چین نےایرانی جوہری معاملے پر پانچ نکاتی تجویز پیش کر دیں
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
چین نےایرانی جوہری معاملے پر پانچ نکاتی تجویز پیش کر دیں WhatsAppFacebookTwitter 0 14 March, 2025 سب نیوز
بیجنگ :چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف اور ایرانی نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی سے ملاقات کی جو ایران کے جوہری مسئلے پر ، چین-روس ایران اجلاس میں شرکت کے لئے بیجنگ میں موجود تھے ۔ وانگ ای نے ایران کے جوہری مسئلے کو مناسب طریقے سے حل کرنے کے حوالے سے چین کی جانب سے پانچ تجاویز پیش کیں۔
جمعہ کے روز چینی میڈیا کے مطابق ان نکات میں کہا گیا ہے کہ سب سے پہلے، تنازعات کو سیاسی اور سفارتی ذرائع سے پرامن طریقے سے حل کرنے پر زور دینا چاہیے اور طاقت کے استعمال اور غیر قانونی پابندیوں کی مخالفت کرنی چاہیے۔
دوسری یہ کہ طاقت اور ذمہ داریوں کے توازن کو برقرار رکھنا چاہیے اور جوہری عدم پھیلاؤ اور جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے اہداف کو ہم آہنگ کرنا چاہیے۔ تیسری تجویز یہ پیش کی گئی کہ ایرانی جوہری مسئلے پر جامع معاہدے کے فریم ورک کی بنیاد پر نئے اتفاق رائے تک پہنچنے پر اصرار کرنا چاہیے۔ چوتھی تجویز میں کہا گیا ہے کہ بات چیت کے ذریعے تعاون کو فروغ دینے پر زور دینا چاہیے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو مداخلت پر مجبور کرنے کی مخالفت کرنی چاہیے۔ اور پانچویں یہ کہ قدم بہ قدم اور مساوی پیش رفت کے اصول پر کاربند رہنا چاہیے اور مشاورت کے ذریعے اتفاق رائے حاصل کرنا چاہیے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
ایران اپنے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی خدشات نظر انداز کر رہا ہے: امریکہ
ویب ڈیسک —امریکہ نے کہا ہے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالتا رہے گا۔
یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ایران نے جوہری پروگرام پر نئے مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے۔
دوسری جانب ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی اور اس کے ذخیرے پر بین الاقوامی تشویش بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے لیے امریکی مشن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل نے رپورٹ کیا ہے کہ ایران نے افزودہ یورینیم کی پیداوار تیز کر دی ہے۔
امریکی مشن نے بیان میں مزید کہا کہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق تہران یورینیم افزودگی کی اپنی پیداوار کو تیز کر رہا ہے۔
امریکی بیان کے مطابق ایران دنیا کا واحد ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار تو نہیں ہیں۔ لیکن وہ افزودہ یورینیم کی پیداوار کر رہا ہے جس کے لیے اس کے پاس کوئی ایسا قابلِ اعتبار مقصد نہیں ہے کہ وہ پر امن مقاصد کے لیے یہ یورینیم افزودہ کر رہا ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے جب کہ سلامتی کونسل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کے خدشات کو بھی نظر انداز کر رہا ہے۔
امریکی بیان میں کہا گیا کہ سلامتی کونسل کو ایران کے اس ڈھٹائی پر مبنی رویے سے نمٹنے اور اس کی واضح مذمت کے لیے متحد ہونا چاہیے۔
ایران کئی برس سے جوہری پروگرام پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہتا رہا ہے کہ اس کے جوہری پروگرام کے مقاصد فوجی نوعیت کے نہیں ہیں۔
ایران کے ساتھ مغربی ممالک کا 2015 میں جوہری معاہدہ ہوا تھا جس میں طے کی گئی شرائط پر اس نے مئی 2019 سے آہستہ آہستہ عمل کم کرنا شروع کر دیا تھا۔
ایران کے ساتھ ہونے والے 2015 کے اس معاہدے کو جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کہا جاتا ہے جس کے تحت تہران نے اپنا جوہری پروگرام محدود کرنا تھا اور اس کے بدلے میں ایران پر عائد پابندیوں میں نرمی کی جانی تھی۔
ایران نے فروری 2021 میں اس معاہدے میں کیے گئے وعدوں پر عمل کرنا مکمل طور پر بند کر دیا تھا۔ ایران کے اس اقدام کے بعد اس معاہدے کے تحت آئی اے ای اے جوہری پروگرام سے متعلق تصدیق اور نگرانی کی سرگرمیاں روک چکی ہے جس سے ایران کے اقدامات پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس فریق ہیں۔ صدر ٹرمپ کی صدارت کی پہلی مدت میں امریکہ اس معاہدے سے الگ ہو گیا تھا۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں بدھ کو ایک پرائیوٹ میٹنگ طلب کی گئی تاکہ ایران کے جوہری پروگرام کے لیے اقدامات پر تبادلۂ خیال کیا جا سکے۔
سلامتی کونسل کے ارکان یونان، پاناما اور جنوبی کوریا نے اس اجلاس کو طلب کرنے کی حمایت کی تھی۔
اقوامِ متحدہ میں برطانیہ کے نائب سفیر جیمز کاریوکی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ برطانیہ کو آئی اے ای اے کی ایران کی انتہائی افزودہ یورینیم کی پیداوار کے بارے میں تازہ رپورٹ پر شدید تشویش ہے۔
جیمز کاریوکی کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ سامنے آئی والی رپورٹ میں آئی اے ای اے کے ڈی جی نے کہا ہے کہ ایران اب تک 60 فی صد تک افزودہ 275 کلو گرام یورینیم بنا چکا ہے۔
یہ یورینیم سویلین استعمال کے لیے درکار مقدار سے کہیں زیادہ ہے جب کہ کسی اور غیر جوہری ملک کے پاس اس مقدار میں اتنی یورینیم نہیں ہے۔
نائب سفیر کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے ضروری سفارتی اقدامات کرے گا جن میں اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کا نفاذ شامل ہے۔
تہران سے کیے گئے معاہدے کے تحت اگر ایران وعدوں پر عمل در آمد نہیں کرتا تو اقوامِ متحدہ کی پابندیاں ایک بار پھر اس پر لاگو کی جا سکتی ہیں۔
ایران کے ساتھ کے گئے معاہدے کی میعاد رواں برس اکتوبر میں ختم ہو رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ عالمی قوتوں کو ایران کے ساتھ بامعنی مذاکرات کا وقت کم ہے۔
سیکیورٹی کونسل کی اس پرائیوٹ میٹنگ میں ایران کے اقوامِ متحدہ میں سفیر نے شرکت کی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایران کے اقوامِ متحدہ میں مشن نے اس اجلاس پر تنقید بھی کی۔
سوشل میڈیا پر ایک بیان میں ایران کے مشن کی جانب سے کہا گیا کہ امریکہ سلامتی کونسل کو ایران کے خلاف اقتصادی اقدامات بڑھانے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ سلامتی کونسل کو اپنی ساکھ کے لیے اس خطرناک استعمال کو مسترد کرنا چاہیے۔
تہران کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر روس اور چین نے بھی دستخط کیے تھے۔ یہ دونوں ممالک ایران کے اتحادی ہیں۔
چین کے اقوامِ متحدہ میں سفیر فو کانگ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ جوہری مسئلہ ویانا میں آئی اے ای اے میں نمٹایا جا رہا ہے جب کہ چین بدھ کو ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس کی حمایت نہیں کرتا۔
فو کانگ نے گفتگو میں امریکی انتظامیہ کو 2017 میں ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے سے دستبردار ہونے کی وجہ سے اسے خراب کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ معاہدے کی اکتوبر میں میعاد ختم ہونے سے پہلے ایک نیا معاہدہ ہو سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی مخصوص ملک پر زیادہ دباؤ ڈالنا اہداف کے حصول کا سبب نہیں بنے گا۔
چینی سفیر نے کہا کہ چین جمعے کو بیجنگ میں ایران اور روس کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کرے گا تاکہ کسی ممکنہ معاہدے میں سہولت فراہم کرتے ہوئے صورت حال کو مستحکم کیا جا سکے۔