گروتھ فار آل ان دی ریجن’ (بونگوساگر) نامی اس مشق کی اہم سرگرمیوں میں سطح پر فائرنگ، اسٹریٹجک جنگی مشق، فوری جوابی کارروائی، کراس بورڈنگ، مواصلاتی مشق اور جونیئر اہل کاروں کے لیے پیشہ ورانہ موضوعات پر سوال و جواب شامل تھے۔
بیان کے مطابق اس مشق نے دونوں بحری افواج کو بغیر کسی رکاوٹ کے میری ٹائم آپریشنز کے لیے حکمتِ عملی کی منصوبہ بندی، رابطہ کاری اور معلومات کے تبادلے میں قریبی روابط استوار کرنے کا موقع فراہم کیا۔
سال 2019 سے شروع ہونے والی یہ مشترکہ مشق ‘کمانڈر فلوٹیلا ویسٹ’ کی نگرانی میں 10 مارچ سے 12 مارچ تک منعقد ہوئی۔
قبل ازیں انڈین نیوی کے بیان میں کہا گیا تھا کہ یہ مشق دونوں بحری افواج کے درمیان بحری کارروائیوں میں بہتر ہم آہنگی، خطے میں سلامتی اور استحکام کے لیے عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے مشترکہ عزم کا ثبوت ہے جس سے خطے میں سب کے لیے سلامتی اور ترقی کو فروغ حاصل ہو گا۔
یاد رہے کہ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل اوپیندر دویدی نے رواں سال کے جنوری میں عہدے پر فائز ہونے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ بھارت اور بنگلہ دیش دونوں ایک دوسرے کے لیے اسٹریٹجک اہمیت رکھتے ہیں۔
انھوں نے شیخ حسینہ حکومت کے خاتمے کے بعد باہمی رشتوں میں کشیدگی کے پیش نظر مشق کو ملتوی کیے جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ حالات بہتر ہوتے ہی منصوبے کے مطابق مشق شروع کی جائے گی۔ دونوں بحریہ کے رشتے اچھے اور بہترین ہیں۔
خبررساں ادارے ‘یونائیٹڈ نیوز آف انڈیا’ (یو این آئی) کے سابق ایڈیٹر اور سینئر تجزیہ کار شیخ منظور احمد کے مطابق شیخ حسینہ حکومت کے خاتمے کے بعد جب پروفیسر محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت قائم ہوئی تو دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ شیخ حسینہ کے بھارت میں قیام نے بھی باہمی تعلقات میں خلل ڈالا۔ عبوری حکومت نے ان کی حوالگی کا بارہا بھارت سے مطالبہ کیا ہے۔
لیکن ان کے مطابق دونوں ملک ایک دوسرے کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ محمد یونس نے حال ہی میں کہا ہے کہ بھارت بنگلہ دیش کا ایک مضبوط حلیف ہے اور اس کے ساتھ بنگلہ دیش کے رشتے بہت مضبوط رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کے اعلیٰ فوجی اہل کاروں نے حالیہ دنوں میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا اور دو مال بردار جہاز بھی وہاں لنگر انداز ہوئے۔
محمد یونس نے پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقات بھی کی جس کی وجہ سے کچھ خدشات پیدا ہوئے۔ لیکن بہرحال دونوں ملک ایک دوسرے کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔
ان کے مطابق بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت اپنے تعلقات کو جو کہ ابھی تک بھارت مرکوز تھے، وسعت دینا چاہتی ہے۔
ان کے خیال میں موجودہ حالات میں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان رشتوں کی بڑی اہمیت ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تقریباً 4000 کلومیٹر طویل سرحد ہے جہاں ہمیشہ خطرات بنے رہتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ وہاں دہشت گردوں کی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ دہشت گرد میانمار میں پناہ لے رہے ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق وہاں سائنر جرائم بہت زیادہ ہو رہے ہیں۔ لہٰذا دونوں ملکوں میں سیکیورٹی اطلاعات کا تبادلہ اور دفاعی اشتراک بہت اہمیت ہے۔
ان کے خیال میں علاقائی سالمیت کے لیے دونوں ملکوں کو دفاعی تعلقات کو مزید وسعت بھی دینا چاہیے تاکہ جو نئے چیلنجز آ رہے ہیں ان کا مقابلہ کیا جا سکے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بونگو ساگر مشق گزشتہ سال چینی اور بنگلہ دیشی افواج کے درمیان پہلی مشترکہ تربیت پر بڑھتے خدشات کے بعد کی گئی۔
گزشتہ سال مئی میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے ڈھاکہ کے قریب بنگ بندھو بنگلہ دیش۔چین دوستی نمائشی مرکز میں مشقیں کی تھیں۔ جب کہ گزشتہ سال نومبر میں پاکستان کے دو مال بردار بحری جہاز چٹا گانگ بندرگاہ پر لنگر انداز ہوئے تھے۔
تجزیہ کاروں کے بقول اگر چہ شیخ حسینہ حکومت کے خاتمے کے بعد بھارت اور بنگلہ دیش کے رشتوں میں کشیدگی آگئی ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان فوجی رشتے بدستور قائم ہیں۔
نشریاتی ادارے نیوز 18 ہندی کے سینئر اسسٹنٹ ایڈیٹر سندیپ کمار کے مطابق بھارت اپنے دوست ملکوں کی افواج کے ساتھ دفاعی تبادلے کا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ وہ اپنے فوجیوں کو بھی الگ الگ دفاعی کورسز کرنے کے لیے ان ملکوں میں بھیجتا ہے۔
ان کے مطابق بنگلہ دیش کی افواج کے ساتھ بھی بھارت کے اس قسم کے رشتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے دفاعی اہل کار بھی مختلف قسم کے کورسز کرنے کے لیے بھارت آتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کے متعدد فوجی اہل کار بھارت میں الگ الگ کورسز میں شامل ہو چکے ہیں۔ بھارتی فوج کا کیلنڈر سال یکم جولائی سے 30 جون تک کا ہوتا ہے۔ لہٰذا وہاں سے اگلا بیچ آنے میں ابھی وقت ہے۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اسی طرح بھارت کی مسلح افواج کے تین اعلیٰ اہل کار ڈھاکہ گئے تھے۔ بھارتی فوج کے اہل کار نیشنل ڈیفنس کورس اور ہائر کمانڈ کورس کے علاوہ دیگر دفاعی مقاصد سے بھی وہاں جاتے ہیں۔
انھوں نے دفاعی ذرائع کے حوالے سے کہا کہ بنگلہ دیشی فوج کی دو خاتون کیڈٹ اس وقت چنئی میں ٹریننگ لے رہی ہیں۔ جب کہ بھارتی فوج کے چار افسران بنگلہ دیش کے ملٹری انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں وہاں کے اہل کاروں کو ٹریننگ دے رہے ہیں۔
ان مشقوں کا مقصد غیر قانونی ماہی گیری، اسمگلنگ، قذاقی اور منشیات کی تجارت جیسی غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنا بھی ہے۔ خلیج بنگال میں سیکورٹی کو بہتر بنانے سے اقتصادی سرگرمیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ دونوں بحری افواج کا مقصد رابطہ کاری کو بہتر بنانا، مواصلاتی پروٹوکول کو بڑھانااور بغیر کسی رکاوٹ کے آپریشنل انٹر آپریبلیٹی کو فروغ دینا ہے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: اور بنگلہ دیش بنگلہ دیش کے دونوں ملکوں ان کے مطابق بھارتی فوج کے درمیان انھوں نے کہ بھارت افواج کے اہل کار رہے ہیں میں کہا کے لیے کے بعد تھا کہ
پڑھیں:
وزیراعظم کا دہشت گردی کے حوالے سے جلد ہی مشترکہ اجلاس طلب کرنے پر اتفاق
اسلام آباد:وزیراعظم شہباز شریف نے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مرکزی صدر ایمل ولی خان کی تجویز پر دہشت گردی کے حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بیٹھا کر قومی لائحہ عمل اپنانے کے لیے جلد ہی مشترکہ اجلاس طلب کرنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف اور مرکزی صدرعوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) ایمل ولی خان کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا اور دونوں رہنماؤں کے درمیان بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے حالات پر اہم مشاورت ہوئی۔
بیان میں کہا گیا کہ ایمل ولی خان نے وزیراعظم شہباز شریف کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل بیٹھنے کی تجویز دی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی لائحہ عمل کی ضرورت پر زور دیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ایمل ولی خان کی تجویز سے اتفاق کیا اور ہفتے کے اندر اہم اجلاس پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔
ٹیلی فونک رابطے کے دوران دونوں رہنماؤں کے درمیان ملک میں امن و استحکام کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر اتفاق ہوا اور دہشت گردی کے خلاف مربوط اور مؤثر اقدامات کے لیے قومی سطح پر مشاورت کا فیصلہ کیا گیا۔
دونوں رہنماؤں نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے عوام کے تحفظ اور ترقی کے لیے مشترکہ کوششوں پر زور دیا گیا۔