اسلام آباد:

رمضان المبارک کے دوران مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس دوران  کئی اشیا مزید مہنگی ہو گئی ہیں۔

وفاقی ادارہ شماریات نے ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگائی کے اعداد و شمار جاری کردیے، جس کے مطابق رمضان المبارک کے دوسرے ہفتے میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ ریکارڈ  ہوا ہے اور ایک ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح 0.

22 فیصد مزید بڑھ گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق مسلسل پندرہویں ہفتے چینی کی قیمت میں اضافہ ریکارڈ  کیا گیا ہے، جس کے مطابق ایک ہفتے میں چینی 9 روپے26 پیسے فی کلو تک مزید ہو گئی۔ اسی طرح ایک ہفتے میں 12 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق ایک ہفتے میں ٹماٹر 21  روپے37 پیسے فی کلو مہنگا ہوا، برائلر مرغی 30 روپے64 پیسے فی کلو مہنگی ہو گئی جب کہ حالیہ ہفتے میں کیلے 12 روپے 18 پیسے فی درجن اور  بیف 6 روپے کلو مہنگا ہوا۔

علاوہ ازیں  ایک ہفتے میں ایل پی جی گھریلو سلنڈر 46 روپے19 پیسے مہنگا ہوا۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ایک ہفتے میں 15 اشیا سستی اور 24 اشیا کی قیمتیں مستحکم رہیں ۔  پیاز کی فی کلو قیمت میں 13 روپے 97کمی ہوئی۔ حالیہ ہفتے آلو 5روپے 16 پیسے فی کلو، لہسن 35 روپے فی 63 پیسے فی کلو سستا ہوا۔ اسی طرح ایک ہفتے میں دال چنا 6 روپے تک، دال ماش 2 روپے28 پیسے فی کلو سستی ہوئی۔

ان کے علاوہ انڈے ،دال مسور، چاول، خوردنی تیل اور گھی سستی ہونے والی اشیا میں شامل ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے مطابق ہفتے میں ایک ہفتے ہو گئی

پڑھیں:

ریاست کو بدلنا ہو گا

صدر مملکت آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں حکومتی پالیسیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے، اسٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند سطح پر پہنچ گئی جب کہ دیگر معاشی اشاریوں میں بہتری آئی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کو آیندہ بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافے، تنخواہ دار طبقے پرانکم ٹیکس کم کرنے اور توانائی کی لاگت کم کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔

 صدرآصف علی زرداری کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے آٹھویں بار خطاب کے ساتھ ہی ملک میں نئے پارلیمانی سال کا آغاز ہوگیا ہے، صدر مملکت نے حکومت کی معاشی کامیابیوں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔گو صدر مملکت کے خطاب کے دوران اپوزیشن اراکین نے شور شرابا کیا، یہ شور وہنگامہ ہماری پارلیمانی روایت کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ ملکی معیشت کی مضبوطی کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے سیاسی استحکام اولین ضرورت ہے بلکہ ناگزیر ہے۔ اپوزیشن اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر احتجاج کرسکتی ہے اور یہ اس کا جمہوری حق ہے البتہ جمہوری نظام میں ہر حق کے ساتھ کچھ فرائض بھی ہوتے ہیں جن کی پاسداری تمام پارلیمنٹرینز کو کرنی چاہیے۔

پاکستان میں اشرافیہ کو جو سہولیات اور مراعات حاصل ہیں، اس کا حجم بہت زیادہ ہوچکا ہے ۔ سرکاری افسروں اور آئینی عہدیداروں اور ان کے اسٹاف افسران کی تنخواہوں سے زیادہ ان کی مراعات اور دیگر سہولتیں ہیں ، جن کا بجٹ کروڑوں روپے ماہانہ ہے۔

حالیہ دنوں میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کی تنخواہ میں بھاری بھر کم اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کے نتیجے میں تنخواہوں میں تقریباً 140 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اس سے تو لگتا ہے کہ پاکستان میں نہ صرف کوئی معاشی مسائل نہیں ہے بلکہ خزانہ لبا لب بھر چکا ہے۔ اس سے قبل پنجاب اسمبلی کے ارکان وزراء اور دیگر حکام کی مراعات بھی بڑھائی گئی ہیں۔ سندھ اور خیبر پختون خوا کے عوامی نمایندے بھی مراعات میں اضافے کے لیے دیگر صوبوں سے پیچھے نہیں ہیں۔

آئی ایم ایف سے قرض لیتے ہوئے ہر مرتبہ ہمارے حکمران کہتے ہیں کہ ’’ یہ آخری پروگرام ہے‘‘ ایسے دعوؤں کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی ہوتی کہ ایک نیا پروگرام مانگ لیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کے لیے اس کی سخت شرائط بھی تسلیم کر لی جاتی ہیں۔ جن کا خمیازہ ملک کے عوام بھگتے ہیں۔ ایسی یقین دہانیاں کرائی جاتی ہیں جن کو پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔

 سرکاری اداروں اور پارلیمان کے بجٹ میں اس قدر بڑا اضافہ کفایت شعاری کے بلند و بانگ دعوؤں کے بالکل برعکس ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ معیشت مضبوطی کی طرف جا رہی ہے لیکن ابھی اتنی مضبوط نہیں ہوئی کہ اخراجات میں بے محابہ اضافہ کردیا جائے، اگر حکومت سمجھتی ہے کہ عوامی نمایندے واقعی ایسی مراعات کے حقدار ہیں تو عام آدمی کا کیا قصور ہے۔ اس کو بھی اسی طرح ریلیف دیا جائے، خاص طور پر سرکاری اور نجی شعبے کے ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات بھی اسی تناسب سے بڑھائی جائیں۔

کہنے کو توحکومت یہ دعوے کرتی ہے کہ مہنگائی بڑھنے کی شرح بہت کم ہو گئی ہے لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ مہنگائی بڑھنے کی شرح میں کمی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مہنگائی کم ہوگئی ہے ۔ زمینی حقائق کو دیکھیں تو مہنگائی بدستور موجودہے اور بہت زیادہ ہے۔ بجلی،گیس، پٹرول ہو یا ادویات، ان کی قیمتوں میں کمی نہیں ہوئی ہے ۔ نجی تعلیمی اداروں کی فیسیوں اور دیگر اخراجات میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔

غربت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ملک کی کثیر آبادی اس وقت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ تنخواہ دار و دیہاڑی دار طبقہ اس ساری بدحالی سے بہت زیادہ متاثر اور شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔

اس ساری صورتِ حال میں سب سے زیادہ مشکل سفید پوش طبقے کی ہے۔ مہنگائی کی شرح کے تناسب سے دیکھا جائے تو اگرکسی گھرانے کی آمدن 40 ہزار روپے تھی تو موجودہ مہنگائی کی وجہ سے اب اس کی آمدن کی قدر 20 ہزار رہ گئی ہے۔ حکومت اس مہنگائی کے باوجود عوام کو ریلیف دینے کے بجائے اعلیٰ سطح پر تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرنا درست پالیسی نہیںہے۔ مارکیٹ اور بازار میں نرخوں کے حوالے سے حکومتی عمل داری یقینی بنائی جائے،کیوں کہ اس کے بغیر اب چارہ بھی نہیں۔

اسی طرح ٹیکس دہندگان کے ساتھ زیادتی یا سوتیلے پن کا سلوک نہیں ہونا چاہیے کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ حکومت ان لوگوں کی کم پرواہ رکھتی ہے جنھیں ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور مہنگائی بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ نجی اداروں میں کام کرنے والوں کو تنخواہیں بڑھنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی جب کہ انھیں اپنی تنخواہ سے معقول رقم ٹیکس کی ادائیگی پر خرچ کرنا پڑے گی جب کہ سرکاری ملازمین کو حاصل دیگر مراعات اس کے علاوہ شمار ہوتی ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف آیندہ مالی سال 26-2025کے بجٹ کے لیے تجاویز دے گا۔ تنخواہ دار طبقے کو ریلیف آئی ایم ایف کی رضا مندی سے مشروط ہوگا۔

 حکومت کی طرف سے بار بار معیشت کی مضبوطی کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ ساتھ یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ مہنگائی کم ہوچکی ہے، مگرزمینی حقائق اس کے بالکل ہی برعکس ہیں۔ عام آدمی مہنگائی کی چکی میں بدستور پس رہا ہے۔2024کے انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے حکومتی اخراجات کم کرنے اور قومی بچت کے لیے ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی جس کی رپورٹ جون 2024 میں آگئی تھی۔

کمیٹی نے ابتدائی رپورٹ میں قلیل مدتی اور وسط مدتی سفارشات پیش کیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ سرکاری اداروں میں سروسز کی فراہمی کے لیے نجی شعبے کی خدمات لی جائیں، حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے سرکاری اہلکاروں کے غیر ضروری سفر پر پابندی عائد کی جائے اور ٹیلی کانفرنسنگ کو فروغ دیا جائے۔ رپورٹ میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ ایسے سرکاری افسران جو مونوٹائیزنگ کی سہولت حاصل کررہے ہیں، ان سے سرکاری گاڑیاں فوری واپس لی جائیں۔

ان کمیٹیوں کی سفارشات پر عمل کر لیا جائے تو یہ معیشت کی مضبوطی کی طرف ایک اور قدم ہوگا، اور ہم خود انحصاری کی طرف آئیں گے تو پاکستان کو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑے گا۔ مسلم لیگ نون پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے دعوے کرتی رہی ہے، حکومت ایک بار کڑوا گھونٹ پی لے۔ آئی ایم ایف کے رواں پروگرام کو واقعتاً آخری سمجھ لے۔

 پاکستان میں گھریلو اور صنعتی صارفین کے لیے بجلی کی قیمت نہ صرف خطے بلکہ دنیا میں مہنگی ترین بتائی جاتی ہے، ملک میں گزشتہ تین، چار برس سے بجلی کی قیمتوں میں مسلسل بے تحاشا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ مہنگی بجلی کی بدولت نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ صنعت بھی پریشانی کا اظہا کر رہی ہے۔ حکومت کے مطابق یہ اضافہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت کیا گیا تاہم اس کے ساتھ کیپسٹی پیمنٹ، بلوں کی عدم ادائیگی اور لائن لاسزکی وجہ سے بجلی صارفین سے بجلی کی کھپت سے زیادہ بل وصول کیا جا رہا ہے۔

حکومت بجلی کی قیمت میں کمی لانے کے لیے ایک طرف تو آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کررہی ہے تو دوسری جانب بلوں کی عدم ادائیگی اور لائن لاسز میں کمی لانے کے دعوے کر رہی ہے۔ وزارتِ توانائی کے مطابق آئی پی پیزکے ساتھ مشاورت کے بعد ملکی خزانے میں 1100 ارب روپے کی بچت کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے اقدامات سے کچھ وقتی سہولت تو مل سکتی ہے تاہم یہ توانائی کے شعبے کے مسائل کا دیرپا حل نہیں ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی زون پر تیزی سے کام مکمل کر کے بجلی کی اضافی ضرورت پیدا کرے تاکہ پیدا ہونے والی بجلی کو استعمال میں لایا جا سکے۔ جب تک حکومت توانائی کی قیمت کو کم نہیں کرتی ،اس کے معاشی اہداف حاصل نہیں ہو سکتے۔ بہرحال موجودہ حکومت نے انتہائی مشکل حالات میں اقتدار سنبھالا اور خاصی محنت کے بعد حالات کو بہتر بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں عوام کو اچھا ریلیف دیا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • رمضان کے دوران مہنگائی میں مسلسل اضافہ، کئی اشیا مزید مہنگی ہوگئیں
  • چینی کی قیمتوں میں 14 روپے فی کلو کا اضافہ،پریشان کن خبر آ گئی
  • رمضان کا دوسرا ہفتہ، مہنگائی کی شرح مزید بڑھ گئی
  • کراچی کے شہریوں کیلیے بجلی کی قیمت میں 4 روپے 85 پیسے فی یونٹ مزید کمی کا امکان
  • عمران خان کے ٹیکس میں اضافہ، نواز شریف کے ٹیکس میں کمی، سیاستدانوں نے کتنا ٹیکس جمع کروایا؟ تفصیلات سامنے آگئیں
  • امریکی پابندیاں، مہنگائی، ایرانیوں کیلیے اشیاء خریدنا مشکل
  • چینی کی قیمتوں کو پر لگ گئے، مسلسل مہنگی ہونے سے عوام پھٹ پڑے
  • اروشی روتیلا مہنگی ترین گاڑی خریدنے والی پہلی بھارتی اداکارہ بن گئیں
  • ریاست کو بدلنا ہو گا