Daily Ausaf:
2025-03-14@15:54:38 GMT

پانی ہی زندگی ہے

اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
پاکستان میں زراعت میں پانی کا استعمال 90فیصد سے زائد ہے، لیکن روایتی آبپاشی کے طریقے انتہائی غیر موثر ہیں۔ (ڈرپ ایریگیشن اور سپرنکلر سسٹمز) جدید ڈرپ اور چھڑکاؤ آبپاشی متعارف کروا کر پانی کے استعمال میں 50فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔ اسرائیل جیسے ممالک نے اسی طریقے سے صحرا کو سرسبز بنایا ہے۔
تقریباً 40فیصد نہری پانی غیر ضروری لیکج، غیر قانونی نکاسی اور ناقص دیکھ بھال کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر نہروں کی مرمت اور جدید نظام متعارف کروایا جائے تو اس نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔یعنی نہروں کو کنکریٹ سے لائن کرنے اور اسمارٹ میٹرز نصب کرنے سے ضائع ہونے والے پانی کو بچایا جا سکتا ہے۔
ٹیوب ویلوں کے بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے زیرِ زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے، جو طویل مدتی خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے لئے مؤثر پالیسی اور نگرانی کی ضرورت ہے۔
ایک خودمختار قومی ادارہ قائم کیا جائے جو صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم اور استعمال کی نگرانی کے لئے واٹر گورننس کا جدید نظام تیار کرے اور اس کے لئے ہمارے پاس قابل ترین ماہرین کی وافر تعداد موجود ہے۔ میں امسال کے آغاز میں کانفرنس کے سلسلے میں امریکا میں موجود تھا جہاں میری ایسی پاکستانی ماہرین اور سائنسدانوں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے امریکا کے صحرائی علاقوں کو بہترین زرعی فارمز میں تبدیل کرکے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ یہ ملک کا وہ قیمتی سرمایہ ہیں جو یہاں بیوروکریسی کی نااہلی اور زیادتی کی بنا پر اپنے تجربے سے دوسرے کئی ممالک میں کام کر رہے ہیں۔
سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ڈی سیلینیشن پلانٹس لگا کر سمندری پانی کو قابل استعمال بنا کر ایسے متبادل ذرائع فراہم کئے جا سکتے ہیں جو پانی کی شدید قلت اور زراعت کے لئے مطلوبہ پانی فراہم کیا جا سکتا ہے جس سے نہ صرف بلوچستان کی لاکھوں ایکڑ زمین نہ صرف زراعت کے قابل بنائی جا سکتی ہے بلکہ ان علاقوں کی غربت و پسمنادگی کو ختم کیا جا سکتا ہے اور ملک کے لئے بے شمار زرِ مبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔۔
پانی کی غیر منصفانہ سبسڈی اس کے بے دریغ استعمال کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ بڑے زرعی اور صنعتی یونٹس کے لئے مناسب فیس مقرر کی جانی چاہیے تاکہ پانی کا استعمال اعتدال میں رکھا جا سکے اور پانی کے ضیاع پر بھی قابو پایا جا سکے۔
پاکستان میں پانی کے ذخیرے کے منصوبے اکثر سیاسی اختلافات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گریٹر تھل کینال اور دیامر بھاشا ڈیم جیسے منصوبے کئی سالوں سے تاخیر کا شکار ہیں، جس سے ملک کی آبی ضروریات پوری نہیں ہو رہیں۔ جب تک پانی کے منصوبوں کو سیاست سے الگ کر کے قومی مفاد میں فیصلے نہیں کیے جاتے، اس بحران کو حل کرنا مشکل ہوگا۔
پاکستان کو پانی کے بحران سے بچانے کے لئے فوری طور پرمستقبل کی حکمت عملی کو انقلابی انداز میں نافذ کرنے کے لئے درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گے۔
سب سے پہلے نئے آبی ذخائر کی تعمیر پر عملدر آمد کرتے ہوئے دیامر بھاشا، مہمند اور کالاباغ جیسے ڈیموں کی تعمیر کو تیز کیا جائے۔
زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کا نفاذ کرتے ہوئے ڈرپ ایریگیشن اور جدید آبپاشی نظام متعارف کرائے جائیں تاکہ پانی کا استعمال کم ہو۔
پانی کے بہتر انتظامات کے لئے شفاف نگرانی اور بین الصوبائی تعاون کو فروغ دے کر پانی کی منصفانہ تقسیم یقینی بنائی جائے۔
کراچی جیسے شہروں میں متبادل ذرائع پر توجہ دیتے ہوئے ڈی سیلینیشن پلانٹس لگا کر سمندری پانی کو قابلِ استعمال بنایا جائے تاکہ اہالیانِ کراچی کو واٹر ٹینک مافیا کے روزانہ کروڑوں روپے کی لوٹ مار سے محفوظ کیا جا سکے۔
کراچی بھر میں بڑے صارفین (انڈسٹریل زونز)کے لئے پانی کی مناسب قیمت مقرر کر کے پانی کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے جس سے ملکی صنعتوں کا پہیہ چلنے سے ملکی برآمدات میں جہاں اضافہ ہو گا وہاں ہم غیر ملکی قرضوں سے بھی نجات حاصل کر سکیں گے۔
یاد رکھیں کہ پاکستان اس وقت پانی کے ایک سنگین بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ چولستان کینال کا تنازعہ نہ صرف اس بڑے مسئلے کی ایک جھلک پیش کرتا ہے بلکہ پاکستان کے لئے ایک وارننگ ہے جو مستقبل میں مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ اگر 1991ء کے معاہدے کی شق 6 کے تحت اقدامات کیے جاتے تو آج پاکستان کو ان تنازعات کا سامنا نہ ہوتا۔
اگر ملک نے پانی کے تحفظ، ذخیرہ اور جدید انتظام پر فوری توجہ نہ دی تو آنے والے سالوں میں صوبائی تنازعات شدت اختیار کر جائیں گے، زراعت تباہ ہو گی، اور شہری آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی مشکل ہو جائے گی۔ 1991ء کے معاہدے کی روح کو زندہ کرتے ہوئے، اب وقت ہے کہ سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد میں فیصلے کیے جائیں۔ ورنہ پانی کا یہ بحران پاکستان کی معیشت، سماجی استحکام اور وجودی سالمیت کے لئے ایک ناقابلِ تلافی خطرہ بن جائے گا۔ فوری اور مؤثر اقدامات کے بغیر، پانی کی قلت، زراعت کی تباہی اور بین الصوبائی تنازعات مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں۔۔ وقت کم ہے اور عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے تاکہ پاکستان کو پانی کے وجودی بحران سے بچایا جا سکے۔
یاد رکھیں کہ پانی ہی زندگی ہے۔ اسے ضائع کرنے کا مطلب اپنی نسلوں کو تاریکی کی طرف دھکیلنا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: جا سکتا ہے پانی کی پانی کا پانی کے کیا جا کے لئے جا سکے

پڑھیں:

جنسی تشدد کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے پر اسرائیل کو کٹہرے میں لایا جائے، ہیومن رائٹس مانیٹر

کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس قسم کی کارروائی انسانیت کے خلاف جرائم اور فلسطینیوں کو ایک گروہ کے طور پر تباہ کرنے کی دانستہ کوششوں کے مترادف ہے۔ یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی جب کمیٹی نے جنیوا میں منگل اور بدھ کو جنسی تشدد کے متاثرین اور گواہوں کی گواہی سننے کے لیے عوامی اجلاس منعقد کیے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ انسانی حقوق کی تنظیم یورو میڈیٹرینین ہیومن رائٹس مانیٹر نے کہا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر انڈیپنڈنٹ انٹرنیشنل کمیشن آف انکوائری کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ قابض اسرائیل نے منظم اور وسیع پیمانے پر فلسطینی مردوں اور عورتوں دونوں کے خلاف جنسی اور صنفی بنیادوں پر جرائم کا ارتکاب کیا ہے، 7 اکتوبر 2023 سے جاری نسل کشی کے دوران فلسطینیوں پر جنسی تشدد اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کی جنگ میں جنگی جرائم کا حصہ ہے۔ 

ایک بیان میں یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر نے اس بات پر زور دیا کہ رپورٹ کے مندرجات کی سنجیدگی کے لیے اسرائیل کی استثنیٰ کی دیرینہ پالیسی کو ختم کرنے کی فوری بین الاقوامی اقدام کی ضرورت ہے، یہ استثنیٰ ہی ہے جس نے اسے فلسطینیوں کے خلاف اپنے بے مثال جرائم کو جاری رکھنے کے لیے جری بنا رکھا ہے، بین الاقوامی انکوائری کمیشن کی 13 مارچ 2025ء کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل فلسطینیوں کے سماجی ڈھانچے کو غیر مستحکم کرنے اور تباہ کرنے کے لیے ایسا کر رہا ہے۔ 

یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر نے کہا کہ کمیشن نے اس بات کی تصدیق کی کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کا عام شہریوں پر غیر متناسب اثر پڑا ہے، خاص طور پر فلسطینی خواتین اور لڑکیاں شہید ہوئی ہیں جن میں سے اکثر کو براہ راست نشانہ بنایا گیا، 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ میں متاثرین کی کل تعداد میں ہزاروں خواتین کی موت واقع ہوئی، اسرائیل کی منظم خلاف ورزیوں کے نتیجے میں شدید جسمانی اور نفسیاتی نقصان پہنچا ہے، جن میں حمل اور ولادت کی پیچیدگیوں سے موت بھی شامل ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیلی پابندیوں کے نتیجے میں جن کی وجہ سے تولیدی صحت کی دیکھ بھال تک ان کی رسائی روک دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ غزہ میں جان بوجھ کر صحت کے نظام کو تباہ کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد کیا گیا ہے، خاص طور پر جنسی اور تولیدی صحت کی سہولیات کو نشانہ بنایا گیا ہے، جس کے نتیجے میں خواتین کی نفسیاتی اور جسمانی صحت اور ان کی تولیدی صلاحیت پر فوری اور طویل مدتی اثرات مرتب ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں غزہ میں فلسطینیوں کی تولیدی صلاحیت پر دیرپا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنگ کے ایک آلے کے طور پر فاقہ کشی کا استعمال، انسانی امداد سے انکار اور جبری نقل مکانی نے خواتین اور لڑکیوں کے لیے تولیدی نقصان کو بڑھا دیا ہے، جس سے بچے کی پیدائش کے تمام مراحل، حمل اور بچے کی پیدائش سے لے کر بعد از پیدائش کی بحالی اور دودھ پلانے تک تمام مراحل متاثر ہوئے ہیں، کمیٹی نے فلسطینیوں کے خلاف جنسی اور صنفی بنیاد پر تشدد کے منظم نمونوں کو بھی دستاویزی شکل دی ہے۔

رپورٹ کے مطابق عصمت دری، جبری عریانیت، جنسی تذلیل، جنسی تشدد، جنسی ہراسانی اور توہین آمیز سلوک بھی شامل ہے، ان خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دی گئی، تصویر کشی کی گئی اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی توہین کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں کو مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں جنسی اور صنفی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ گرفتاری کے دوران، تفتیشی مراکز اور جیلوں میں، یا غزہ میں جبری نقل مکانی کے دوران مکروہ حربوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ اسرائیل اقوام متحدہ کے کنونشن میں نسل کشی کی کارروائیوں کی طرف سے بیان کردہ پانچ میں سے دو میں براہ راست ملوث تھا۔ یہودی ریاست جان بوجھ کر گروپ (یعنی فلسطینیوں) کے لیے زندگی کے حالات مزید مشکل بنا رہی ہے تاکہ اس کی جسمانی تباہی کا اندازہ لگایا جا سکے اور ایسے اقدامات مسلط کیے جا رہے ہیں جن کا مقصد آبادی کے اندر پیدائش کو روکنا ہے۔

انکوائری کمیٹی کی سربراہ نوی پلے نے ایک بیان میں کہا کہ یہ خلاف ورزیاں نہ صرف خواتین اور لڑکیوں کو شدید جسمانی اور نفسیاتی نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ ایک گروپ کے طور پر فلسطینیوں کی نفسیاتی اور تولیدی صحت اور زرخیزی کے امکانات کے لیے طویل مدتی، ناقابل تلافی نتائج کا باعث بھی ہیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے مئی 2021 ءمیں قابض اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بین الاقوامی قوانین کی مبینہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے تین رکنی آزاد بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن قائم کیا۔

پلے اس سے قبل اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، بین الاقوامی فوجداری عدالت میں جج اور روانڈا کے بین الاقوامی فوجداری ٹریبونل کے صدر کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل نے کمیٹی پر الزام لگایا کہ وہ متعصب اور پہلے سے طے شدہ سیاسی ایجنڈے پر اسرائیلی دفاعی افواج کو مجرم بنانے کی ڈھٹائی سے کوشش کر رہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں میٹرنٹی وارڈز اور ہسپتالوں کو منظم طریقے سے تباہ کر دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں وٹرو فرٹیلائزیشن کلینک باسمہ سنٹر فار فرٹیلیٹی اینڈ آئی وی ایف کو تباہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دسمبر 2023ء میں الباسمہ سینٹر پر بمباری کی گئی تھی، جس سے مبینہ طور پر ایک کلینک میں تقریباً 4,000 جنینوں کو نقصان پہنچا تھا ۔ یہ مرکز ماہانہ 2,000 سے 3,000 کے درمیان مریضوں کی خدمت کرتا تھا۔ کمیشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسرائیلی فوج نے جان بوجھ کر کلینک پر حملہ کیا اور اسے تباہ کر دیا۔

کمیٹی کو کوئی قابل اعتماد ثبوت نہیں ملا جس سے یہ ظاہر ہو کہ عمارت فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہوئی تھی۔ اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تباہی ایک اقدام تھا جس کا مقصد غزہ میں فلسطینیوں کے درمیان پیدائش کی صلاحیت کو روکنا تھا، یہ اقدام فلسطینیوں کی نسل کشی کا ایک سوچا سمجھا عمل تھا۔ رپورٹ میں غزہ کی پٹی میں حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین اور نئی ماؤں کو بے مثال پیمانے پر پہنچنے والے نقصانات کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس سے غزہ کے لوگوں میں زرخیزی کی شرح پر ناقابل تلافی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس قسم کی کارروائی انسانیت کے خلاف جرائم اور فلسطینیوں کو ایک گروہ کے طور پر تباہ کرنے کی دانستہ کوششوں کے مترادف ہے۔ یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی جب کمیٹی نے جنیوا میں منگل اور بدھ کو جنسی تشدد کے متاثرین اور گواہوں کی گواہی سننے کے لیے عوامی اجلاس منعقد کیے تھے۔ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسرائیل نے براہ راست سویلین خواتین اور لڑکیوں کو نشانہ بنایا، ان کارروائیوں میں جو انسانیت کے خلاف قتل اور جان بوجھ کر قتل کرنے کے جنگی جرم کو تشکیل دیتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ خواتین اور لڑکیاں بھی حمل اور ولادت سے متعلق پیچیدگیوں سے اسرائیلی حکام کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے موت سے دوچار ہوئیں۔ یہ نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا۔ کمیٹی نے مزید کہا کہ کھلے عام کپڑے اتارنے اور جنسی طور پر ہراساں کرنا، بشمول عصمت دری کی دھمکیاں اور جنسی حملہ، یہ سبھی معیاری آپریٹنگ طریقہ کار کا حصہ ہیں اور اسرائیلی فوج منظم طریقے سے ان جرائم میں ملوث ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پانی کے معاملے پر مقف واضح ہے، مسائل کا حل سیاسی انداز میں نکل سکتا ہے، بلاول
  • بتایا جائے پابندی کے باوجود کون سے حکومتی ادارے ایکس استعمال کر رہے ہیں؟
  • پانی کے معاملے پر مؤقف واضح ہے، مسائل کا حل سیاسی انداز میں نکل سکتا ہے، بلاول بھٹو زرداری
  • بتایا جائے پابندی کے باوجود کون سے حکومتی ادارے ایکس استعمال کر رہے ہیں؟ لاہور ہائیکورٹ
  • پانی کے معاملے پر مؤقف واضح ہے، مسائل کا حل سیاسی انداز میں نکل سکتا ہے، بلاول
  • جنسی تشدد کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے پر اسرائیل کو کٹہرے میں لایا جائے، ہیومن رائٹس مانیٹر
  • خبر دار!!! یہ انجکشن ہر گز نہ لگوائیں، استعمال فوری طور پر روکنے کا حکم دیدیا گیا
  • افطار کے بعد سردرد اور سُستی کا کیا علاج کیا جائے ؟جانیں
  • زراعت اور نہریں