بدلتی اقدار: پہلے اور اب نشر ہونے والی رمضان ٹرانسمیشن میں کیا فرق ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
رمضان المبارک برکتوں، دعاؤں اور سلامتی کا مہینہ ہے۔ تمام مسلم ممالک ماہ مقدس شروع ہوتے ہی ایک منفرد رنگ اختیار کر لیتے ہیں اور ہر جگہ مخصوص روایات پر عمل کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’کیا یہ واقعی رمضان ٹرانسمیشن ہے؟‘، جاوید شیخ کی عمران ہاشمی سے متعلق گفتگو پر شدید تنقید
مسلم ممالک میں بھی برکتوں کے مہینے کے آغاز کے بعد ٹیلی ویژن پروگراموں میں تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہی رجحان پاکستان میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے جہاں تمام ٹیلی ویژن چینلز اپنا لب و لہجہ بدل لیتے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں چیزیں بہت بدل گئی ہیں اور رمضان کے رنگ پہلے جیسے نہیں رہے۔
چند دہائیاں قبل پی ٹی وی پاکستانیوں کا واحد چینل ہوا کرتا تھا اور پی ٹی وی کے سنہری دور میں رمضان بہت مختلف احساس رکھتا تھا۔ لوگ نئے چاند کی خبر پی ٹی وی کے ذریعے حاصل کرتے تھے۔ چینل سے کسی بھی موسیقی کو فوری طور پر حذف کردیا جاتا تھا۔ پریزنٹر سب ہی دوپٹہ پہنتی تھیں اور اچانک خصوصی پروگرام شروع ہو جاتے تھے۔ مکہ مکرمہ سے تراویح اور تلاوت اور ملک بھر سے رمضان محافل نشر کی جاتی تھیں۔
رمضان کے موجودہ دور میں بھی مختلف قسم کے پروگرام دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن بد قسمتی سے تجارت اور سرمایہ داری نے مقدس مہینے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اب یہ سب برانڈز کو فروغ دینے کے بارے میں ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ گزشتہ برسوں میں رمضان ٹرانسمیشن کس طرح تبدیل ہوئی ہے۔
رمضان ٹرانسمیشن اب تمام چینلوں کے لیے ایک اہم حصہ بن گئی ہے اور وہ ٹی آر پی کے لیے بھی لڑتے ہیں۔
ان شوز کی میزبانی پر بھی کافی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ اگرچہ بہت سے اداکار ان ٹرانسمیشنز کی میزبانی کرتے وقت بڑی حد تک احترام کرتے ہیں۔ جیسے کہ اقرار الحسن جیسے میزبان جو سال بھر اپنی ذاتی زندگی کے انتخاب کی وجہ سے نشانہ بنتے رہتے ہیں اور وینا ملک جیسی مشہور شخصیت جنہوں نے رمضان کے لیے استغفار جیسا شو کیا ہے۔ بدقسمتی سے گیمیکری پیکیج کا ایک حصہ بن گیا ہے اور آپ اس سے بچ نہیں سکتے۔
عجیب و غریب مناظرحال ہی میں رمضان ٹرانسمیشن میں عجیب و غریب گفتگو کا رجحان بڑھ رہا ہے اور یہ براہ راست ٹیلی ویژن پر ایسے پروگراموں میں چل رہی ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مذہبی ہیں۔ وہ مکمل طور پر غیر ضروری ہیں اور براہ راست ٹیلی ویژن پر نشر نہیں کیا جانا چاہیے۔
مزید پڑھیے: فیصل قریشی سوشل میڈیا اسٹارز کی حمایت میں بول پڑے
رمضان المبارک تمام چینلز کے لیے کمرشلائزیشن کا موقع بن چکا ہے۔ میزبانوں کے پہنے ہوئے کپڑے اور ان کے ہاتھ دھونے سے لے کر کھانا پکاتے وقت جو تیل ڈال رہے ہوتے ہیں سب کچھ اسپانسر کیا جاتا ہے اور ان تمام اسپانسرز کو اسکرین پر 100 بار دکھایا جاتا ہے چاہے وہ نعت کا سیگمنٹ ہو یا علما کا سیگمنٹ۔
تفریح کسی کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے اور دیکھنے کے لیے اچھے خاندانی شو ہونا ضروری ہیں۔ ہمیں ’سونو چندا‘‘ ملا جو میگا ہٹ بن گیا کیونکہ ڈرامے میں رمضان کا پس منظر ہوتا اور ہلکی پھلکی تفرح اور مذاق بھی۔ اس کے بعد ہمارے پاس کچھ بہت اچھے رمضان ڈرامے بھی تھے لیکن اب یہ برین پھکڑ کامیڈی اور غیر ضروری لو اسٹوریز پر مبنی ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں: رمضان المبارک میں ایمن خان کی فیملی کے ہمراہ مصروفیات، تصاویر وائرل
جیتو پاکستان جیسے گیم شوز رمضان المبارک کے دوران تفریح کا مرکز بن گئے ہیں جبکہ ماضی میں بزم طارق عزیز جیسے شوز زیادہ مقبول تھے۔ اس تبدیلی نے ناظرین میں ملے جلے جذبات کو جنم دیا ہے جس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر یہ بحث جاری ہے کہ آیا ان گیم شوز کو نشر کیا جانا چاہیے یا نہیں۔
اسپانسرز اور چینلز کی جانب سے کمرشلائزیشن کے بڑھتی ڈیمانڈ نے پرامن جذبے کو نقصان پہنچایا ہے جو کبھی رمضان پروگرامنگ کی پہچان ہوا کرتا تھا۔ اگر چینلز ناظرین کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بار بار ایک ہی فارمولے پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے نقطہ نظر کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ٹی وی نشریات رمضان نشریات رمضان نشریات میں تبدیلی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ٹی وی نشریات رمضان نشریات رمضان نشریات میں تبدیلی رمضان المبارک ہیں اور جاتا ہے ہے اور کے لیے
پڑھیں:
رمضان کے دوران قیلولہ کرنے کیلئےبہترین وقت کونساہے؟جانیں
ماہ رمضان کے دوران سحر سے افطار تک مسلمان کھانے پینے سے دور رہتے ہیں اور سحری کے لیے بہت جلد اٹھتے ہیں۔
یعنی ایک ماہ کے لیے طرز زندگی میں نمایاں تبدیلیاں آتی ہیں خاص طور پر نیند پر سب سے زیادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔رات کی نیند کا دورانیہ مختصر ہونے اور دن میں روزے کی وجہ سے بیشتر افراد تھکاوٹ اور ذہنی مستعدی میں کمی جیسے مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دوپہر کی نیند یا قیلولہ سے انہیں بہت زیادہ مدد مل سکتی ہے۔
ایک حالیہ طبی تحقیق میں دیکھا گیا تھا کہ ماہ رمضان کے دوران قیلولے کا مثالی دورانیہ کتنا ہونا چاہیے۔روزے رکھنے والے ایتھلیٹس پر ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ روزے کے دوران 40 منٹ کے قیلولے سے جسمانی اور ذہنی کارکردگی میں نمایاں بہتری آتی ہے۔اسی طرح فٹبال کے کھلاڑیوں پر ہونے والے تحقیقی کام میں دریافت کیا گیا کہ قیلولے سے وہ مختصر فاصلے کی دوڑ اور توجہ مرکوز کرنے کے ٹیسٹوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
قیلولے سے دماغ اور جسم کو دوبارہ تازہ دم ہونے کا موقع ملتا ہے۔جب کھانے کے اوقات تبدیل ہو جاتے ہیں اور رات کی نیند کا دورانیہ گھٹ جاتا ہے تو دماغ میں نیند کا دباؤ جمع ہونے لگتا ہے۔دوپہرکو ظہر کے بعد قیلولے سے اس دباؤ میں کمی آتی ہے جبکہ مزاج خوشگوار ہوتا ہے، ری ایکشن ٹائم بہتر ہوتا ہے جبکہ جسمانی مشقت کرنے کی صلاحیت بھی بڑھ جاتی ہے۔
وہ غذائیں جو جسمانی توانائی بڑھانے کے لیے بہترین ہوتی ہیں2024 کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دوپہر کو 40 منٹ کی نیند سے نہ صرف غنودگی میں کمی آتی ہے بلکہ اس سے توجہ مرکوز کرنے اور سوچنے کے کاموں میں کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔
اسی طرح 2025 میں خواتین میں ہونے والی ایتھلیٹس پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ رات کو کم دورانیے کی نیند کے بعد دوپہر 40 اور 90 منٹ کا قیلولہ جسمانی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے اور مزاج پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔مگر یہ قیلولہ کرنے کے عادی افراد کے لیے اچھی خبر نہیں، ویسے تو کئی بار طویل دورانیے کا قیلولہ زیادہ مفید ہوتا ہے مگر اس سے عارضی طور پر ذہن سست ہو جاتا ہے۔
رمضان کے دوران ہمارا جسم نیند کے شیڈول میں تبدیلیوں سے بتدریج مطابقت پیدا کرلیتا ہے تو مختصر قیلولہ زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔اس سے نیند کے معیار اور دورانیے میں کمی جیسے مسائل پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔مگر قیلولہ کا وقت بہت اہم ہوتا ہے اگر ایسا سہ پہر کے اختتام پر کیا جائے تو اس سے رات کو نیند کا وقت متاثر ہوسکتا ہے جس سے نیند متاثر ہونے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔
مگر درست وقت یعنی ظہر کے بعد قیلولہ کرنے سے ذہنی مستعدی میں اضافہ، خوشگوار مزاج اور جسمانی کارکردگی بہتر ہونے جیسے فوائد حاصل ہوتے ہیں جو کہ ماہ رمضان کے لیے بہت اہم ثابت ہوسکتے ہیں۔ویسے تو یہ آپ کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے کہ رمضان کے دوران روزانہ قیلولے کو عادت بنانا چاہیے یا نہیں مگر اس سے آپ کو اس مقدس مہینے کے دوران روزمرہ کی زندگی میں جن چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے، ان پر قابو پانے میں مدد جاتی ہے۔