Express News:
2025-03-15@01:18:47 GMT

رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے اتنی دشمنی کیوں!

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

ملک میں مستقل مزاجی اور ٹھوس بنیادوں پر پالیسی سازی کا فقدان تو خیر موجود ہی ہے۔ مگر اس طرح بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومت لٹھ لے کر ایک مخصوص کاروباری شعبہ کے پیچھے پڑ جائے۔ قصداً ایسی مضحکہ خیر پالیساں ترتیب دی جائیں کہ وہ شعبہ بربادی کے دہانے پر جا کھڑا ہو۔ اس میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر رہ جائے۔ پھر زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے چند مصنوعی قسم کی سہولتی اقدامات کرنے کا ارادہ کیا جائے۔ اس کے بعد‘ طویل خاموشی اختیار کر لی جائے۔ یہ کوئی کہانی نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو منصوبہ بندی کے تحت تخت ستم بنایا گیا ہے۔

موجودہ حکومت اور اس سے پہلے اس کے ایک سال کے دورانیہ میں ‘ پاکستان کے سب سے بڑے شعبہ کے متعلق ہر وہ منفی پالیسی اپنائی گئی جس سے رئیل اسٹیٹ شعبہ جمود کا شکار ہو جائے۔ اس کی ترقی بلکہ ملکی ترقی کا پہیہ رک جائے۔ اپنے ملک میں‘ اس زبوں حالی کا جائزہ لینے سے پہلے ‘ ذرا آپ کی توجہ قریبی ممالک کی ان پالیسیوں کی طرف کروانا چاہتا ہوں جو مستحکم ملکی قیادت سے آویزاں ہیں۔

دبئی کی مثال آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ بنیادی طور پر وہ ایک ملک نہیں بلکہ ایک خوشنما شہر ہے۔ جہاں دنیا کے ہر ملک سے لوگ آ کر سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ دبئی کی جوہری ترقی ‘ رئیل اسٹیٹ سکیٹر کی ترویج سے جڑی ہوئی ہے۔ صحرا کے بیچ‘ وہاں کے حکمرانوں نے بین الاقوامی سطح پر ہر ایک کو اعتماد دیا۔ کہ آپ دبئی آئیں ‘ عمارتیں بنائیں‘ شاپنگ مال ترتیب دیں ‘ بلند قامت ہوٹل ایستادہ کریں۔ آپ کے سرمایہ کو بھی تحفظ حاصل ہو گا اور آپ کی بھی ہر طور حفاظت کی جائے گی۔

جب‘ عملی طور پر دبئی کی حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو ریاستی چھتر چھاؤں مہیا کر دی تو پوری دنیا کے سرمایہ کاروں نے اس شہر کا رخ کر لیا۔ بیس سے تیس سال میں رئیل اسٹیٹ شعبہ نے اتنی محیر العقول ترقی کی کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ وہاں کی متحرک اور قابل حکومت نے سمندر کے اندر بھی اس مہارت سے مہنگی ترین کالونیاں بنا ڈالی‘ جنھیں دیکھ کر انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ وہاں آج بھی لوگ دھڑا دھڑ‘ گھر‘ ولا اور فلیٹ خرید رہے ہیں۔صرف گھروں کے شعبہ کی مارکیٹ کھربوں ڈالر پر محیط ہے۔ اس میں پانچ فیصد سالانہ سے زیادہ شرح نمو ہے۔ دبئی کی جی ڈی پی میں صرف رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا حصہ نو فیصد کے برابر ہے۔ پوری دنیا سے سیاح دبئی دیکھنے آتے ہیں۔

ان کے قیام کے لیے Vacation Homes میں محض کرایہ کا منافع دس سے بارہ فیصد کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان کے ہر امیر آدمی نے دبئی میں اس شعبہ میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ لیکن کیونکہ ہم ’’رئیس المنافقین‘‘ طبع کے لوگ ہیں۔ لہٰذا اس خرید و فروخت کو چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ ہم دنیا کے نقشہ پر صرف ’’دہشت گردی‘‘ کی قیامت خیز علامت کے علاوہ کچھ بھی نہیں گردانے جاتے۔ ہندوستان کے لوگوں نے دبئی میں سب سے زیادہ رئیل اسٹیٹ خریدی ہوئی ہے۔ دوسرا نمبر چین کا ہے۔ دبئی کے حکمران‘ انسانی نفسیات کو سمجھتے ہیں۔ انھیں علم ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو کیسے تحفظ فراہم کرنا ہے۔

ہمارے جیسے ملک جیسا معاملہ نہیں۔ جہاں ایک سابق چیف جسٹس پاکستان کی معدنیات میں بین الاقوامی سطح کی سرمایہ کاری کا گلا گھونٹ ڈالے۔ اور جب وہ کمپنی ‘ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں اپنا مقدمہ لے کر جائے تو وہاں بیٹھے ہوئے غیر متعصب جج صاحبان کو ببانگ دہل کہنا پڑے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کو بیان الاقوامی معاہدوں کی بابت کچھ بھی قانونی نالج نہیں۔ بہر حال کس کس قیامت پر نوحہ کیا جائے۔ ہماری حکومتیں نہ صرف کاروبار سے عملی طور پر نفرت کرتی ہیں بلکہ حکومت کی تمام مشینری کی کوشش ہوتی ہے کہ خدا نخواستہ کوئی بھی کاروبار کامیاب نہ ہو جائے۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر‘ میں موجودہ جمود‘ اس کی عملی نشانی ہے۔

پاکستان کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کا حجم تمام مشکلات کے باوجود‘ ہر انڈسٹری سے بالا تر ہے۔ اس شعبہ کا حجم 1.

8ٹریلین ڈالر ہے۔ ملک میں کوئی بھی حکومت‘ لوگوں کو رہنے کے لیے گھر مہیا نہیں کر سکتی ۔ کسی بھی حکومت کی استطاعت ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پاس اتنا سرمایہ ہے کہ پچیس کروڑ لوگوں کی اس بنیادی ضرورت کو ٹھوس بنیادوں پر پورا کیا جائے۔ مگرسوال یہ ہے کہ تقریباً دو ٹریلین ڈالر کی اس سونے کی چڑیا سے اتنا بغض اور کینہ والا سلوک کیوں کیا گیاہے؟ یہ عرض کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ن لیگ جب بھی حکومت میں آتی ہے یا لائی جاتی ہے تو اس کی رئیل اسٹیٹ سکیٹر سے عداوت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ وہ پورا سیکٹر ان لوگوں کے لیے ’’ دعائیہ کلمات‘‘ ادا کرتا نظر آتا ہے۔ اس شعبہ سے ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کا روز گار منسلک ہے۔

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ گھر بنانے کے شعبہ سے چالیس صنعتیں جڑی ہوئی ہیں۔ مگر طالب علم کے تجزیہ کے مطابق‘ یہ نمبر پورا سچ نہیں ہے۔ میری دانست میں پچھتر (75) کے قریب ایسے شعبے ہیں جو رئیل اسٹیٹ سے وابستہ ہیں۔ رئیل اسٹیٹ کی حیثیت اس ملک کے لیے ایک گروتھ انجن کی ہے جو ان گنت ریل کے ڈبوں کا بوجھ اپنے پیچھے زبردستی کھینچ رہا ہے۔ تکلیف وہ سچ یہ ہے کہ اس شعبہ کو سرکاری سطح پر کسی طرح کی کوئی سہولت حاصل نہیں ہے۔

ہمارے موجودہ وزیر خزانہ‘ ہو سکتا ہے کہ اچھے اکانومسٹ ہوں۔ مگر انھیں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے متعلق صرف کتابی معلومات ہیں۔ تو پھر مجھے بتایئے کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی مشکلات کو کون اور کیونکر حل کر پائے گا۔ ؟ جہاں تک موجودہ وزیراعظم کا تعلق ہے ان کے لیے‘ اس شعبہ کی بحالی کسی قسم کی کوئی ترجیح نہیں۔ وہ بار بار اعلان تو فرما دیتے ہیں کہ جناب بس ایک کنسٹرکشن پیکیج لایا جا رہا ہے۔

اس کے بعد‘ وہ مسودہ ‘ کسی مردہ فائل کا حصہ بن کر کسی بابو کی میز پر تدفین کے لیے پڑا رہتا ہے۔ ویسے موجودہ وزیراعظم کو ریاستی اداروں نے بھی کہا ہے کہ آپ اس اہم ترین شعبہ پر توجہ دیں۔ ریلیف پیکیج کا اعلان کریں۔ بنیادی مسودہ بھی بنا کر ان کے حوالے کیا گیا ہے۔ مگر وہ اسے منظور فرماتے ہیں اور نا اسے نامنظور کرتے ہیں۔ کبھی آئی ایم ایف سے منظوری کا بہانہ تراشہ جاتا ہے اور کبھی اسے کسی ایسے مہاشہ کے سپرد کر دیا جاتا ہے ‘ جو اس شعبہ کی الف بے سے بھی واقف نہیں ۔ نتیجہ یہ کہ ملک کا کھربوں روپے کا مسلسل نقصان ہو رہا ہے۔ بنے ہوئے گھر کھڑے ہیں۔ گاہک موجود نہیں۔ رئیل اسٹیٹ انڈسٹری کے معتبر لوگ بھی مایوس ہو کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔

ایک گزارش مزید کرنا چاہتا ہوں ۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ ‘ ہر حکومت کی آنکھ کا تارا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ ڈالر کما کر خزانہ بھردیتے ہیں۔ انھیں ہر حکومت ہر وہ سہولت دیتی ہے جو وہ مونہہ سے نکالتے ہیں۔ مگر تمام تر زور لگانے کے باوجود‘ ہماری برآمدات ‘ پندرہ بلین ڈالر سے بڑھ نہیں پاتی۔ یعنی ہر جائز اور ناجائز بات منوانے کے باوجود ‘ ٹیکسٹائل کا شعبہ اتنا کمزور ہے کہ وہ محض پندرہ بلین ڈالر کما سکتا ہے۔ ذرا دوسرے ملکوں سے موازنہ تو فرمایئے۔ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ایکسپورٹ 57 بلین ڈالر ہے۔ ویت نام میں اس شعبہ کی برآمدات چالیس بلین ڈالر سے اوپر ہیں۔

ہمارا ٹیکسٹائل کا شعبہ بہت پیچھے ہے۔ مگر حکومتی عنایات ہیں کہ ان پر برس رہی ہیں۔ یہی معاملہ چینی اور سیمنٹ بنانے والے کارخانوں کا ہے۔ کیونکہ اس شعبہ میں حکومتی اکابرین خود شامل ہیں۔ لہٰذا یہاں ہر طریقہ کا منافع بخش کھیل‘ بڑی ’’معصومیت‘‘ سے کھیلا جاتا ہے اور آج بھی کھیلا جا رہا ہے۔ سرکار کے لوگ اکثر دعویٰ فرماتے ہیں کہ کالا دھن‘ رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں چھپایا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جزوی طور پر یہ بات درست ہو۔ مگر جناب ذرا دوسرے شعبوں کو بھی اسی نظر سے پرکھنے کی کوشش کریں۔ کالا دھن تو اس ملک کے ہر شعبہ میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے۔ کیا ابھی تمام اخبارات میں یہ خبر نہیں آئی کہ ٹیکسٹائل کمپنیاں ‘ آئی ٹی کی جھوٹی برآمدات ظاہر کر کے ‘ اس کی آڑ میں کوئی اور دھندا کر رہی ہیں۔ وزیراعظم بھی خاموش اور وزیر خزانہ نے بھی چپ رہنے میں عافیت سمجھی۔

 ذرا سابقہ حکومت کے تین سال کے دورانیہ کو پرکھیے ۔ پراپرٹی دن دگنی ‘ رات چوگنی ترقی کر رہی تھی۔ روز گار زوروں پر تھا۔ مگر جب سے رجیم چینج ہوئی ہے اس شعبہ کو منفی بنا کر برباد کر دیاگیا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ موجودہ حکومت سمجھ داری سے کام لے ۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی بحالی کے لیے ہر طرح کا ریلیف پیکیج بنائے اور مثبت فیصلہ سازی کرے ۔آخر رئیل اسٹیٹ سکیٹر سے اتنی دشمنی کیوں؟

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رئیل اسٹیٹ سیکٹر سرمایہ کاری بلین ڈالر شعبہ کی ملک میں جاتا ہے نہیں ہے دبئی کی ہیں کہ رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

مہنگائی ساڑھے 9 سال کی کم ترین سطح پر، عطا تارڑ: پائیدار ترقی میں نجی شعبہ کا اہم کردار، محمد اورنگزیب

اسلام آباد (نمائندہ  خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں نے ریکارڈ ترسیلات پاکستان بھجوائیں، پاکستان کے معاشی اشاریے مثبت ہو رہے ہیں، دوست ممالک پاکستان کی معاشی ترقی کے معترف ہیں، پاکستان کے مفاد کے لئے جو بھی اقدامات اٹھانا پڑے، اٹھائیں گے، تعمیر و ترقی کا سفر جاری رہے گا۔ ہفتہ کو وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے ہمراہ میڈیا سے اہم گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اوورسیز پاکستانیز لائق تحسین ہیں جنہوں نے ریکارڈ ترسیلات زر پاکستان بھجوا کر ملکی ذخائر میں اضافہ کیا۔ پاکستان کے مجموعی معاشی اشاریے مثبت ہو رہے ہیں، دوست ممالک پاکستان کی معاشی ترقی کے معترف ہیں، مہنگائی میں کمی آ رہی ہے، میکرو اکنامک انڈیکیٹرز بہتر ہوئے ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور ترسیلات زر بہتر ہوئی ہیں۔ مہنگائی ساڑھے نو سال کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے جو بہت بڑی کامیابی ہے۔  ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان جب پاکستان آئے تو انہوں نے پاکستانی معیشت کی بہتری اور اس ضمن میں وزیراعظم اور فنانس ٹیم کی کاوشوں کو سراہا، ازبکستان کے صدر نے پریس کانفرنس کے دوران پاکستان کی معیشت کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت ڈیفالٹ کے دہانے سے استحکام اور اب گروتھ کی طرف بڑھ رہی ہے، اس کا عوام کو فائدہ پہنچنا شروع ہوگیا ہے۔  چینی کے حوالے سے وزیراعظم نے جو اقدامات اٹھائے وہ تاریخ میں کبھی نہیں لئے گئے، سیلز ٹیکس کی وصولی ایک سال کے اندر 15 ارب سے 24 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے، اس پر بہت کام ہوا ہے۔ ایف بی آر کے ساتھ ایف آئی اے اور آئی بی کی ٹیموں نے مل کے ملز کی سکروٹنی کی اور جدید ٹیکنالوجی متعارف کرائی جس میں سی سی ٹی وی کیمرے، مانیٹرنگ سسٹم ، ہیومن انٹیلی جنس سمیت ملوں کے اندر بیگز پر سٹیمپس لگانا شامل ہے تاکہ ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ نہ ہو سکے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے پرائس کنٹرول میکنزم کے حوالے سے میٹنگ کی اور اسلام آباد کے حوالے سے انہوں نے بڑی سختی سے ہدایات جاری کیں اور وزراء کی مانیٹرنگ ٹیمیں بنائیں جو بازاروں اور دکانوں پر جاکر باقاعدہ ریٹ لسٹ چیک کریں اور گرانفروشوں کے خلاف کارروائی کی جائے، بہت سے ذخیرہ اندوزوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ چینی کی مانیٹرنگ شروع، 6 شوگر ملیں سیل کرکے 12 کروڑ روپے جرمانہ کیا جا چکا ہے۔ چینی افغانستان سمگل نہیں ہوئی بلکہ ایکسپورٹ ہوئی ہے۔ دریں اثناء وفاقی وزیر برائے خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب سے وزارت خزانہ میں اقوام متحدہ کے ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹر محمد یحییٰ نے ملاقات کی۔ ان کے ہمراہ یونیسف کے نمائندے عبداللہ فاضل بھی موجود تھے۔ملاقات میں قرضوں کے انتظام، قرضوں کی تنظیم نو، ماحولیاتی فنانسنگ، پائیدار ترقی کے اہداف اور پاکستان کے سبز توانائی کی طرف منتقلی جیسے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر اقوام متحدہ کے ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹر آفس کی سربراہ محترمہ افکے بوٹس مین اور ایف پی اے کے نمائندے ڈاکٹر لوئے شبانہ کے علاوہ وزارت خزانہ کے سینئر افسران بھی موجود تھے۔وزیر خزانہ نے گفتگو کے دوران اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو دو بڑے وجودی چیلنجز کا سامنا ہے: ماحولیاتی تبدیلی اور آبادی میں اضافہ۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ان دو بنیادی مسائل کو حل نہیں کیا جاتا، پاکستان میں معاشی استحکام اور ترقی پائیدار نہیں ہو سکتی۔ وزیر خزانہ نے ترقیاتی شراکت داروں کے تکنیکی تعاون کی اہمیت کو اجاگر کیا تاکہ ایسے مالی طور پر قابل عمل منصوبے تشکیل دیے جا سکیں جو بین الاقوامی معیارات کے مطابق مانیٹر کیے جائیں اور ان کی شفاف رپورٹنگ یقینی بنائی جائے۔انہوں نے پاکستان اور عالمی بینک کے درمیان شراکت داری کے تحت آبادی کے نظم و نسق اور تعلیمی فقدان جیسے دو بنیادی شعبوں پر جاری کام کا حوالہ دیا، جو حال ہی میں طے پانے والے 10 سالہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کا حصہ ہیں۔ واضح کیا کہ طویل مدتی، جامع اور پائیدار ترقی میں نجی شعبے کا کلیدی کردار ہونا چاہیے۔اجلاس میں ماحولیاتی فنانسنگ میں بہتری اور سبز توانائی کے فروغ کے لیے مزید اقدامات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا تاکہ پاکستان کو زیادہ پائیدار توانائی مستقبل کی طرف لے جایا جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • لوگ ناکام ہوجاتے ہیں، کیوں ؟
  • پی ٹی آئی ایسا راستہ اختیارکرے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، ڈاکٹر فاروق ستار
  • رئیل اسٹیٹ میں نئی تاریخ رقم: اے آئی ایجنٹ نے 100 ملین ڈالر کی پراپرٹی فروخت کردی
  • کسی طاقت کو تائیوان کو چین سے الگ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ، اسٹیٹ کونسل
  • کراچی، جام صادق پل ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا مگر کیوں؟ جانیے
  • فوج پر تنقید سے بڑی ملک دشمنی کیا ہوگی، وزیراعظم شہباز شریف
  • کراچی میں حادثات پر قابو پانے کیلیے مخصوص شعبہ روڈ ایکسیڈنٹ اینالیسس قائم
  • دہشت گردوں کے عزائم کو کچل دیا جائے
  • مہنگائی ساڑھے 9 سال کی کم ترین سطح پر، عطا تارڑ: پائیدار ترقی میں نجی شعبہ کا اہم کردار، محمد اورنگزیب