نئی دہلی(نیوز ڈیسک)کبھی تاج و تخت کے وارث، کبھی غلامی و زوال کے شکار، تاریخ کے صفحات ایسے بے شمار قصے سناتے ہیں، مگر کچھ کہانیاں دل کو چھو لینے والی ہوتی ہیں۔ یہ کہانی بھی ایک ایسی ہی شخصیت کی ہے، جو کبھی مغلیہ سلطنت کے شاندار ماضی سے جڑی تھی، مگر آج زندگی کی بنیادی سہولتوں کے لیے ترس رہی ہے۔

جی ہاں، ہم بات کر رہے ہیں بہادر شاہ ظفر کی پڑپوتی سُلطانہ بیگم کی، جو کبھی ایک شاہانہ زندگی کا خواب دیکھتی تھیں، مگر آج کولکتہ کی ایک تنگ و تاریک گلی میں گمنامی اور مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

شاہی خون، مگر بے بسی کا مقدر

سُلطانہ بیگم کا نام سن کر شاید ذہن میں کسی عظیم الشان محل کا تصور ابھرے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان کی شادی 1965 میں میرزا محمد بیدار بخت سے ہوئی، جو خود کو بہادر شاہ ظفر کا پڑپوتا بتاتے تھے۔ سُلطانہ بیگم اُس وقت محض 14 سال کی ایک معصوم لڑکی تھیں، جبکہ ان کے شوہر 46 سال کے ایک ادھیڑ عمر مرد۔ یہ شادی محض ایک بندھن نہیں تھی، بلکہ تاریخ کی ایک ایسی کڑی تھی جس میں ماضی کی شان و شوکت اور حال کی بے بسی آمنے سامنے کھڑی تھیں۔

مگر قسمت کو یہ بھی گوارا نہ ہوا۔ 1980 میں شوہر کے انتقال کے بعد، زندگی نے یکدم کروٹ بدلی اور شاہی ورثے کی یہ وارثہ دو وقت کی روٹی کے لیے بھی محتاج ہوگئی۔ کبھی جن کے آبا و اجداد ہندوستان کے تخت پر براجمان تھے، آج وہی ورثہ زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو جسے وہ اپنا گھر کہنے پر مجبور ہے۔

کولکتہ کی ایک تنگ گلی میں، شاہی خون کی آخری نشانی

سُلطانہ بیگم آج ہاوڑہ، کولکتہ کی ایک خستہ حال بستی میں رہتی ہیں، جہاں روشنی کم اور اندھیرے زیادہ ہیں۔ ان کا گھر محض دو کمروں کا ایک چھوٹا سا جھونپڑا ہے، جہاں نہ مناسب پانی کی سہولت ہے، نہ ہی بجلی اور نہ ہی زندگی کی کوئی آسائش۔

حکومت کی طرف سے انہیں صرف 6000 روپے ماہانہ پنشن ملتی ہے، جو آج کے دور میں زندہ رہنے کے لیے ناکافی ہے۔ ایک وقت تھا جب مغلوں کے نام سے دربار لرز جاتے تھے، اور ایک آج ہے کہ ان کی اولاد کو دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہے۔

1857 کی جنگ اور بہادر شاہ ظفر کی آخری آہ

یہ کہانی صرف سُلطانہ بیگم کی نہیں، بلکہ تاریخ کے ایک المیے کی بھی ہے۔ بہادر شاہ ظفر، جو کبھی مغل تاج و تخت کے وارث تھے، 1857 کی جنگِ آزادی میں ہندوستانی باغیوں کے رہنما بنے، مگر برطانوی سامراج نے اس جنگ کو بے دردی سے کچل دیا۔ ظفر کو رنگون (موجودہ میانمار) جلاوطن کر دیا گیا، جہاں انہوں نے 1862 میں انتہائی بے بسی اور تنہائی میں جان دی۔

کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ان کی پڑپوتی کو بھی اسی بے بسی اور لاچاری کی زندگی گزارنی پڑ رہی ہے؟ یا یہ تاریخ کا وہی بے رحم چکر ہے جو طاقتور سلطنتوں کو پہلے آسمان پر چڑھاتا ہے اور پھر زمین پر پٹخ دیتا ہے؟

کیا کوئی سُنے گا؟

یہ سوال آج بھی اپنی جگہ موجود ہے، کیا بھارتی حکومت اس شاہی ورثے کی آخری وارثہ کو ان کا حق دے گی؟ کیا یہ صرف ایک خاندان کی کہانی ہے، یا پھر تاریخ کے ساتھ کی گئی ایک اور ناانصافی؟

یہ محض ایک فرد کی نہیں، بلکہ پوری ایک سلطنت کی درد بھری کہانی ہے، جو کبھی اپنے وقت کی سب سے طاقتور حکومت تھی، اور آج اس کا خون ایک گلی کے کونے میں بیٹھا انصاف کا منتظر ہے۔ کیا کوئی سنے گا؟ یا یہ داستان بھی وقت کے دھندلکوں میں کھو جائے گی؟
مزیدپڑھیں:وہ واحد چیز، جس میں پاکستان ہندوستان سے آگے نکل گیا! فہرست میں نمبر دیکھ کر حیران نہ ہوں

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بہادر شاہ ظفر س لطانہ بیگم جو کبھی کی آخری کی ایک

پڑھیں:

جراتِ انکار (آخری حصہ)

حسین نقی نے صحافت کے بدلتے ہوئے رجحانات کے تناظر میں بتایا کہ پھر ہفت روزہ ویو پوائنٹ میں کام کیا۔ ویو پوائنٹ کے ایڈیٹر مظہر علی خان تھے۔ معروف صحافی آئی اے رحمن اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک آرٹیکل لکھنے پر حسین نقی کو لاہور کے شاہی قلعہ میں لے جایا گیا اور ایک سال سے زیادہ عرصہ جیل میں گزارنا پڑا۔ حسین نقی کہتے ہیں معروف صحافی زیڈ اے سلہری اپنے شعبے میں بہت Competent تھے۔ وہ کہتے تھے کہ پاکستان میں آزادی سے صحافت کرنی ہے تو جیل ضرور جانا ہوگا۔ سلہری نے یہ بھی کہا کہ میں نے اس راستہ کو منتخب نہیں کیا بلکہ وہ ہمیشہ مقتدر لوگوں کے ساتھ رہے، مثلًا ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، ضیاء الحق اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی رہے۔

نقی صاحب نے ایک واقعہ یوں بیان کیا کہ زیڈ اے سلہری نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے کہا کہ وہ بھی ان کے ساتھ چین اور شمالی کوریا جائیں گے۔ سلہری صاحب شمالی کوریا کی سردی برداشت نہیں کرپائے۔ جب ہم لوگوں کو یہاں اچانک ایئرپورٹ لا کر سوار کیا گیا تب وہاں گھٹنوں تک برف پڑی تھی۔ میں نے سلہری صاحب کو گندم کی بوری کی طرح پیٹھ پر ڈال کر جہاز کی سیڑھیوں تک پہنچایا۔ وہاں مرتضیٰ نے جو ساہیوال میں پاکستان ٹائمز کا نامہ نگار تھا، وہ مجھ سے بہت لڑا۔ سلہری نے تم سب کے خلاف اتنا لکھا پھر بھی یہ سب کچھ کر رہے ہو مگر ایک بوڑھے کی مدد کرنا ضروری تھا۔

 کتاب ’’جرات انکار‘‘ سینئر صحافی حسین نقی کی داستانِ حیات ہے۔ وہ ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ وہ 1955 سے 1960تک لاہور میں رہے۔ اس دوران ان کی ملاقاتیں زاہد ڈار، سجاد باقر رضوی، امین مغل، انتظار حسین اور عباس اطہر وغیرہ سے پاک ٹی ہاؤس میں ہوئیں۔ شورش کاشمیری جو کہ رائیٹسٹ تھے وہ سب آکر چائینیز ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے۔ پاکستان ٹائمز کے دفتر جاتے تھے تو وہاں آئی اے رحمن ہوتے تھے۔ بقول نقی ہم صفدر میرکے کمرہ میں جاکر بیٹھ جاتے تھے۔ حسین نقی نے بتایا کہ ایک سرکاری ملازم نور حسین انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں ہوتے تھے جنھوں نے مارشل لاء سے مارشل لاء تک کتاب لکھی تھی۔

 حسین نقی کہتے ہیں کہ پی پی ایل کے مالک میاں افتخار الدین فیوڈل لارڈ تھے لیکن لیفٹ کے نظریات کے حامی تھے۔ حسین نقی نے بتایا کہ مظہر علی خان کا تعلق بائیں بازو سے تھا، وہ سر سکندر حیات کے بھتیجے تھے۔ ان کی اہلیہ طاہرہ سر سکندر حیات کی صاحبزادی تھیں۔ مظہر علی خان اور طاہرہ ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔

سر سکندر اپنی بیٹی کی شادی مظہر علی خان سے کرنے کو تیار نہیں تھے کیونکہ وہ لیفٹسٹ تھے مگر انھیں علم نہیں تھا کہ ان کی بیٹی لیفٹسٹ ہے اور کمیونسٹ پارٹی کا اخبار بانٹتی ہے۔ مظہر علی خان بہت ہی نستعلیق تھے، شریف آدمی تھے۔ ان کی سب سے قریبی دوستی فیض صاحب سے تھی۔ جب مظہر علی خان پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے تو اس اخبار کا شمار دنیا کے اچھے اخبارات میں ہوتا تھا۔ حسین نقی نے بتایا کہ مظہر علی خان اور آئی اے رحمن ہاتھ سے لکھتے تھے۔ حسین نقی نے بتایا کہ فیض احمد فیض سے تحریکِ پاکستان کے بارے میں تفصیلی بات چیت ہوئی۔

وہ بیروت سے واپس آئے تو ان کے لیے پروگرام رکھا گیا۔ پروگرام میں، میں نے پہلی بار ان کی اونچی آواز سنی۔ انھوں نے دور سے مجھے دیکھ کر آواز دی۔ ’’ ارے بھئی نقی، انقلاب کا کیا حال ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’ ہم کوشش کرتے رہتے ہیں، بس آپ یہاں نہیں تھے ‘‘ وہ نہ صرف عالم بلکہ علم دوست شخصیت تھے۔ انھوں نے پی پی ایل کے مالک میاں افتخار الدین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میاں افتخار الدین جمہوریت اور پیشہ ورانہ اخلاقیات پر یقین رکھتے تھے۔ میں ان کے گھر جاتا تھا۔ ان کے بیٹے سہیل افتخار سے کافی دوستی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان بنا ہے، اس کو پروگریسو لائنز پر ہونا چاہیے۔ مسلم انڈیا جو تحریک تھی اس کا مطمع نظر تو یہ تھا کہ نہ ملک سوشلسٹ ہوگا، مساوات کی بنیاد پر بنے گا۔

پاکستان ٹائمز اور امروز میں مولانا چراغ حسن حسرت اور مولانا غلام رسول مہر جیسے علماء شامل تھے جو لیفٹ والے تو نہ تھے مگر پروگریسو ضرور تھے۔ نقی صاحب نے اپنی یاد داشتوں کو کھنگالتے ہوئے بتایا کہ جب حمید اختر، پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے صدر اور نقی سیکریٹری منتخب ہوئے تو مولانا غلام رسول مہر کو حلف برداری کی تقریب کے لیے مدعو کیا۔ ان کی کرسی کو جرنلسٹس اٹھا کر تین منزلہ عمارت کی چھت پر پہنچے اور ہم نے حلف لیا۔ حسین نقی کو جنرل ضیاء الحق کے دور میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا اور لاہور کے شاہی قلعہ کے ٹارچر کیمپ میں رکھا گیا۔

حسین نقی نے آئی اے رحمن سے متعلق بتایا کہ رحمن صاحب میں غیر معمولی صلاحیت تھی، وہ لوگوں کے مجمع میں بیٹھے ہوئے بھی لکھ لیتے تھے۔ رحمن صاحب نے انٹرنی کے طور پر کیریئر کی ابتداء کی تھی۔ وہ لوگوں کی بہت مدد کرتے تھے۔ 1947میں ان کا پورا خاندان قتل ہوگیا۔ کبھی انھوں نے ذکر بھی نہیں کیا۔ حسین نقی نے ہیومن رائٹس کمیشن HRCP میں ملازمت کا یوں ذکر کیا کہ ’’ادارہ 1986 میں قائم ہوا۔ میں شروع سے ہی ایچ آر سی پی کا رکن تھا۔ اسی طرح 1992 میں آئی اے رحمن کے قائل کرنے پر میں نے ایچ آر سی پی جوائن کر لیا۔ وہاں یہ کام تھا کہ ایکٹیوسٹس کا گروپ بنانا تھا، یوں اب ایچ آر سی پی کے کوئی 60 سے 68 جگہ گروپ بن گئے۔

پاکستان کے شروع کے 10 سال دیکھیں۔ ریاست کا کوئی ڈھانچہ نہیں ہے۔ آزادی کے 4 سال بعد وزیر اعظم قتل ہوئے۔ ریاست کو سفری طاقتوں کے ساتھ Morgage کردیا۔ وہ کہتے ہیں کہ 1947 تک اتنا نظر نہیں آتا تھا کہ کسی نئی اسٹیٹ کے لیے کوئی تیاری موجود ہے کہ نہیں۔ میں نے سینئر بیوروکریٹ زبیری اور آغا شاہی سے بھی پوچھا تھا۔ انھوں نے کہا کہ آزادی سے پہلے کوئی پلان نہیں تھا۔ اے ٹی نقوی جو بیوروکریٹ تھے میرے سوالات کے جوابات نہیں دے سکے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اسٹیٹ عملاً اس وقت بھی پاکستان میں موجود نہیں ہے۔ اسٹیٹ کو عوام کی منشاء کے مطابق جمہوری انداز میں آپریشنل بنانے کے لیے ابتداء سے ہی کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت شاید 20 سے 25 دن ہونگے جب بنیادی حقوق پر پابندی نہیں رہی ہوگی۔ ‘‘ انھوں نے جسٹس دراب پٹیل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دراب پٹیل نے ایک با اصول اور غیر جانبدار جج کی حیثیت سے بڑی عزت کمائی ۔ نقی صاحب کا کہنا تھا کہ عاصمہ جہانگیر ایک کمیٹڈ خاتون تھیں۔ عاصمہ مارشل لاء کے تحت اپنے والد ملک غلام جیلانی کی گرفتاری کے خلاف دی جانے والی رٹ پٹیشن سے کافی مشہور ہوگئی تھیں۔

عاصمہ میں Courage بہت تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں پنجابی کا پہلا اخبار ’’سجن‘‘ نکالنے میں کامیابی ہوئی مگر پنجابی سرمایہ داروں نے پنجابی اخبار کو اشتہارات نہیں دیے۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے اشتہارات دیے تھے جو ان کی حکومت کے خاتمے پر نگراں وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی کی حکومت نے بند کردیے۔ حسین نقی کہتے ہیں کہ ’’آج مجھے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان توڑنے کے بعد جو عناصر اس ریاست پر قابض ہوئے وہ ملک میں جمہوری طرزِ حکمرانی قبول کرنے پر تیار نہیں تھے۔ اب یہ آنے والی نسل پر منحصر ہے کہ وہ اس صورتحال کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ آخری دم تک اس جدوجہد کا حصہ رہیں کہ یہاں فلاحی ریاست قائم ہو۔

 اس کتاب میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی 60کی دہائی میں یونیورسٹی آرڈیننس کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کا ذکر واضح طور پر نظر نہیں آتا۔ نقی صاحب این ایس ایف کے ان رہنماؤں میں شامل تھے جنھیں کراچی بدر کیا گیا۔ ڈاکٹر جعفر احمد نے اس کتاب میں نقی صاحب کی زندگی کے بارے میں بہت سے واقعات شامل کیے ہیں۔ قارئین اس پوری کتاب کا مطالعہ کرکے نقی صاحب کی زندگی اور مظلوم طبقات کی تحریکوں کے بارے میں آگاہی حاصل کرسکتے ہیں۔

(تصحیح۔ گزشتہ کالم میں غلطی سے پنجاب پنج کے پبلشرکے طورپر مظفر قادرکا نام لکھا گیا، جب کہ اصل میں حسین نقی پنجاب پنج کے پبلشر تھے۔)

متعلقہ مضامین

  • وفاقی حکومت کا سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پینشن عید سے قبل ادا کرنے کا اعلان
  • حکومت کا سرکاری ملازمین کی تنخواہیں، پینشن عید سے قبل ادا کرنے کا اعلان
  • سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کی جائیداد اور بینک اکاؤنٹس ضبط کرنے کا حکم
  • جراتِ انکار (آخری حصہ)
  • کےالیکٹرک کی جنوری 2025 کی ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کیلئے درخواست
  • K&Ns کی خون بھری فروزن چکن،پکاتے وقت ہانڈی خون آلود،صحت کا قتل عام،کو ئی پر سان حال نہیں
  • بجلی کی قیمتوں میں کمی
  • عورتوں بچوں سے بھری ٹرین کو حیریبیار مری کے دہشتگردوں نے یرغمال بنایا، ریسکیو آپریشن جاری
  • بنگلہ دیش میں جبری گمشدگیاں: سینکڑوں خاندان اپنے عزیزوں کے منتظر