Express News:
2025-03-15@01:18:47 GMT

چینی کی قیمت، پیداوار اور برآمدات

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

بات دراصل یہ ہے کہ چینی کے بغیر ہمارا گزارا نہیں اور رمضان المبارک اور عیدالفطر کے موقعے پر چینی کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ چینی کے طرح طرح کے پکوان بنائے جاتے ہیں اور ہمارے ملک میں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کا ایک اہم ترین اور سدا بہار ذریعہ مٹھائی کی دکانیں ہیں اور اگر جس ماہ ملک بھر کی مٹھائی کی دکانوں کی سیل بڑھ جاتی ہے تو سمجھیں کہ ملک میں خوشحالی نے آنا شروع کردیا ہے اور اگر فروخت میں کمی ہو جائے، مٹھائیوں کی طلب میں کمی ہونی شروع ہو جائے تو سمجھ لیں کہ لوگوں کی جیب سے پیسے اِدھر اُدھر سرک گئے ہیں۔

چینی سے بنی ہوئی سوغات کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں مشہور ہے۔ مثلاً ملتان کا حلوہ اور چکوال کی پہلوان ریوڑی اور دیگر مٹھائیاں وغیرہ۔ چکوال کی پہلوان ریوڑی نے تو بہت جلد دنیا میں اپنا نام کما لیا ہے۔ چھپڑ بازار سے آم کے جوس کی دکان سے شروع ہو کر ایک کارخانہ ریوڑی بنانے کا اور پھر یہ کاروبار چکوال کی ریوڑیاں کے حوالے سے دنیا بھر میں پھیل گیا۔ اسی طرح تلہ گنگ کا صبونی حلوہ اور خوشاب کا ڈھوڈہ پتیسہ اور کراچی کا سوہن حلوہ، گوجرانوالہ کی برفی، حیدرآبادی ربڑی وغیرہ وغیرہ۔

پاکستان بننے کے بعد کئی عشروں تک چینی کی راشن بندی کی جاتی تھی اور غالباً 1968 تک 10 آنے فی سیر چینی مل جایا کرتی تھی۔ پھر اس کی راشن بندی ہونے لگی۔ 1975 میں 2 روپے60 پیسے فی کلو چینی راشن کی دکانوں سے مل جایا کرتی تھی وہ بھی راشن کارڈ دیکھ کر فی گھرانے کو 3 ،4 یا پانچ کلو چینی فراہم کرتے تھے۔ 1980 کی دہائی سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر چینی کے کارخانے لگتے چلے گئے، اب بتایا جاتا ہے کہ ان کی تعداد 84 ہے۔ پاکستان میں گنے کی وافر مقدار میں پیداوار بھی ہوتی ہے۔ چند سالوں سے اوسطاً 8 کروڑ ٹن تک ہے۔

اللہ رب العالمین نے پاکستانیوں کو ان کی من پسند خوراک چائے، مٹھائی، حلوہ جات، شیر خورمہ اور دیگر بہت سی میٹھی اشیا بنانے کے لیے اس ملک کو گنے اور چینی کی پیداوار میں خودکفیل بنایا ہے۔ البتہ بعض اوقات حکومت کی انتظامی صلاحیتوں کی ناکامی، غیر مناسب منصوبہ بندی اور غلط اندازے اور موسمی حالات کے باعث گنے کی پیداوار میں کبھی کمی بھی ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود چینی کی پیداوار اتنی ہو جاتی ہے کہ اگر ذخیرہ اندوزی نہ کی جائے، اسمگل نہ کردی جائے تو چینی کی پیداوار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ملکی کھپت پوری ہو جاتی ہے۔ ایسے میں چینی ریٹ کنٹرول کرنے کی حکومت کو ضرورت ہی نہ رہے۔

 پاکستان گنے کی پیداوار کے لحاظ سے اکثر دنیا میں پانچویں نمبر پر براجمان رہا ہے۔ اس کی فی ایکڑ گنے کی پیداوار اوسطاً 500 من ہے کہیں 1000 اور 12 سو من بھی ہے جب کہ دنیا کی اوسطاً پیداوار فی ایکڑ 600 من سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ پاکستانی پنجاب سے جڑے بھارتی پنجاب میں فی ایکڑ گنے کے علاوہ بھی ہر پیداوار پاکستان سے کہیں بہت زیادہ ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں کسان کو فی من گنے کی ادائیگی 6 سو سے 7 سو روپے کی جا رہی ہے اور ہندوستان میں ریٹ زیادہ دیے جاتے ہیں۔

اب پیداوار پر نظر ڈالتے ہیں 2021-22 میں سب سے زیادہ پیداوار حاصل ہوئی یعنی 8 کروڑ86 لاکھ 51 ہزار ٹن، 2018-19 میں پیداوار 5 سال میں سب سے کم تھی 6 کروڑ10 لاکھ ٹن۔2020-21 میں 8 کروڑ10 لاکھ ٹن۔ اب تسلسل اس بات پر ہے کہ تقریباً 8 کروڑ ٹن کے لگ بھگ گنے کی پیداوار اور چینی کی پیداوار اس سیزن میں جوکہ فروری تک اختتام کو پہنچا ہے 58 لاکھ ٹن چینی کی پیداوار ہوئی ہے۔ گنے کی فی ایکڑ پیداوار کے حساب سے سندھ اول نمبر پر ہے پھر پنجاب۔ پاکستان اپنی گنے کی پیداوار کا 75 فی صد چینی پیدا کرتا ہے۔ اس مرتبہ کہا جا رہا ہے کہ گنے کی پیداوار میں 15 فی صد کمی ہوئی ہے۔

اگرچہ چینی کی پیداوار تو کم نہیں ہے لیکن کارخانے دار چینی فروخت کرنے کے بجائے اس کو اسٹورکرنے میں دلچسپی بھی لے رہے ہیں۔ اب اس کا کیا فائدہ ہوگا۔ بات یہ ہے کہ نئے کرشنگ کے آغاز میں 8 ماہ درمیان میں حائل ہیں، اگر اسٹاک کو روک لیتے ہیں تو ایک طرح کی غیر حقیقی قلت پیدا ہو جائے گی۔ مارکیٹ میں چینی کی کمی سے اس کی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا، گزشتہ کئی مہینوں سے ایسا ہی ہو رہا ہے۔پاکستان کو چینی کا ایک بڑا خریدار ملک بنگلہ دیش حال ہی میں ملا ہے اور گزشتہ دنوں وہاں کی بندرگاہ چٹاگانگ میں 26 ہزار میٹرک ٹن چینی لے کر 53 سال بعد پہلا پاکستانی بحری جہاز لنگرانداز ہو چکا تھا۔

گنے کے علاوہ پاکستان میں چقندر سے بھی چینی بنائی جاتی ہے اور اس سال ایک لاکھ ٹن چینی بنائی گئی۔ کل چینی کی پیداوار 59 لاکھ ٹن پاکستانی صارفین کی ضرورت کے لیے ناکافی نہیں ہے، اس کے ساتھ کچھ مقدار برآمد کرکے چینی کے برآمدی ممالک میں اپنا نام لکھوائے رکھ سکتے ہیں۔ ان تمام کے باوجود اگر اس کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے، مارکیٹ میں چینی کی کمی یا شارٹیج ہو رہی ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ گنے کی پیداوار کم ہوئی ہے یا چینی کی۔ اصل وجہ کچھ اور ہے اور وہ ہے ناجائز منافع کمانا، ذخیرہ اندوزی کرنا، مصنوعی قلت پیدا کر کے فی کلو قیمت میں مسلسل اضافہ کیے جانا۔ لہٰذا حکومت چینی کی قیمت کو پچھلی سطح پر لے جانے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: چینی کی پیداوار گنے کی پیداوار پاکستان میں فی ایکڑ لاکھ ٹن جاتی ہے کی قیمت ہو جائے چینی کے رہا ہے ہے اور

پڑھیں:

چین کے وزیراعظم اگلے ماہ پاکستان آئیں گے، سی پیک منصوبوں کا جائزہ لیا جائے گا

اسلام آباد:

پاکستان میں چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ نے کہا ہے کہ اگلے ماہ چینی وزیراعظم پاکستان کا دورہ کریں گے اور اس دوران پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کا جائزہ لیا جائے گا۔

انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) میں چین کی بہار، چین کے مواقع، دنیا کے اشتراک کردہ کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا جہاں چینی سفیر جیانگ زیڈونگ نے بطور مہمان خصوصی خطاب میں کہا کہ آئی ایس ایس آئی کی تقریب میں شرکت کر کے خوشی ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ تقریب میں پاکستان اور چین کے تعلقات کو بھرپور انداز میں پیش کیا گیا ہے، پاکستان اور چین کی دوستی مضبوط ہے، ان دو سیشن میں پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے تمام ترقیاتی منصوبوں پر بات چیت کی گئی۔

چینی سفیر نے کہا کہ تقریب کے اکابرین نے پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کے علاوہ سیکیورٹی صورت حال اور سی پیک پر بات چیت کی، پاکستان اور چین کے تعلقات کے حوالے سے ہم ہر مرتبہ بات کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی وزیراعظم اور صدر مملکت نے چین کا سرکاری دورہ کیا، اپریل میں چینی وزیراعظم پاکستان کا سرکاری دورہ کریں گے، ان کے دورے سے متعلق تمام امور پر بات چیت کی گئی ہے۔

چینی سفیر نے کہا کہ دورے کے دوران پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے سمیت مختلف شعبوں کا جائزہ لیا جائے گا۔

سیمینارز سے چین میں پاکستان کے سابق سفیر مسعود خان نے خطاب میں کہا کہ بین الاقوامی سطح پر چین سب سے زیادہ طاقت ور ملک ہے، افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاکستان کو دہشت گردی کے خطرات کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک کو ان حلقوں کی طرف سے بہت سی پابندیوں اور منفی پروپیگنڈے کا سامنا کرنا پڑا جو اس کے مخالف ہیں۔ سی پی ای سی، بی آر آئی کو کمزور کرنے کے لیے بہت سے وسائل مختص کیے ہیں۔

مسعود خان نے کہا کہ ہمیں ان کا مقابلہ کرنے اور ان کی نفی کرنے کے لیے وسائل بھی مختص کرنے چاہئیں، پروپیگنڈا جنگ بہت خطرناک ہے کیونکہ یہ بیانیہ کی شکل اختیار کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بیانیہ سازی میں بھی سرمایہ کاری کرنی چاہیے، ہم چین کی ترقی کا جشن مناتے ہیں کیونکہ ہم نے چین کی ترقی سے فائدہ اٹھایا ہے، پاک-چین مشترکہ بھلائی کے لیے مل کر کام کریں گے۔

سابق سفیر نے کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان  شاعری اور نثر میں ہم آہنگی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چینی قیمت پر سٹہ بازی کی جاتی ہے، مصد ق ملک
  • ملک میں چینی کی کوئی قلت نہیں، ترجمان شوگر ملز ایسوسی ایشن
  • چینی کی قیمتوں میں 14 روپے فی کلو کا اضافہ،پریشان کن خبر آ گئی
  • صنعتی کاروبار کو دستاویزی شکل دینے کیلیے آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری
  • ایف بی آر نے آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری کر دی
  • کچھ لوگوں کو پی ٹی آئی کا لبادہ پہناکر ٹوئٹس کروائی جاتی ہیں، سلمان اکرم راجا
  • خوردہ فروشوں کی لالچ نے چینی کی فی کلو قیمت 180 روپے تک پہنچادی
  • مونو کلونل اینٹی باڈیز اور ہماری شراکت داری
  • چین کے وزیراعظم اگلے ماہ پاکستان آئیں گے، سی پیک منصوبوں کا جائزہ لیا جائے گا