Express News:
2025-03-15@01:18:47 GMT

دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے یگانگت درکار

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سیاست اپنی جگہ لیکن دہشت گردی کے خلاف اکٹھا ہونا ہوگا۔ کوئٹہ میں وزیراعظم کی زیر صدارت جعفر ایکسپریس حملے کے بعد کی صورتحال اور بلوچستان میں امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے بریفنگ دی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ گھس بیٹھیے، دوست نما دشمن ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اگر ہم نے دہشت گردوں کا صفایا نہیں کیا تو ملک کی ترقی کے سفر کو بریک لگ جائے گی، ہم اے پی سی بھی کریں گے، بلوچستان کے مسائل پر بات کریں گے۔

 بلاشبہ وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف کا دورہ کوئٹہ نہایت اہمیت کا حامل ہے، دونوں نے جعفر ایکسپریس کے زخمی مسافروں کی عیادت کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ پوری قوم دہشت گردوں کے خلاف ایک پیج پر ہے، یہ ایک مستحسن عمل ہے جس کی پیروی ہماری ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو کرنی چاہیے، انھیں بھی خود جاکر شہید اور زخمی ہونے والے افراد کے اہل خانہ سے اظہار یکجہتی کرنا چاہیے۔ دوسری جانب اس دہشت گردی کے مسئلے پر آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

 دراصل پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے بھارت و افغانستان دہشت گردوں اور ان کی تنظیموں کی سرپرستی کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں غیر ریاستی عناصر مختلف طرح کی بے رحمانہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد دہشت گردوں کو سرحد پار محفوظ پناہ گاہیں مل گئی ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردانہ حملے تیزی سے بڑھے ہیں۔ پکتیکا افغانستان کے مشرقی حصے میں واقع وہ صوبہ ہے، جس کی سرحدیں خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے ملتی ہیں۔ اس لیے اسے پورے جنوبی ایشیا میں اسٹرٹیجک اہمیت حاصل ہے۔ یہ صوبہ سرحدی تنازعات، سرحد پار غیر قانونی نقل و حرکت اور دہشت پسندوں کی پناہ گاہوں کے سبب بہت معروف ہے۔

نیٹو افواج جب افغانستان میں داخل ہوئیں تو پکتیکا ایک جنگی میدان بن گیا۔ پاکستانی سرحد قریب ہونے کے سبب شروع سے پاکستانی طالبان کے تمام گروپ بھی وہاں موجود رہے، وہ اسے اپنی محفوظ پناہ گاہ سمجھتے ہیں۔ افغان طالبان کی حکومت نے اس علاقے میں اپنی حکومتی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے یہاں عوامی خدمات فراہم کرنے کے نام پر ٹی ٹی پی کے لوگوں کو تحصیلوں میں اہم عہدوں پر فائز بھی کیا۔ یہ افغان پختونوں کا مسکن ہے، افغان تاریخ میں کئی اہم ثقافتی اور جنگی واقعات کا گواہ رہا ہے۔ یہاں پختون قبائل نے اپنی خود مختار حکومتیں بھی قائم کیں۔ امریکا اور نیٹو افواج سے بھی تقریباً یہی نبرد آزمائی ہوئی۔ اس کی بنیادی وجہ اس علاقے کے لوگوں کی جنگی حکمت عملی ہے۔

پکتیکا کی زمین چونکہ پہاڑوں، وادیوں اور دریاؤں پر مشتمل ہے اس لیے مقامی جنگجو گوریلا وار لڑتے ہیں۔ چھاپہ مار کارروائیاں، پہاڑی راستوں پر جنگیں اور سرنگوں کا استعمال ان کی حکمت عملی شمار کیا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگوں نے ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف یہی حکمت عملی استعمال کی اور پکتیکا کو ایک جنگی گڑھ بنانے میں کامیاب رہے۔ اس وقت کی افغان حکومت کو چاہیے کہ پاکستان پر الزام لگانے کے بجائے وہ اس صوبے کا مزاج بدلنے کی طرف توجہ دے اور یہاں پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا خاتمہ کرے۔

گلوبل ٹیرر ازم انڈیکس کے مطابق پاکستان میں گزشتہ پانچ سالوں سے دہشت گردانہ حملوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دہشت گردانہ حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں کے پچاس فیصد سے زائد کی کالعدم عسکری تنظیم ٹی ٹی پی ذمے دار ہے۔ اس بات کا انکشاف انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس کی طرف سے رواں برس کے لیے جاری کیے جانے والے گلوبل ٹیرر ازم انڈیکس دو ہزار پچیس میں کیا گیا ہے۔ سڈنی میں دو ہزار سات میں قائم کیے جانے والے دنیا کے اس ممتاز تھنک ٹینک کی تحقیق کو اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کے عالمی تحقیقاتی اداروں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

اس انڈیکس کے مطابق دہشت گردانہ کارروائیوں کی زد میں آنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر افریقی ملک برکینا فاسو، دوسرے پر پاکستان اور تیسرے نمبر پر شام ہے۔ انڈیکس کے مطابق یہ مسلسل پانچواں سال ہے، جب پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، پاکستان میں سال دو ہزار چوبیس میں ایک ہزار نناوے حملے ہوئے۔ یہ پچھلے دس برسوں کے دوران پاکستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی سالانہ تعداد میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ تھا۔

 بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کے باعث پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر دباؤ بڑھا ہے اور وسائل کی کمی کے باوجود ان کی قربانیاں قابل تعریف ہیں، پڑوسی ممالک خصوصاً افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہوئے ہیں اور باہمی تجارت کو بار بار دھچکا لگا ہے۔ ملک میں دہشت گردی کے خلاف کامیابی کو عالمی طاقتوں نے سراہا، لیکن کئی چیلنجز اب بھی باقی ہیں۔ ہماری فوج اور انسداد دہشت گردی سے متعلق دیگر ادارے دہشت گرد عناصر کو کچلنے میں مصروف ہیں۔ انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے اس کے اصل اسباب کو ختم کرنا ہو گا۔ ہم ایک طرف انتہا پسندی کو ختم کرنے کی شاید رسمی سی حمایت تو کرتے ہیں لیکن اپنے اندر اور آس پاس چھپے ان بتوں کو توڑنے کے لیے تیار نہیں جو انتہا پسندی کی سوچ کے پتھروں سے تعمیر ہوئے ہیں۔

 القاعدہ، طالبان یا داعش جیسے بدنیت گروہوں نے مذہبی نظریات کو غط رنگ دے کر معصوم نوجوانوں کو خوب ایکسپلائٹ کیا۔ اسلامی جذبے سے سر شارکچھ گروہوں نے انھیں واقعی اسلامی کازکے لیے کام کر نے والے مجاہد تسلیم کر لیا اور ان سے ہمدردی پیدا کر لی، نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کے ان نام لیوا جعلی مجاہدوں کے خلاف عوام میں سخت ردعمل پیدا نہ ہو سکا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانی عوام اپنے دلوں کو ٹٹولیں اور اسلام کے ان نام نہاد علمبرداروں کے لیے ہمدردی کے بتوں کو توڑ کر یکسوئی سے ان کے خلاف سرگرم ریاستی اداروں کی پر جوش حمایت کریں۔ دہشت گردوں کا اصل چہرہ پہچانیں جو ملکی سالمیت سے کھیل رہے ہیں۔

 دوسری جانب ہماری سیکیورٹی فورسز ان کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ صرف ہمہ وقت تیار ہیں بلکہ ان کے مذموم عزائم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح قائم ہیں، اسی لیے ان کی طرف سے سیکیورٹی فورسز کے خلاف سوشل میڈیا پر مسلسل منفی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے تاکہ عوام کے دلوں سے اس محبت کو ختم کیا جاسکے جو سیکیورٹی فورسز کے لیے ایک ڈھال کا کام کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قومی اور ملکی مفاد کی بنیاد پر اتحاد و یکجہتی کا عنصر دکھائی نہیں دیتا اورہر جماعت مخالف سیاسی جماعت کے خلاف دست و گریبان دکھائی دیتی ہے ۔

دوسری جانب یہ بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سیاسی قائدین کی اکثریت بھی لسانی، نسلی،گروہی اور سیاسی اختلافات کی بنیاد پر باہم متصادم نظر آتی ہے۔ پاکستان نے 1971 کے بعد کبھی اس قسم کی تقسیم معاشرے میں سیاسی بنیادوں پر نہیں دیکھی جیسا کہ آج کل دیکھنے میں نظر آرہی ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں مسلسل دہشت گردی کے واقعات کا ہونا ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہماری سیکیورٹی فورسز ان واقعات کی روک تھام کے لیے بر سر پیکار ہیں۔ اس صورتحال میں اگر کوئی سیاسی وعلاقائی جماعت سیکیورٹی فورسز کے خلاف عوام کو بھڑکانے کی کوشش کرتی ہے تو وہ ملک کی سالمیت اور بقا کے ساتھ کھیل رہی ہے جس کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی۔

 پہلی بار جب ٹی ٹی پی نے ریاست کے لیے خطرات پیدا کیے تو اس کے خلاف عوام اور سیکیورٹی اداروں نے ملکر جنگ لڑی اور جیتی جسے پوری دنیا میں ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

آج جب ایک بار پھر سے دہشت گرد ملکر پاکستان کے خلاف صف آراء ہیں تو یہاں عوام کی ذمے داری بنتی ہے کہ کسی بھی مشکوک شخص یا مشکوک سرگرمی کی اطلاع سیکیورٹی اداروں کو دیں۔ دہشت گردوں کی جانب سے کسی بھی خوف یا دھمکی کیوجہ سے اپنے گھر بار چھوڑنے سے انکار کریں اور اگر ان علاقوں میں سیکیورٹی ادارے کوئی فوجی آپریشن کرنا چاہتے ہیں تو اس کو سپورٹ کریں، کیونکہ دہشت گردی کے خلاف عوامی حمایت بہت ضروری ہے۔

تمام سیاسی جماعتوں کو بلا تفریق دہش گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کے اس عفریت سے نمٹنے کے لیے اندرونی یگانگت درکار ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ اس وقت پاکستان کے دشمنوں کا اصل نشانہ پاک فوج اور عوام کے درمیان ہم آہنگی ہے۔ ہمیں ہر حال میں منفی پروپیگنڈے سے بچنا ہے تاکہ پاکستان کے دشمن ملکی سالمیت کو نقصان نہ پہنچا پائیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دہشت گردانہ حملوں سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے گردی کے خلاف کے خلاف عوام پاکستان میں پاکستان کے میں ہونے رہے ہیں جاتا ہے نے والے کرنے کے کے لیے

پڑھیں:

بلوچستان اسمبلی : دہشت گردی کے واقعات، بلوچ خواتین کو خود کش بمبار بنانے کے خلاف قرارداد پیش

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی میں مشیر کھیل مینا مجید نے دہشت گردی کے واقعات اور بلوچ خواتین کو خود کش بمبار بنانے کے خلاف قرارداد پیش کی۔ اجلاس میں جعفرایکسپریس دہشت گردی میں جاں بحق افراد کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔
اسپیکرعبدالخالق اچکزئی کی زیر صدارت بلوچستان اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیراعلی سرفراز بگٹی سمیت حکومتی اراکین اسمبلی نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعلیٰ کی مشیربرائےکھیل مینا مجید نے بلوچ خواتین کو خودکش بمبار بنانے، دہشت گردی واقعات کے خلاف قرارداد ایوان میں پیش کردی۔
مینا مجید نے کہا کہ بلوچستان میں خواتین خود کش بمبار کا بڑھنا انسانیت کیلئے خطرہ ہے، دہشتگرد تنظیمیں بلوچ خواتین کو مذموم مقاصد کیلئے استعمال کر رہی ہیں۔
مشیر وزیراعلٰی برائے کھیل نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگرد تنظیمیں دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کار فرما ہیں، دہشتگرد تنظیمیں بلوچ خواتین کی نسل کشی کررہی ہیں۔ حکومت دہشت گرد گروہوں کے خلاف فوری کارروائی یقینی بنائے۔

اجلاس کے دوران نومنتخب رکن اسمبلی علی مدد جتک نے اسمبلی کی رکنیت کا حلف لے اٹھا لیا۔ اجلاس میں شہداء کیلئے فاتحہ خوانی اور دعائے مغفرت کی گئی۔
اسمبلی سیشن میں صوبائی وزیر سردار عبد الرحمان کھیتران نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں دہشتگردوں کے حوالے سے اظہارکیا تھا، گزشتہ روزجان سے مارنے کی دھمکیاں اورگالم گلوچ دی گئیں، جومعصوم شہریوں کو مارتے ہیں وہ دہشت گرد ہیں۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے اور دہشت گردی میں بھارت ملوث ہے، گورنر سندھ
  • دہشت گردی کے خلاف اے پی سی بلائی جائے، تحریک تحفظ آئین پاکستان
  • جعفر ایکسپریس حملے پر ٹوئٹ کے حوالے سے چیئرمین پی ٹی آئی کا ردعمل بھی آگیا
  • ہم سب مل کر دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں کامیاب ہونگے: بلاول بھٹو
  • جعفر ایکسپریس دہشت گردی: پیوٹن کا پاکستان کو تعزیتی پیغام، دہشت گردی کے خلاف مل کر لڑنے کا عزم
  • چین پاکستان کےانسداد دہشت گردی عزم کا مضبوط حامی ہے، چینی میڈیا
  • دہشت گردی افسوسناک، دشمنوں کا ناپاک گٹھ جوڑ سمجھ چکے، قوم فوج کیساتھ ہے: سیاسی رہنما
  • بلوچستان اسمبلی : دہشت گردی کے واقعات، بلوچ خواتین کو خود کش بمبار بنانے کے خلاف قرارداد پیش
  • دہشت گردی کے سائے میں جکڑا پاکستان