UrduPoint:
2025-03-14@15:38:35 GMT

تھرکول سے پیدا بجلی ہائیڈرو ذرائع سے بھی سستی ہے. لی جیگن

اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT

تھرکول سے پیدا بجلی ہائیڈرو ذرائع سے بھی سستی ہے. لی جیگن

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14 مارچ ۔2025 )سینو سندھ ریسورسز پرائیویٹ لمیٹڈ (ایس ایس آر ایل) کے چیف ایگزیکٹو افسر لی جیگن نے کہا ہے کہ تھر کے علاقے کے بلاک-1 سے بجلی کی پیداواری لاگت 5.52 روپے فی یونٹ ہے جو کہ ہائیڈرو ذرائع سے پیدا ہونے والی توانائی سے نمایاں طور پر سستی ہے.

رپورٹ کے مطابق یہ بات انہوں نے تھر کول اینڈ انرجی بورڈ (ٹی سی ای بی) کی جانب سے تھر کول فیلڈ کے بلاک-1 میں واقع اپنی 78 لاکھ ٹن سالانہ لگنائٹ کان کے لیے کمرشل آپریشنز کی تاریخ (سی او ڈی) اسٹیج ٹیرف کے تعین کے لیے ”ایس ایس آر ایل“ کی درخواست کے حوالے سے بلائی گئی عوامی سماعت سے خطاب کرتے ہوئے کہی سماعت میں مختلف اسٹیک ہولڈرز، ماہرین اور عوام کے ارکان نے شرکت کی.

(جاری ہے)

ٹی سی ای بی کے منیجنگ ڈائریکٹر طارق علی شاہ اور پریذائیڈنگ افسر و ممبر فنانس/پاور عمار حبیب خان اور رکن مائننگ تھر کول ٹیرف ڈیٹرمینیشن کمیٹی ڈاکٹر فہد عرفان صدیقی نے سماعت کی پریزنٹیشن کے دوران لی جیگن نے بریف کیا کہ یہ منصوبہ سندھ کے جنوب مشرقی حصے کے تھر کے علاقے میں واقع ہے اور اس منصوبے میں 660 میگاواٹ کے 2 ہائی پیرامیٹر سپر کریٹیکل کوئلے سے چلنے والے پاور جنریشن یونٹس شامل ہیں جنہیں لگنائٹ اوپن پٹ کوئلے کی کان سے سالانہ 78 لاکھ ٹن پیداوار سے سپورٹ ملتی ہے.

لی جیگن نے کہا کہ تھر کول فیلڈ بلاک 1 اوپن پٹ کوئلہ کان کا منصوبہ 150 کلومیٹر رقبے پر محیط ہے جس میں بلاک کے اندر تقریباً 2.6 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں انہوں نے کہا کہ پروجیکٹ کو نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کی میرٹ آرڈر لسٹ میں ایک سازگار پوزیشن پر رکھا گیا ہے جو کہ 5.52 روپے یا 0.02 سینٹ فی کلو واٹ فی گھنٹہ میں بجلی کا یونٹ بنا کر توانائی کے دیگر ذرائع کے مقابلے میں اس کی مسابقتی قیمت اور لاگت کی تاثیر کو ظاہر کرتا ہے.

تھر بلاک-1 انٹیگریٹڈ انرجی پروجیکٹ، بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کے توانائی کے شعبے میں ایک اہم اقدام ہے اور یہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) فریم ورک کے تحت توانائی کے بنیادی تعاون کے منصوبے کے طور پر کام کرتا ہے یہ منصوبہ شنگھائی، چین میں واقع سرکاری اور عوامی طور پر درج کمپنی شنگھائی الیکٹرک کی طرف سے تیار کیا گیا ہے اور اس کی مالی اعانت بھی یہی کرتی ہے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے لی جیگن

پڑھیں:

پاکستان کی نیٹ میٹرنگ پالیسی میں لاگت اور فوائد کی منصفانہ تقسیم کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے.ویلتھ پاک

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 مارچ ۔2025 )پائیدار شمسی توانائی کی ترقی کے لیے لاگت اور فوائد کی منصفانہ تقسیم کے لیے پاکستان کی نیٹ میٹرنگ پالیسی میں اصلاحات کی ضرورت ہے ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے وزارت توانائی کے ترجمان نے کہا کہ نیٹ میٹرنگ پالیسی نے عام طور پر شمسی پینل استعمال کرنے والے صارفین کو اپنی بجلی پیدا کرنے اور اضافی توانائی کو گرڈ میں واپس کرنے کی اجازت دی ہے بدلے میں وہ کریڈٹ حاصل کرتے ہیں جو ان کے بجلی کے بلوں کو پورا کرتے ہیں اس نظام نے خاص طور پر نو بڑے شہروں میں نمایاں ترقی دیکھی ہے جہاں نیٹ میٹرنگ کے 80فیصد صارفین رہتے ہیں تاہم نیٹ میٹرنگ کے فوائد بڑی حد تک ان شہری علاقوں کے متمول گھرانوں کے حق میں ہوتے ہیں جب کہ اخراجات تمام گرڈ صارفین میں تقسیم کیے جاتے ہیں.

انہوں نے کہاکہگزشتہ سال نان نیٹ میٹرنگ صارفین پر 102 ارب روپے کا بوجھ پڑا جس کی وجہ سولر صارفین کی طرف سے گرڈ کے استعمال میں کمی آئی اگر توجہ نہ دی گئی تو اگلی دہائی میں یہ بوجھ بڑھ کر 503 ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے شمسی سرمایہ کاری کے لیے موجودہ ادائیگی کی مدت خاص طور پر مختصر ہے اکثر ایک سال کے اندر، جو تیزی سے اپنانے کی ترغیب دیتی ہے لیکن گرڈ کی مالی استحکام کو متاثر کرتی ہے تناﺅکو کم کرنے کے لیے پالیسی اصلاحات پر زور دیا جا رہا ہے جو تمام صارفین کے فوائد اور اخراجات میں بہتر توازن قائم کر سکتے ہیں اس تبدیلی کا مقصد توانائی کے پائیدار طریقوں کو فروغ دیتے ہوئے پاکستان کے پاور سیکٹر کی طویل مدتی عملداری کو یقینی بنانا ہے.

ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے پائیدار توانائی اور بجلی کے نظام میں وسیع تجربہ رکھنے والے ایک سینئر انرجی پروفیشنل ڈاکٹر شاہد رحیم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان میں شمسی توانائی کے شعبے کو کافی رکاوٹوں کا سامنا ہے اس کے جواب میں حکومت اپنی نیٹ میٹرنگ پالیسیوں اور درآمدی محصولات کا از سر نو جائزہ لے رہی ہے جو تقسیم شدہ شمسی نظام کو اپنانے پر اثر انداز ہو سکتی ہے زیادہ تر شمسی تنصیبات فی الحال میٹر کے پیچھے اور نان گرڈ انٹرایکٹو ہیں جو کہ ایک مضبوط ریگولیٹری فریم ورک کی ضرورت پر زور دیتے ہیں تکنیکی چیلنجز جیسے ریورس پاور فلو اور اوور وولٹیج گرڈ انضمام کو پیچیدہ بناتے ہیں لیکن موثر منصوبہ بندی اور سسٹم ڈیزائن کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے.

انہوں نے کہا کہ اس شعبے کی ترقی کو فروغ دینے کے لیے، حکومت کو تقسیم شدہ شمسی توانائی کو رکاوٹ کے بجائے شراکت دار کے طور پر دیکھنا چاہیے روایتی ذرائع سے مقابلہ کرنے کے لیے شمسی توانائی کے لیے برابری کا میدان بنانے کے لیے ایک جامع قانونی اور ریگولیٹری فریم ورک ضروری ہے انہوں نے کہاکہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کو قیمتوں کے جدید ماڈلز کی سہولت فراہم کرنی چاہیے اور گرڈ میں حصہ ڈالنے والے صارفین کے لیے مناسب معاوضے کو یقینی بنانا چاہیے متوازن اور پائیدار توانائی کے مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے محتاط ضابطہ بہت ضروری ہے کیونکہ پاکستان کی شمسی توانائی کی توسیع اہم اقتصادی اور ماحولیاتی مواقع پیش کرتی ہے.

متعلقہ مضامین

  • بی جے پی عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے، محبوبہ مفتی
  • ’وقت اور پیسے دونوں کی بچت‘، ایئر ایشیا نے کراچی کے لیے سستی اور براہ راست فلائٹس کا اعلان کردیا
  • سفارت کاری کا جھانسہ دیکر ٹرمپ نے روس پر پابندیاں عائد کر دیں
  • تعلیم اور جدید تصورات
  • تربیلاڈیم میں پانی کے ذخیرے کی صورتحال کیا ؟ تشویشناک رپورٹ آ گئی
  • آئی ایم ایف نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کاحکومتی پلان مسترد کر دیا   
  • بلوچستان کے زمینداروںکو مالی نقصان سے بچائیں: اسحاق ڈار
  • نائب وزیراعظم محمد اسحاق ڈار کی زیر صدارت زرعی ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی میں تبدیل کرنے سے متعلق سٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس
  • پاکستان کی نیٹ میٹرنگ پالیسی میں لاگت اور فوائد کی منصفانہ تقسیم کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے.ویلتھ پاک