میں نے بھیڑ بکریوں سے سوال کیا ’’تمہاری راج دہانی کیسی ہے ؟‘‘ آوازوں کا ایک طوفان امڈ آیا،کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کون کیا کہہ رہا ہے ،اس بے ہنگم شور میں کوئی اندازہ بھی لگایا نہیں جاسکتا تھا کہ کان پڑنے والی کس بات کے کیا معنی لئے جائیں ۔ بے معنی لفظوں کی ایک جنگ تھی جس نے سماعت کو شل کردیا تھا ۔تاہم کچھ بھیڑ بکریاں ایسی بھی تھیں جنہوں نے فقط تھوتھنیاں لٹکائی ہوئی تھیں بول کچھ نہیں رہیں تھیں یوں جیسے بے سی اور بے کسی کی گہری چپ کی اسیر ہوں ،میں ان کی طرف لپکا اس احساس کے ساتھ کہ ان کی پیٹھ پر پیار بھرا ہاتھ پھیروں کا تو بپتا بول دیں گی ۔ایک ذرا لانبی چوڑی مگر دبلی پتلی غصیلی بھیڑ پر پہلا سوال کیا ،وہ جیسے بھری بیٹھی تھیں ۔وہ نر بھیڑ یعنی مینڈھا (عام سرائیکی زبان میں جسے گھٹا کہا جاتا ہے)تند لہجے میں بولا’’تم بے بس دھرتی کے واسی سے کیا بیان کروں جو خود بولنے کے دستور کی قدغن کی زنجیروں میں جکڑا ہے ،جو سچ کہنے پر قادر نہیں تو سچ سننے کی کیا سکت رکھتا ہوگا ؟‘‘
میں نے پل بھر کے لئے اپنے گریبان میں جھانکا ،ایک بالکل ہی بس بس انتہائی گئے گزرے حالات میں کسم پرسی کی حالت میں ضمیر کے قید خانے کا باسی ،مگر میں اس احساس سے عاری نہیں کہ سچ اور جھوٹ کے بیچ فرق سے نا آشنا ہوں،سو اس سے اس کی کتھا گت جاننے پر مصر ہوا ،اس نیبصد مشکل کہاکہ ’’میں اس راج دھانی کا راجا تھا ،ایک خود سر اور خود نگر ،اپنے آپ کو عقل کل گردانتا تھا ،ہر پل بھاشن دینے کو تیار ،کسی ،وزیر مشیر کی بات سننے سے عاری ،ہاں اگر کسی کی آواز میرے کان میں پڑ بھی جاتی تو دوسرے کان سے نکال دیتا تھا۔ میں کچھ عزائم لے کرآیا تھا ،میں سمجھتا تھا میں خودمختار حاکم ہوں گا مکرمیرے اوپر کچھ اور اختیار والے تھے جو اپنی بات منواتے جو مجھے ناگوار گزرتا مگر مجھے آہستہ آہستہ خو د کو اپنے سے اوپر والوں کی بات سننے ہی نہیں اس پر عمل کرنے کی عادت پڑگئی،مگر میرا اندر مجھے کوسٹا رہتا ،تب میں غصے میں اپنے وجود کے درودیوار سے سر پٹخنے لگتا اور پھر ایک روز میری زور کی ٹکر نے میرا اپنا سب کچھ پاش پاش کرکے رکھ دیا‘‘ پھر انجانے میں ایک کونے میں سرنیوہڑائی ایک بھیڑکی طرف اشارہ کیا ۔وہ بھی ایک نربھیڑ تھی مگر گر کسی کرانک مرض کی وجہ سے اس کی ساری صلاحیتیں معدوم و مفقود ہوچکی تھیں اور وہ روہنے سے منہ سے ایک ہی سمت کو تکے جارہی تھی ،اس نے دور ہی سے اشارہ کیا کہ میری طرف مت آنا ،میں نے اس کے اردگرد مٹھی چانپی پر مامور ایک کو اپنی اور بلا کر کچھ پوچھنے پر اصرار کیا تو بصد مشکل اس نے بتایا کہ ’’یہ ہمارا سابق راجہ ہے جسے کہ غم لاحق ہے کہ اسے اس کے عہدے سے کیوں ہٹایا گیا حالانکہ اس کی اپنی غلطی زیادہ تھی کہ اس نے قومی خزانے کو ہم سب پر ایسے قربان کرنا شروع کردیا تھا جیسے اس کے باپ کی جاگیر ہو،اور ملکوں ملکوں خود بھی جاگیریں بنائیں اتنی کہ لگتا تھا یہ اپنا سنگھاسن بھی بیچ کھائے گا اور خود کوئی بستی جابسائے گا‘‘مجھے گھن سی آنے لگی ،میں ایک بڑے سینگوں والی بھیڑ کی جانب بڑھا وہ بھی اتفاق سے نربھیڑ ہی نکلا ۔وہ تو میری بات سننے کو تیار نہیں تھا ،بہت منت سماجت کے بعد کچھ سننے سنانے پر آمادہ ہوا تو راز طشت ازبام ہوا کہ وہ بھیڑوں کی سلطنت کا سب سے بڑا منصف تھا ،وہ کسی بڑے کی بات ٹالتا ہی نہیں تھا کہ آس میں ضمیر نام کی کوئی شے نہیں تھی مگر پھر بھی اس پر سے یقین اٹھ گیا اور وہ بے یقینی کے ہاتھوں مارا گیا ۔
میں سوچ رہا تھا یہ سلطنت تو کوئی اپنی جیسی ہی سلطنت تھی جس کے سب ہی پردھانوں کی وہی کہانی ہے جو ہماری کہانی رہی ہے تو پھر مجھے اپنا قیمتی وقت بے وقعتی کی بھینٹ نہیں چڑھاناچاہیئے۔میں دیکھ رہا تھا ان میں سے ہر ایک کی نظریں مجھ پر ٹکی ہوئی تھیں، ان میں سے کچھ بھیڑیں تو استہزائیہ نگاہوں سے میری جانب دیکھ رہی تھیں اور کچھ استفہامیہ نظروں سے بھی ۔میں بھیڑوں کے اس ہجوم بے کراں سے باہر نکلنا شروع ہوا ،میں اس ریوڑ سے نکل کر باہر ہوا تو اندر سے بے ہنگم قہقہوں کی آوازیں آرہی تھیں ،میں حیران پریشان، مگر جب میں نے خود پر نظر ڈالی تو ہکہ بکا رہ گیا کہ میں خود بھی ایک بھیڑ کے روپ میں تھا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
غزہ کوئی ’’چیز‘‘ نہیں ہے، جناب صدر!
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نہ اسرائیل اور نہ ہی امریکہ ہمیں، غزہ کے لوگوں کو امن کے ساتھ چھوڑنے پر تیار ہیں۔ یہاں تک کہ اسرائیلی استعماری قبضے کے ذریعے ہونے والی نسل کشی کی جنگ میں ایک نازک جنگ بندی کے اعلان کے بعد، جسے امریکی حمایت اور مصری اور قطری ضمانتوں کے ساتھ عمل میں لایا گیا،امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک اور گہرا متنازعہ اعلان کیا۔ انہوں نے اس ساری چیز کو صاف کرنے” کی تجویز پیش کی، “ڈیڑھ ملین” فلسطینیوں کو اردن اور مصر جیسے پڑوسی ممالک میں منتقل کرنے کی تجویز پیش کی،اور اسے ایک نام نہاد انسانی حل کے طور پر پیش کیا۔میں نے ان کے الفاظ کو دو مرتبہ پڑھا،اور اس بات کو شعوری طور پر سمجھنے کی کوشش کی کہ “چیز” کا مطلب ان کے نزدیک کیا ہے۔ وہ خود غزہ کا حوالہ دے رہے تھے، ایک ایسی سرزمین جو بیس لاکھ سے زیادہ لوگوں کا گھر ہے جنہوں نے کئی دہائیوں کے محاصرے، بمباری اور جبری نقل مکانی کو برداشت کیا ہے۔ ٹرمپ کے نزدیک غزہ زندگی، تاریخ اور مزاحمت کی جگہ نہیں ہے بلکہ ایسی ایک رکاوٹ جسے دور کرنے کی ضرورت ہے، غزہ کے لوگوں نے امریکہ جیسے بگڑے ہوئے بچے کواپنا پسندیدہ “حل” نکالنے میں ان کےلیے ایک مسئلہ بنا دیا ہے۔اردن کے شاہ عبداللہ دوم کے ساتھ فون کال پر وضاحت کرتے ہوئے، ٹرمپ نے غزہ کو “ایک حقیقی گندگی” قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے شاہ عبداللہ پر زور دیا کہ وہ مزید فلسطینیوں کو لے جائیں۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ نیا انتظام بےگھر ہونے والوں کے لیے عارضی یا طویل مدتی ہو سکتا ہے، اور دعویٰ کیا کہ اس سے وہ ’’تبدیلی کے بعد امن کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ” مصر اوراردن غزہ کے لوگوں کو لے”۔( تاہم مصر اور اردن دونوں نے غزہ سے فلسطینیوں کی نقل مکانی کی تجویز کو مسترد کر دیا(یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے) ٹرمپ غزہ کو وطن کے طور پر نہیں بلکہ رئیل اسٹیٹ کے طور پر مسئلے کو حل کرنے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اسے ایک “غیر معمولی مقام” کہا، لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے “بڑے پیمانے پر مسمار کرنے والی جگہ” سے بھی تشبیہ دی۔ ان کے الفاظ ان کے داماد جیرڈ کشنر کے الفاظ کی بازگشت ہیں، جنہوں نے گزشتہ سال غزہ کی “قیمتی” واٹر فرنٹ پراپرٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھاکہ فلسطینیوں سے خالی کروانے کے بعد یہ دوبارہ ترقی کے لیے اہم زمین ہے۔غزہ میں، ٹرمپ کی تجویز کو دیوانے کی بڑ سمجھا گیا اور گہری تشویش کے ساتھ دیکھا گیا۔ کچھ لوگوں نے اسے یکسر مسترد کر دیا،اور ان کے الفاظ کو سنجیدگی سے نہیں لیا، خاص طور پر جب اسرائیلی فوج نے ساحلی علاقے کے بیشتر علاقوں سے انخلا کیا، اور رہائشیوں کو شمالی غزہ میں اپنے تباہ شدہ محلوں میں واپس جانے کی اجازت دی۔ غزہ میں عام جذبات یہ تھے کہ اگر وہ بمباری کے دوران وہاں سے نہیں نکلے جب گھر چھوڑنے کا دباؤ اپنے عروج پر تھاتو قتل و غارت گری کے تھمنے کے بعد اب وہ وہاں سے کیوں نکلیں گے؟ تاہم کچھ نے ان کے اس بیان کو ایک انتباہ کے طور پر دیکھا کہ غزہ کی تعمیر نو کو جان بوجھ کر روکا جا سکتا ہے،جس کی وجہ سے یہ علاقہ ناقابل رہائش رہے گا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبورکیا جاسکےگا۔ اس طرح براہ راست فوجی کارروائی کے بغیر بھی ایک دوسری طرز کی جنگ کو جاری رکھاجاسکتا ہے ۔ محرومیوں ،خوراک، ادویات، پانی اور ایندھن پر سخت پابندیوں نے روزمرہ کی زندگی کو بقا کی جنگ بنا دیا ہے۔ ہسپتال کام کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، خاندان صاف پانی کے لیے لامتناہی لائنوں میں انتظارکر رہے ہیں، اور بجلی کی بار بار کٹوتی پورے محلے کو تاریکی میں ڈبو دیتی ہے۔ اگر یہ حالات برقرار رہے تو غزہ میں رہنا ایک ناقابل برداشت انتخاب بن سکتا ہے۔ والدین کےلئے اپنے بچوں کو بھوک اور بیماری کا شکار ہوتے دیکھنا یا اپنے وطن کو پیچھے چھوڑنے جیسے عبرتناک فیصلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انسانی امداد جو پہلے سے ہی بقا کے لیے ایک لائف لائن ہے، کو ہتھیار بنایا جا سکتا ہے، ان طریقوں سے مشروط کیا جا سکتا ہے جو ضرورت کی آڑ میں نقل مکانی پر زور دیں۔ یہ سب کچھ جو وہ بم کے ذریعےحاصل کرنے میں ناکام رہے، مایوسی پھیلا کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔اگرچہ مصر اور اردن نے اب تک ایسی تجاویز کی مزاحمت کی ہے لیکن سفارتی کوششیں ان پر فلسطینی پناہ گزینوں کو بین الاقوامی امن تصفیہ کے حصے کے طور پر قبول کرنے کے لیے دبائوکا باعث بن سکتی ہیں۔
11 اکتوبر 2023 کو جب امریکی اہلکار جان کربی نے غزہ کے باشندوں کو فرار ہونے کے لیے ’’محفوظ راستے‘‘ کی بات کی، تو کمرے میں بیٹھے میرے والد نے بیزاری سے ریڈیو بند کر دیا۔ ان کا چہرہ تاریک ہو گیا، اور انہوں نے جان کربی کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے ہاتھ لہرایا اورمضبوطی سے کہا کہ “ہم یہ جگہ نہیں چھوڑیں گے۔
(جاری ہے)