’’امبانی کو نہیں جانتی، شادی میں شرکت محض اتفاق تھی‘‘، کِم کارڈیشن کا اعتراف
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
بھارت کے مشہور امیر ترین خاندان امبانی کی حالیہ شادی کی تقریب میں شرکت کرنے والی مشہور امریکی ماڈل کِم کارڈیشن نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ امبانی خاندان کو نہیں جانتیں۔
مشہور امریکی اسٹار کِم کارڈیشن اور ان کی بہن کلوئی کارڈیشن نے جولائی 2024 میں دیگر بین الاقوامی ستاروں کے ساتھ امبانی خاندان کی شادی میں شرکت کی تھی۔ ان کے ریئلٹی شو ’دی کارڈیشئنز‘‘ کی تازہ ترین قسط میں ممبئی کے ان کے 48 گھنٹے کے دورے کو دکھایا گیا ہے۔
اداکارہ نے اپنے ریئلٹی شو کی اس قسط میں اعتراف کیا کہ وہ امبانی خاندان کو نہیں جانتیں، لیکن انہوں نے دنیا کے دوسرے کنارے تک سفر کرکے ان کے سب سے چھوٹے بیٹے اننت امبانی اور رادھیکا مرچنٹ کی شادی میں شرکت کی۔
پروگرام کے ایک حصے میں کِم نے کہا ’’میں دراصل امبانی خاندان کو نہیں جانتی۔ البتہ، ہمارے کچھ مشترکہ دوست ہیں۔‘‘ کِم نے بتایا کہ جوہری لورین شوارٹز، جو امبانی خاندان کےلیے جیولری ڈیزائن کرتی ہیں، نے انہیں بتایا کہ امبانی خاندان کارڈیشئنز کو شادی میں مدعو کرنا چاہتے ہیں۔ لورین نے مجھ سے کہا کہ وہ شادی میں جارہی ہیں اور امبانی خاندان آپ کو مدعو کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے بغیر کچھ سوچے ’ہاں‘ کہہ دیا۔‘‘
کِم اور کلوئی نے شادی کے دعوت نامے کے بارے میں بھی بات کی، جو تقریباً 18 سے 22 کلو گرام وزنی تھا۔ کلوئی نے بتایا، ’’ہمیں جو دعوت نامہ ملا، وہ 40 سے 50 پاؤنڈ وزنی تھا اور اس سے موسیقی کی آواز بھی آتی تھی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’یہ بہت حیرت انگیز تھا، اس لیے جب ہم نے دعوت نامہ دیکھا تو ہم نے سوچا کہ ایسے موقع کو ٹھکرانا نہیں چاہیے۔‘‘
یاد رہے کہ اننت امبانی اور رادھیکا مرچنٹ کی شادی کی تقریبات مارچ 2024 میں جمنا گڑھ میں شروع ہوئی تھیں۔ پری ویڈنگ تقریبات میں ریحانہ نے پرفارم کیا تھا۔ اس موقع پر شاہ رخ خان، سلمان خان اور عامر خان نے بھی اسٹیج سنبھالا اور ایک خصوصی پرفارمنس پیش کی۔ دلجیت دوسانجھ اور ایکون نے بھی مہمانوں کےلیے پرفارم کیا۔
جمناگڑھ کے بعد امبانی خاندان مہمانوں کو یورپ کے ایک خصوصی کروز پر لے گیا، جس میں اٹلی میں بھی قیام کیا گیا۔ اس کروز پر بھارت کے سب سے بڑے بالی ووڈ اسٹارز بھی موجود تھے۔ جولائی میں ہونے والی شادی کی تقریبات میں جسٹن بیبر نے بھی پرفارم کیا۔ شریا گھوشال، ارجیت سنگھ جیسے کئی ہندوستانی فنکاروں نے بھی شادی میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں شرکت کو نہیں نے بھی
پڑھیں:
شہنشاہیت سے غربت تک کی دکھ بھری داستان، مغل خاندان کی آخری وارثہ 6 ہزار ماہانہ پینشن پر جینے پر مجبور
شہنشاہیت سے غربت تک کی دکھ بھری داستان، مغل خاندان کی آخری وارثہ 6 ہزار ماہانہ پینشن پر جینے پر مجبور WhatsAppFacebookTwitter 0 13 March, 2025 سب نیوز
کلکتہ(آئی پی ایس )کبھی تاج و تخت کے وارث، کبھی غلامی و زوال کے شکار، تاریخ کے صفحات ایسے بے شمار قصے سناتے ہیں، مگر کچھ کہانیاں دل کو چھو لینے والی ہوتی ہیں۔ یہ کہانی بھی ایک ایسی ہی شخصیت کی ہے، جو کبھی مغلیہ سلطنت کے شاندار ماضی سے جڑی تھی، مگر آج زندگی کی بنیادی سہولتوں کے لیے ترس رہی ہے۔جی ہاں، ہم بات کر رہے ہیں بہادر شاہ ظفر کی پڑپوتی سلطانہ بیگم کی، جو کبھی ایک شاہانہ زندگی کا خواب دیکھتی تھیں، مگر آج کولکتہ کی ایک تنگ و تاریک گلی میں گمنامی اور مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
شاہی خون، مگر بے بسی کا مقدر
سلطانہ بیگم کا نام سن کر شاید ذہن میں کسی عظیم الشان محل کا تصور ابھرے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان کی شادی 1965 میں میرزا محمد بیدار بخت سے ہوئی، جو خود کو بہادر شاہ ظفر کا پڑپوتا بتاتے تھے۔ سلطانہ بیگم اس وقت محض 14 سال کی ایک معصوم لڑکی تھیں، جبکہ ان کے شوہر 46 سال کے ایک ادھیڑ عمر مرد۔ یہ شادی محض ایک بندھن نہیں تھی، بلکہ تاریخ کی ایک ایسی کڑی تھی جس میں ماضی کی شان و شوکت اور حال کی بے بسی آمنے سامنے کھڑی تھیں۔مگر قسمت کو یہ بھی گوارا نہ ہوا۔ 1980 میں شوہر کے انتقال کے بعد، زندگی نے یکدم کروٹ بدلی اور شاہی ورثے کی یہ وارثہ دو وقت کی روٹی کے لیے بھی محتاج ہوگئی۔ کبھی جن کے آبا و اجداد ہندوستان کے تخت پر براجمان تھے، آج وہی ورثہ زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو جسے وہ اپنا گھر کہنے پر مجبور ہے۔
کولکتہ کی ایک تنگ گلی میں، شاہی خون کی آخری نشانی
سلطانہ بیگم آج ہاوڑہ، کولکتہ کی ایک خستہ حال بستی میں رہتی ہیں، جہاں روشنی کم اور اندھیرے زیادہ ہیں۔ ان کا گھر محض دو کمروں کا ایک چھوٹا سا جھونپڑا ہے، جہاں نہ مناسب پانی کی سہولت ہے، نہ ہی بجلی اور نہ ہی زندگی کی کوئی آسائش۔حکومت کی طرف سے انہیں صرف 6000 روپے ماہانہ پنشن ملتی ہے، جو آج کے دور میں زندہ رہنے کے لیے ناکافی ہے۔ ایک وقت تھا جب مغلوں کے نام سے دربار لرز جاتے تھے، اور ایک آج ہے کہ ان کی اولاد کو دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہے۔
1857 کی جنگ اور بہادر شاہ ظفر کی آخری آہ
یہ کہانی صرف سلطانہ بیگم کی نہیں، بلکہ تاریخ کے ایک المیے کی بھی ہے۔ بہادر شاہ ظفر، جو کبھی مغل تاج و تخت کے وارث تھے، 1857 کی جنگِ آزادی میں ہندوستانی باغیوں کے رہنما بنے، مگر برطانوی سامراج نے اس جنگ کو بے دردی سے کچل دیا۔ ظفر کو رنگون (موجودہ میانمار) جلاوطن کر دیا گیا، جہاں انہوں نے 1862 میں انتہائی بے بسی اور تنہائی میں جان دی۔کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ان کی پڑپوتی کو بھی اسی بے بسی اور لاچاری کی زندگی گزارنی پڑ رہی ہے؟ یا یہ تاریخ کا وہی بے رحم چکر ہے جو طاقتور سلطنتوں کو پہلے آسمان پر چڑھاتا ہے اور پھر زمین پر پٹخ دیتا ہے؟
کیا کوئی سنے گا؟
یہ سوال آج بھی اپنی جگہ موجود ہے، کیا بھارتی حکومت اس شاہی ورثے کی آخری وارثہ کو ان کا حق دے گی؟ کیا یہ صرف ایک خاندان کی کہانی ہے، یا پھر تاریخ کے ساتھ کی گئی ایک اور ناانصافی؟ یہ محض ایک فرد کی نہیں، بلکہ پوری ایک سلطنت کی درد بھری کہانی ہے، جو کبھی اپنے وقت کی سب سے طاقتور حکومت تھی، اور آج اس کا خون ایک گلی کے کونے میں بیٹھا انصاف کا منتظر ہے۔ کیا کوئی سنے گا؟ یا یہ داستان بھی وقت کے دھندلکوں میں کھو جائے گی؟