یوکرین میں جنگ بندی کے لیے روسی صدر پوٹن کے شرائط
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 مارچ 2025ء) روسی صدر 30 دن کی جنگ بندی کے اس منصوبے کا جواب دے رہے تھے، جس پر یوکرین نے اس ہفتے کے اوائل میں امریکہ کے ساتھ بات چیت کے بعد اتفاق کیا تھا۔
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے اس منصوبے پر پوٹن کے ردعمل کو "موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش" قرار دیتے ہوئے روس پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس دوران امریکہ نے روس کے تیل، گیس اور بینکنگ کے شعبوں پر مزید پابندیاں عائد کر دیں۔ ادھرپوٹن نے ماسکو میں بند دروازوں کے پیچھے امریکی خصوصی ایلچی سٹیو وِٹکوف سے ملاقات کی۔
روس کا جنگ بندی سے انکار اس کے لیے 'تباہ کن' ہو گا، ٹرمپ
جمعرات کو ماسکو میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، پوٹن نے جنگ بندی کی تجویز کے بارے میں کہا، "خیال اچھا ہے، اور ہم اس کی حمایت کرتے ہیں، لیکن ایسے سوالات بھی ہیں جن پر ہمیں بات کرنے کی ضرورت ہے۔
(جاری ہے)
"پوٹن نے کہا کہ جنگ بندی کو "ایک پائیدار امن اور اس بحران کی بنیادی وجوہات کو دور کرنے والا ہونا چاہیے"۔
انہوں نے کہا، "ہمیں اپنے امریکی ساتھیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے۔ شاید میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ فون پر بات کروں۔"
یوکرین روس کے ساتھ تیس روزہ جنگ بندی کے لیے تیار
پوٹن نے مزید کہا، "یہ یوکرین کے لیے اچھا ہو گا کہ وہ 30 دن کی جنگ بندی کو حاصل کر لے۔
ہم اس کے حق میں ہیں، لیکن بعض نزاکتیں ہیں۔" پوٹن نے کیا شرائط رکھیں؟پوٹن نے کہا کہ تنازعہ کے علاقوں میں سے ایک روس کا کرسک علاقہ ہے، جہاں یوکرین نے گزشتہ سال فوجی مداخلت شروع کی تھی اور کچھ علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ کرسک مکمل طور پر روس کے کنٹرول میں آ گیا ہے، اور کہا کہ وہاں موجود یوکرینی فوجیوں کو "الگ تھلگ" کر دیا گیا ہے۔
پوٹن نے کہا،"وہ نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ہمارے کنٹرول میں ہیں۔ ان کا سامان یونہی بکھرا پڑا ہے۔ اب کرسک میں یوکرینی باشندوں کے لیے دو ہی متبادل ہیں- ہتھیار ڈال دیں یا مارے جائیں۔"
جنگ بندی کیسے کام کرے گی اس کے بارے میں اپنے کچھ سوالات کا خاکہ پیش کرتے ہوئے، پوٹن نے پوچھا، " 30 دن کیسے استعمال ہوں گے؟ یوکرین کو متحرک کرنے کے لیے؟ دوبارہ مسلح کرنے کے لیے؟ لوگوں کو تربیت دینے کے لیے؟ یا اس میں سے کوئی بھی نہیں؟ پھر ایک سوال یہ بھی کہ اسے کیسے کنٹرول کیا جائے گا؟"
پوٹن نے مزید پوچھا،"لڑائی ختم کرنے کا حکم کون دے گا؟ کس قیمت پر؟ کون فیصلہ کرے گا کہ 2000 کلومیٹر سے زیادہ کی ممکنہ جنگ بندی کس نے توڑی ہے؟ ان تمام سوالات پر دونوں طرف سے باریک بینی سے کام کی ضرورت ہے۔
اس کی نگرانی کون کرے گا؟" زیلنسکی کا ردعملیوکرین کے صدر زیلنسکی نے اپنے رات کے ویڈیو خطاب میں کہا کہ پوٹن "براہ راست یہ بات نہیں کہہ رہے ہیں، لیکن عملی طور پر، وہ اسے مسترد کرنے کی تیاری کر رہے ہیں"۔
زیلنسکی کا کہنا تھا، "پوٹن یقیناً صدر ٹرمپ کو صاف صاف یہ بتانے سے ڈرتے ہیں کہ وہ اس جنگ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں، یوکرینیوں کو مارنا چاہتے ہیں۔
"یوکرینی صدر نے کہا کہ روسی رہنما نے بہت سی پیشگی شرائط رکھی ہیں لیکن یہ کچھ کام نہیں کرے گا۔
فریقین کے موقف میں واضح تقسیمپوٹن کے بیان اور زیلنسکی کے ردعمل کے بعد اب دونوں فریقوں کے موقف میں واضح تقسیم نظر آ رہی ہے۔
یوکرین دو مرحلوں پر مشتمل عمل چاہتا ہے: فوری جنگ بندی اور پھر طویل مدتی تصفیہ کی بات۔
روس کا خیال ہے کہ آپ دونوں عمل کو الگ نہیں کر سکتے اور تمام معاملات کا فیصلہ ایک ہی معاہدے میں ہونا چاہیے۔
دونوں فریق کے پاس اختلافات کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔یوکرین کا خیال ہے کہ وہ روس پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ اسے ایک ایسے فریق کے طور پر پیش کرسکتا ہے جسے امن کے قیام میں ہچکچاہٹ ہے، جو وقت حاصل کرنے کے لیے یہ 'کھیل' کر رہا ہے۔ دوسری طرف روس کو اس بات پر یقین ہے کہ اب اس کے پاس نیٹو کی توسیع اور یوکرین کی خودمختاری کے بارے میں اپنے بنیادی خدشات کو اٹھانے کا موقع ہے۔
لیکن یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک اہم مسئلہ ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ وہ فوری نتیجہ چاہتے ہیں، لڑائی کو چند دنوں میں ختم کرنا چاہتے ہیں۔
ٹرمپ نے کیا کہا؟ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ روس "صحیح سمت میں کام کرے گا۔"
پوٹن کے تبصرے کے بعد وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ وہ روسی رہنما سے ملنا "پسند" کریں گے اور انہیں امید ہے کہ روس "صحیح کام" کرے گا اور مجوزہ 30 دن کی جنگ بندی سے اتفاق کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم روس کی جانب سے جنگ بندی دیکھنا چاہتے ہیں۔
اس سے قبل نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے کے ساتھ اوول آفس میں ہونے والی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے، ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ پہلے ہی یوکرین کے ساتھ تفصیلات پر بات کر چکے ہیں۔
ٹرمپ نے کہا، "ہم یوکرین کی زمین اور زمین کے ان ٹکڑوں کے بارے میں جو اس کے پاس رہیں گے یا جنہیں اسے کھونا پڑسکتا ہے نیز حتمی معاہدے کے دیگر تمام عناصر پر بات چیت کر رہے ہیں۔
"انہوں نے کہا، "در حقیقت حتمی معاہدے کی بہت ساری تفصیلات پر بات کی گئی ہے۔"
یوکرین کے نیٹو فوجی اتحاد میں شامل ہونے کے موضوع پر، ٹرمپ نے کہا، "ہر کوئی جانتا ہے کہ اس کا کیا جواب ہے"۔
روسی تیل اور گیس پر تازہ پابندیاں اس وقت لگیں جب ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی ادائیگی کے نظام تک رسائی کو مزید محدود کر دیا، جس سے دوسرے ممالک کے لیے روسی تیل خریدنا مشکل ہو گیا۔
خیال رہے روس نے فروری 2022 میں ایک مکمل حملے کا آغاز کیا تھا اور اب یوکرین کے تقریباً 20 فیصد علاقے پر اس کا کنٹرول ہے۔ اس جنگ میں روس اور یوکرین دونوں کے ہزاروں فوجی اور عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تدوین: صلاح الدین زین
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے بارے میں ٹرمپ نے کہا کرتے ہوئے یوکرین کے چاہتے ہیں نے کہا کہ انہوں نے رہے ہیں پوٹن نے پوٹن کے کے ساتھ کرے گا پر بات کے لیے
پڑھیں:
سعودی ولی عہد اور روسی صدر کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ،یوکرین بحران حل کرنے کے لئے کی جانے والی کوششوں بارے تبادلہ خیال کیا
ریاض (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 مارچ2025ء) سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان ٹیلی فون پر رابطہ ہوا جس میں یوکرین بحران حل کرنے کے لئے کی جانے والی کوششوں بارے تبادلہ خیال کیا گیا۔ العربیہ اردو کے مطابق بات چیت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کے کے فروغ کے طریقہ کار کا جائزہ لیا گیا۔(جاری ہے)
سعودی ولی عہد نے باور کرایا کہ مملکت یوکرین بحران کے حل کے سلسلے میں مکالمے کی سہولت کاری کے لئے کوششیں اور وہ سب کرنے کے لیے تیار ہے جس سے وہاں سیاسی حل تک پہنچا جا سکے۔ روسی صدر نے ایک بار پھر مملکت کی تعمیری کوششوں اور قابل تعریف مساعی پر شکریہ ادا کیا۔کریملن ہاؤس سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین بحران کے تصفیے کے لئے سعودی عرب کی کوششوں کو سراہا۔ کریملن کے مطابق پیوٹن نے سعودی عرب کی ان کوششوں کی ستائش کی جنہوں نے امریکا کے ساتھ بات چیت کی راہ ہموار کی۔ روسی صدر اور سعودی ولی عہد نے اوپیک پلس کے ضمن میں بھی تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔