ایران اپنے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی خدشات نظر انداز کر رہا ہے: امریکہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
ویب ڈیسک —امریکہ نے کہا ہے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالتا رہے گا۔
یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ایران نے جوہری پروگرام پر نئے مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے۔
دوسری جانب ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی اور اس کے ذخیرے پر بین الاقوامی تشویش بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے لیے امریکی مشن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل نے رپورٹ کیا ہے کہ ایران نے افزودہ یورینیم کی پیداوار تیز کر دی ہے۔
امریکی مشن نے بیان میں مزید کہا کہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق تہران یورینیم افزودگی کی اپنی پیداوار کو تیز کر رہا ہے۔
امریکی بیان کے مطابق ایران دنیا کا واحد ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار تو نہیں ہیں۔ لیکن وہ افزودہ یورینیم کی پیداوار کر رہا ہے جس کے لیے اس کے پاس کوئی ایسا قابلِ اعتبار مقصد نہیں ہے کہ وہ پر امن مقاصد کے لیے یہ یورینیم افزودہ کر رہا ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے جب کہ سلامتی کونسل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کے خدشات کو بھی نظر انداز کر رہا ہے۔
امریکی بیان میں کہا گیا کہ سلامتی کونسل کو ایران کے اس ڈھٹائی پر مبنی رویے سے نمٹنے اور اس کی واضح مذمت کے لیے متحد ہونا چاہیے۔
ایران کئی برس سے جوہری پروگرام پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہتا رہا ہے کہ اس کے جوہری پروگرام کے مقاصد فوجی نوعیت کے نہیں ہیں۔
ایران کے ساتھ مغربی ممالک کا 2015 میں جوہری معاہدہ ہوا تھا جس میں طے کی گئی شرائط پر اس نے مئی 2019 سے آہستہ آہستہ عمل کم کرنا شروع کر دیا تھا۔
ایران کے ساتھ ہونے والے 2015 کے اس معاہدے کو جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کہا جاتا ہے جس کے تحت تہران نے اپنا جوہری پروگرام محدود کرنا تھا اور اس کے بدلے میں ایران پر عائد پابندیوں میں نرمی کی جانی تھی۔
ایران نے فروری 2021 میں اس معاہدے میں کیے گئے وعدوں پر عمل کرنا مکمل طور پر بند کر دیا تھا۔ ایران کے اس اقدام کے بعد اس معاہدے کے تحت آئی اے ای اے جوہری پروگرام سے متعلق تصدیق اور نگرانی کی سرگرمیاں روک چکی ہے جس سے ایران کے اقدامات پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس فریق ہیں۔ صدر ٹرمپ کی صدارت کی پہلی مدت میں امریکہ اس معاہدے سے الگ ہو گیا تھا۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں بدھ کو ایک پرائیوٹ میٹنگ طلب کی گئی تاکہ ایران کے جوہری پروگرام کے لیے اقدامات پر تبادلۂ خیال کیا جا سکے۔
سلامتی کونسل کے ارکان یونان، پاناما اور جنوبی کوریا نے اس اجلاس کو طلب کرنے کی حمایت کی تھی۔
اقوامِ متحدہ میں برطانیہ کے نائب سفیر جیمز کاریوکی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ برطانیہ کو آئی اے ای اے کی ایران کی انتہائی افزودہ یورینیم کی پیداوار کے بارے میں تازہ رپورٹ پر شدید تشویش ہے۔
جیمز کاریوکی کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ سامنے آئی والی رپورٹ میں آئی اے ای اے کے ڈی جی نے کہا ہے کہ ایران اب تک 60 فی صد تک افزودہ 275 کلو گرام یورینیم بنا چکا ہے۔
یہ یورینیم سویلین استعمال کے لیے درکار مقدار سے کہیں زیادہ ہے جب کہ کسی اور غیر جوہری ملک کے پاس اس مقدار میں اتنی یورینیم نہیں ہے۔
نائب سفیر کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے ضروری سفارتی اقدامات کرے گا جن میں اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کا نفاذ شامل ہے۔
تہران سے کیے گئے معاہدے کے تحت اگر ایران وعدوں پر عمل در آمد نہیں کرتا تو اقوامِ متحدہ کی پابندیاں ایک بار پھر اس پر لاگو کی جا سکتی ہیں۔
ایران کے ساتھ کے گئے معاہدے کی میعاد رواں برس اکتوبر میں ختم ہو رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ عالمی قوتوں کو ایران کے ساتھ بامعنی مذاکرات کا وقت کم ہے۔
سیکیورٹی کونسل کی اس پرائیوٹ میٹنگ میں ایران کے اقوامِ متحدہ میں سفیر نے شرکت کی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایران کے اقوامِ متحدہ میں مشن نے اس اجلاس پر تنقید بھی کی۔
سوشل میڈیا پر ایک بیان میں ایران کے مشن کی جانب سے کہا گیا کہ امریکہ سلامتی کونسل کو ایران کے خلاف اقتصادی اقدامات بڑھانے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ سلامتی کونسل کو اپنی ساکھ کے لیے اس خطرناک استعمال کو مسترد کرنا چاہیے۔
تہران کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر روس اور چین نے بھی دستخط کیے تھے۔ یہ دونوں ممالک ایران کے اتحادی ہیں۔
چین کے اقوامِ متحدہ میں سفیر فو کانگ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ جوہری مسئلہ ویانا میں آئی اے ای اے میں نمٹایا جا رہا ہے جب کہ چین بدھ کو ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس کی حمایت نہیں کرتا۔
فو کانگ نے گفتگو میں امریکی انتظامیہ کو 2017 میں ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے سے دستبردار ہونے کی وجہ سے اسے خراب کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ معاہدے کی اکتوبر میں میعاد ختم ہونے سے پہلے ایک نیا معاہدہ ہو سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی مخصوص ملک پر زیادہ دباؤ ڈالنا اہداف کے حصول کا سبب نہیں بنے گا۔
چینی سفیر نے کہا کہ چین جمعے کو بیجنگ میں ایران اور روس کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کرے گا تاکہ کسی ممکنہ معاہدے میں سہولت فراہم کرتے ہوئے صورت حال کو مستحکم کیا جا سکے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: جوہری پروگرام ایران کے ساتھ سلامتی کونسل آئی اے ای اے یورینیم کی ہونے والے اس معاہدے میں ایران کر رہا ہے متحدہ کی کہ ایران میں کہا کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
ٹرمپ کی دھمکیاں دانشمندی نہیں، ہم جوہری ہتھیار بنائیں تو کوئی روک نہیں سکتا، خامنہ ای
ٹرمپ کی دھمکیاں دانشمندی نہیں، ہم جوہری ہتھیار بنائیں تو کوئی روک نہیں سکتا، خامنہ ای WhatsAppFacebookTwitter 0 13 March, 2025 سب نیوز
تہران (سب نیوز )ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکا کے ساتھ جوہری معاہدے پر بات چیت کے خیال کو مسترد کردیا ہے، یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جوہری مذاکرات کے حوالے سے دھمکی آمیز خط ایران کو موصول ہوا ہے۔ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ انہوں نے خامنہ ای کو ایک خط بھیجا ہے، جس میں جوہری مذاکرات کی تجویز پیش کی گئی ہے، لیکن ساتھ ہی متنبہ کیا ہے کہ ایران سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں، ایک فوجی کارروائی، دوسرا آپ جوہری ہتھیاروں کو ترک کرنے کا معاہدہ کرلیں۔
یہ خط بدھ کے روز متحدہ عرب امارات کے صدر کے سفارتی مشیر انور قرقاش نے ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے حوالے کیا۔خامنہ ای نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے مذاکرات کے لیے مطالبات بہت زیادہ ہیں، ایسے میں کوئی بھی بات چیت ایران پر پابندیوں کو سخت کرے گی، ایران پر دبا میں اضافہ کیا جائے گا۔سنہ 2018 میں ٹرمپ نے عالمی طاقتوں کے ساتھ تہران کے 2015 کے جوہری معاہدے سے امریکا کو الگ کر لیا تھا، اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں، جس نے ایران کی معیشت کو مفلوج کر دیا تھا۔
تہران نے ایک سال بعد معاہدے کی جوہری پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ردعمل کا اظہار کیا تھا۔تہران کے ساتھ جوہری معاہدے کے دروازے کھلے رکھتے ہوئے ٹرمپ نے صدر کی حیثیت سے اپنی پہلی مدت میں ایران کو عالمی معیشت سے الگ تھلگ کرنے اور تیل کی برآمدات کو صفر کی طرف لے جانے کے لیے زیادہ سے زیادہ دبا کی مہم کو بحال کر دیا ہے۔دوسری جانب چینی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ چین اور روس جمعے کو بیجنگ میں ایرانی حکام کے ساتھ ایرانی جوہری معاملے پر بات چیت کریں گے۔
خامنہ ای نے ٹرمپ کے فوجی کارروائی کی دھمکی والے خط کے جواب میں کہا کہ امریکی دھمکیاں غیر دانشمندانہ ہیں، امریکا عسکریت پسندی کی دھمکیاں دے رہا ہے۔خامنہ ای نے طلبہ سے ملاقات میں کہا کہ میری رائے میں یہ دھمکی غیر دانشمندانہ ہے، ایران جوابی کارروائی کی صلاحیت رکھتا ہے اور یقینی طور پر امریکا کو دھچکا لگے گا۔سرکاری میڈیا کے مطابق خامنہ ای نے یونیورسٹی کے طلبہ کے گروپ کو بتایا کہ ٹرمپ کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش دھوکا ہے جس کا مقصد رائے عامہ کو گمراہ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم جانتے ہیں کہ وہ مذاکرات کا احترام نہیں کریں گے تو مذاکرات کا کیا مطلب ہے؟سرکاری میڈیا نے خامنہ ای کے حوالے سے کہا کہ امریکی پیشکش اور دھمکیاں رائے عامہ کو دھوکا دینا ہے۔ انہوں نے 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے سے واشنگٹن کی دستبرداری کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ ہم بیٹھے رہے اور کئی سال تک مذاکرات کیے، اسی شخص نے دستخط شدہ معاہدے کو پھاڑ کر میز سے پھینک دیا تھا۔
ایران نے پابندیوں کی موجودگی میں باضابطہ طور پر مذاکرات سے انکار کیا ہے، خامنہ ای نے کہا کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات سے پابندیاں نہیں ہٹائی جائیں گی، بلکہ وہ پابندیوں کو مزید سخت کر دے گا۔خامنہ ای نے کہا کہ جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ امریکا ایران کو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دے گا، اگر ہم جوہری ہتھیار بنانا چاہتے تو امریکا ہمیں روک نہیں سکتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں، ہم جوہری ہتھیار کی تلاش میں بھی نہیں ہیں، کیونکہ ہم خود ہی ان کا حصول نہیں چاہتے، ایران جنگ نہیں چاہتا لیکن اگر کوئی کارروائی کرتا ہے تو ہمارا جواب فیصلہ کن اور یقینی ہوگا۔ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں کہا تھا کہ ایران کے پاس 60 فیصد خالص یورینیم افزودہ کرنے والے یورینیم کے ذخیرے میں اضافہ ہوا ہے، جو تقریبا 90 فیصد ہتھیاروں کی سطح کے قریب ہے۔