اسمگلنگ کیس، صارم برنی کی دفعات ختم کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
صارم برنی---فائل فوٹو
کراچی کی مقامی عدالت میں سماجی رہنما صارم برنی کے دستاویزات میں ردوبدل اور بچوں کی بیرونِ ملک اسمگلنگ کے کیس کی سماعت ہوئی۔
جیل حکام نے سماجی رہنما صارم برنی کو سٹی کورٹ میں پیش نہیں کیا جبکہ عالیہ برنی عدالت میں پیش ہوئیں۔
عدالت نے ملزمہ عالیہ برنی کی بریت کی درخواست واپس لینے پر خارج کر دی اور مقدمے کی دفعات ختم کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
دستاویز میں رد و بدل اور انسانی اسمگلنگ سے متعلق کیس میں معروف سماجی کارکن صارم برنی نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جرم کچھ ہے، دفعات کچھ اور لگا دی گئی ہیں، دفعات کی تبدیلی کے بغیر فردِ جرم عائد نہ کی جائے۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے لیگل فیصل خان نے کہا کہ یہ اعتراضات پہلے روز سے لگائے جا رہے ہیں، ملزمان پر فردِ جرم عائد ہونے دیں، دفعات پر اعتراض بعد میں کر لیں۔
پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ ان اعتراضات کے باوجود ہائی کورٹ کے ساتھ ٹرائل کورٹ سے ضمانت مسترد ہو چکی ہے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
آرمی ایکٹ کی شقیں کالعدم کرنے کا فیصلہ غلط، آئینی بینچ
اسلام آباد:سپریم کورٹ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا ہے کہ ہم وزارت دفاع کے وکیل کی اس دلیل سے اتفاق کرتے ہیں کہ آرمی ایکٹ کی مختلف شقوں کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ درست نہیں ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ نے سویلینز کا کورٹ مارشل کالعدم کرنے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر 46ویں سماعت کی۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے جواب الجواب دلائل میں موقف اختیار کیا کہ سویلینز کا کورٹ مارشل کرنا فوج کی انا کا مسئلہ نہیں، یہ ملکی دفاع اور سکیورٹی آف پاکستان کے لیے ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ جتنی تفصیل سے عدالت نے اس مقدمہ کو سنا تعجب ہے کہ کوئی آرمڈ پرسن ہمارے سامنے یہ استدعا لیکر نہیں آیا کہ اسے بھی آزاد عدالتی فورم مہیا کیا جائے۔ آئین بالادست ہے اور پارلیمنٹ بھی آئین کے تابع ہے۔
جسٹس امین الدین نے مزید سماعت 7 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے حکم لکھوایا کہ بنچ کے ججز کی پرنسپل سیٹ پر عدم دستیابی کے باعث کارروائی تین ہفتے کے لیے ملتوی کی جاتی ہے۔ سماعت مکمل کر کے کوشش ہو گی فوری طور پر مختصرفیصلہ دے دیا جائے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ آرٹیکل175اور آرٹیکل 245پر نئے نکات اٹھائے گئے اس لیے جواب الجواب دلائل مکمل کرنے کے لیے 8دن درکار ہونگے۔
خبر رساں ایجنسی کے مطابق خواجہ حارث نے کہا کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے اور پارلیمنٹ نے فیصلہ کرنا ہے کہ کسی خاص قانون کے دائرہ اختیار کی حد اور اس کا اطلاق کس پر کیا جائے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آرمی ایکٹ کا اصل مقصد فورسز میں نظم و ضبط برقرار رکھنا ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ آئین کی مجموعی روح کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی خاص شق پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے آئین کے وسیع تر اور اجتماعی دائرہ کار میں چیزوں کا جائزہ لیا جائے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ آرمی ایکٹ کا دائرہ اختیار بڑھا سکتی ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا عدالت کے سامنے ابھی یہ سوال نہیں۔جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ زیر بحث فیصلہ سیکشن 2/1-D کی حد تک درست نہیں اور میں اس نکتے پر وکیل سے متفق ہوں۔