کوئی غزہ کے شہریوں کو نکلنے پر مجبور نہیں کر رہا، ٹرمپ کی پسپائی
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 مارچ2025ء)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ کوئی بھی غزہ کے باشندوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور نہیں کر رہا ہے، ۔ اس بیان سے ٹرمپ نے اپنے سابق منصوبے سے پسپائی اختیار کی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ٹرمپ نے آئرلینڈ کے وزیر اعظم کے ساتھ ایک مشترکہ پریس میٹنگ کے دوران کہا: کوئی بھی کسی کو غزہ سے بے دخل نہیں کرے گا۔
ٹرمپ کی سابق منصوبے کو عرب اور بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر مسترد کیا گیا تھا۔ ٹرمپ کے اس منصوبے کا اسرائیل نے استقبال کیا تھا۔آئرش وزیر اعظم مائیکل مارٹن نے وائٹ ہاوس میں ٹرمپ سے ملاقات کے بعد کہا کہ ہم یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں امن کا حصول چاہتے ہیں۔ انہوں نے غزہ معاہدے کے دوسرے مرحلے کے لیے بات چیت کے لیے بین الاقوامی ثالثی کی کوششوں کی روشنی میں جنگ بندی کے قیام کی ضرورت پر زور دیا۔(جاری ہے)
اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ ہفتوں کے دوران غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کی ہمسایہ ممالک میں نقل مکانی کے حوالے سے اپنے سابقہ منصوبے سے دستبردار ہو چکے ہیں تاہم ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اسے مسلط کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزیر خزانہ سموٹریچ نے کنیسٹ کے سامنے ٹرمپ کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اسرائیل اور امریکہ دونوں میں پارلیمانی پریشر گروپس کی تشکیل کا انکشاف کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت غزہ پر قبضہ کرکے وہاں سے لوگوں کی ملک بدری اور مغربی کنارے میں بڑے پیمانے پر یہودی آباد کاری کی توسیع کی جانی ہے۔اس منصوبے کی مزید تفصیلات مبہم ہیں۔ سموٹریچ کے مطابق اس منصوبے میں روزانہ 5,000 افراد کو ہفتے کے سارے دن پورے سال تک ملک بدر کرنا ہوگا۔ یا دوسری صورت میں چھ ماہ کے دوران ہر روز 10 ہزار افراد کو ملک بدر کرنا ہوگا۔ اس طرح روزانہ 5000 کو 360 دن سے ضرب دیں تو نتیجے میں ایک سال کے دوران 18 لاکھ افراد کو نکالا جائے گا۔تاہم سموٹریچ کی خواہش کے خلاف ہوائیں چل سکتی، خاص طور پر چونکہ ایک ماہ سے زیادہ عرصہ قبل ٹرمپ کے اعلان کے بعد عرب ممالک نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے قاہرہ میں منعقدہ عرب لیگ کے غیر معمولی سربراہی اجلاس کے دوران ایک متبادل منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔ اس منصوبے میں غزہ کے باشندوں کو غزہ میں برقرار رکھتے ہوئے تعمیر نو کی شرط رکھی گئی ہے۔ سموٹریچ کا خیال تھا کہ ٹرمپ کا منصوبہ پورے خطے کو بدل سکتا ہے۔ تاہم سموٹریچ نے ساتھ ہی بہت سی مشکلات کی موجودگی کو تسلیم کیا تھا۔ اور کہا تھا کہ کہ اس منصوبے پر عمل درآمد میں بہت وقت لگے گا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے دوران
پڑھیں:
کولکتہ، سلطنت مغلیہ کی وارثہ مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور
لاہور:کبھی تاج و تخت، کبھی بدترین زوال، تاریخ دل کو چھو لینے والی ایسی بے شمار کہانیوں سے بھری ہے، یہ کہانی زندگی کی بنیادی سہولتوں کے لیے ترسنے والی سلطنت مغلیہ کی وارثہ سلطانہ بیگم کی ہے۔
بہادر شاہ ظفر کی پڑپوتی سلطانہ بیگم عظیم الشان محل کے بجائے کولکتہ کی تنگ و تاریک گلی میں گمنامی اور مفلسی کی زندگی بسرکرنے پر مجبور ہے۔
ان کی شادی 1965 میں بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے مرزا بیدار بخت سے ہوئی، تب سلطانہ بیگم محض 14سال کی لڑکی، شوہر 46 سالہ ادھیڑ عمر تھے،1980 میں شوہر کے انتقال کے بعد شاہی خاندان کی یہ وارثہ دو وقت کی روٹی کی محتاج ہوگئی۔
سلطانہ بیگم کولکتہ کی خستہ حال بستی میں دو کمروں کے جھونپڑے میں رہتی ہیں جہاں کوئی بنیادی سہولت نہیں۔ حکومت سے انہیں6000 روپے ماہانہ پنشن ملتی ہے جوکہ زندہ رہنے کیلئے ناکافی ہے۔
کہانی سلطانہ بیگم کی نہیں، بلکہ تاریخ کے ایک المیے کی ہے۔ بہادر شاہ ظفر1857 کی جنگ آزادی میں باغیوں کے رہنما بنے، جسے برطانوی سامراج نے کچلنے کے بعد بہادر شاہ ظفر کو رنگون جلاوطن کر دیا، جہاں 1862 میں بے بسی میں دنیا سے رخصت ہوئے۔
ان کی پڑپوتی کو اسی بے بسی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا بھارتی حکومت سابق شاہی خاندان کی آخری وارثہ کو ان کا حق دے گی؟
یہ ایک فرد نہیں، اپنے دور کی سب سے طاقتور سلطنت کی درد بھری کہانی ہے، آج اس سلطنت کی وارثہ ایک گلی کے کونے میں بیٹھی انصاف کی منتظر ہے۔ کوئی ان کی سنے گا یا پھر یہ کہانی وقت کے دھندلکوں میں کھو جائے گی؟