دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد میں 40 فیصد تعداد بچوں کی ہے جنہیں جنسی استحصال، گھریلو غلامی، نوعمری کی شادی، مسلح گروہوں میں بھرتی اور مجرمانہ سرگرمیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

بچوں کے خلاف تشدد پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی نمائندہ خصوصی نجات مالا مجید نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کو بتایا ہے کہ غربت، غذائی عدم تحفظ، انسانی بحران اور نقل مکانی سے لے کر تشدد تک بہت سے بحرانوں کا باعث بننے والےمسلح تنازعات اس جرم کے بنیادی محرکات ہیں۔ بچوں کے سمگلر ان حالات کا سامنا کرنے والے لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی سرگرمیوں کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے کام لے رہے ہیں۔

The Special Representative of the @UN Secretary-General on Violence against Children (@UN_EndViolence), Najat Maalla M’jid, warned the Human Rights Council about the alarming increase in trafficking in children.

She underlined “the urgent need to end this serious crime.”#HRC58 pic.twitter.com/DvkpmbqG00

— UN Human Rights Council (@UN_HRC) March 12, 2025

ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں بچوں کی اسمگلنگ کے جرم پر قانون اور سزائیں زیادہ سخت نہیں ہیں جس کی وجہ سے اس جرم کے ذمہ دار عناصر پکڑے نہیں جاتے۔ علاوہ ازیں، بدعنوانی، بدنامی، خوف اور تحفظ کی کمی جیسے مسائل بھی بچوں کے لیے انصاف اور مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

منافع بخش جرم

نمائندہ خصوصی کا کہنا ہے کہ بچوں کی اسمگلنگ دنیا بھر میں اربوں ڈالر مالیت کا انتہائی منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ جرائم پیشہ عناصر خفیہ رہنے کے لیے مصنوعی ذہانت سے کام لینے لگے ہیں اور ان کے نیٹ ورک تیزی سے پھیلتے اور منظم ہوتے جا رہے ہیں۔

مسلح تنازعات کا سامنا کرنے والے بچوں کے مسائل پر اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ورجینیا گامبا نے کونسل کو بتایا ہے کہ دنیا بھر میں 16 فیصد سے زیادہ بچے ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جو تنازعات کا شکار ہیں۔ تمام ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں بنائیں جن کی بدولت بچوں کو نقصان سے تحفظ ملے اور وہ پرامن ماحول میں زندگی گزاریں۔

عصبی ٹیکنالوجی کے خطرات

عصبی ٹیکنالوجی جہاں بہت سے فوائد لے کر آئی ہے وہیں اسے انسان کے اندرونی خیالات، تصورات، جذبات حتیٰ کہ یادداشت کو قبضے میں لینے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

نجی اخفا کے حق پر اقوام متحدہ کی خصوصی رابطہ کار اینا نوگریرس نے کونسل کو بتایا ہے کہ نیورو ٹیکناولجی کے آلات سائنس دانوں کو الزائمر، شیزوفرینیا، پارکنسن، مرگی، ڈپریشن اور اعصابی تھکن جیسے امراض کو سمجھنے، ان کی تشخیص اور ان کا نیا علاج ڈھونڈنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ تاہم، انہیں غیرقانونی مقاصد کے لیے بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے جسے روکنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر انضباطی طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے جس میں قانونی و اخلاقی تحفظ کی فراہمی کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔

انہوں نے کونسل کو بتایا کہ ایسے آلات سے لوگوں کے عصبی نظام سے ان کی ذاتی معلومات براہ راست حاصل کی جا سکتی ہیں اور انہیں نقصان دہ مقاصد کے لیے کام میں لایا جا سکتا ہے۔

اگرچہ اس وقت ان آلات کے نقصان پہنچانے کی صلاحیت محدود ہے تاہم ان کے ذریعے دماغی سرگرمیوں میں تبدیلی لانا حتیٰ کہ انسانوں کو مصنوعی طور سے تبدیل کرنا بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ اس طرح یہ آلات انسانی حقوق اور وقار، اخفا، خودمختاری اور اختیار کی بنیادی اقدار کے لیے بہت بڑا خطرہ ثابت ہوں گے۔

نگرانی اور جبر کا خطرہ

انہوں نے کونسل کو بتایا کہ نیوروٹیکنالوجی کے ذریعے دماغی سرگرمی کو ڈی کوڈ کر کے کسی فرد کے انتہائی نجی خیالات اور جذبات تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ مناسب حفاظتی اقدامات کے بغیر یہ ٹیکنالوجی لوگوں کی غیرقانونی نگرانی کرنے یا ان پر جبر کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہے۔

حکومتیں، بڑے کاروباری ادارے یا تخریب کار عناصر بھی لوگوں کے نجی رویوں اور تصورات کو اپنے حق میں توڑنے موڑنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ نیورو ٹیکنالوجی کے دماغی صحت کے حوالے سے فوائد کے باوجود یہ خدشہ موجود ہے کہ نیورو ڈیٹا ناصرف لوگوں کی سوچ کو سامنے لا سکتا ہے بلکہ اس سے انسانی دماغ پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔

خصوصی اطلاع کار نے اس خطرے کی سنگینی سے خبردار کرتے ہوئے حکومتوں پر زور دیا کہ وہ اس حوالے سے فی الفور ضروری حفاظتی اقدامات متعارف کرائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

AI-powered camera اقوام متحدہ انسانی اسمگلنگ بچے منافع؍ بخش جرم

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اقوام متحدہ انسانی اسمگلنگ بچے منافع بخش جرم نے کونسل کو بتایا اقوام متحدہ جا سکتا ہے بچوں کے کے لیے

پڑھیں:

گھریلو کام کاج کیلئے جدید اے آئی روبوٹ متعارف

ناروے کی روبوٹکس کمپنی 1X نے حال ہی میں نیو گاما متعارف کرایا ہے، جو کہ AI سے چلنے والا بائی پیڈل ہیومنائیڈ روبوٹ ہے جو گھر کے متعدد کام انجام دے سکتا ہے۔

نیو گاما بہت سے گھریلو کام کر سکتا ہے جیسے کپڑے دھونے، کھڑکیوں کی صفائی، اور ویکیومنگ۔

ویسے تو ہم نے گزشتہ چند مہینوں میں روبوٹکس میں کچھ اہم پیش رفتیں دیکھی ہیں، بشمول STAR1 جو دنیا کا تیز ترین بائی پیڈل روبوٹ ہے یا SE01، ایک بائی پیڈل روبوٹ جو صفائی سے چلنے کے لیے مشہور ہے۔

لیکن روزمرہ کے کام کے لحاظ سے روبوٹ کی کمی موجود تھی۔ اب یہ سب بدلنے والا ہے۔ ناروے کی روبوٹکس کمپنی کا نیو گاما ایک انسان نما روبوٹ ہے جو گھر کے مختلف کام جیسے صفائی اور چائے پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 

اسے زیادہ انسانی شکل دینے کے لیے، جاپانی کمپنی شیما سیکی (کپڑے بنانے والی کمپنی) کے ساتھ رابطہ کیا گیا تاکہ ایک نرم اور ہموار سوٹ بنایا جائے جو روبوٹ کے دھاتی جسم کو چھپا سکے۔
 

متعلقہ مضامین

  • تعلیمی نصاب میںگڈ ٹچ، بیڈ ٹچ آگاہی شامل کرنے کی تجویز
  • ڈاکٹر فائی نے انسانی حقوق کونسل کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی طرف مبذول کرائی
  • لاہور: معذور بچوں کے والد نے ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر خودکشی کرلی
  • اسرائیلی ’جنسی بدسلوکی‘ کا شکار فلسطینی، جنیوا میں بیانات
  • پاکستان سے ملائشیا انسانی اسمگلنگ، 84 ایجنٹوں کی نشاندہی، پاسپورٹس بلاک کرنے کا حکم
  • بچوں کو بدسلوکی سے بچانے کیلئے نصاب میں آگاہی دینے کا فیصلہ
  • وزیراعظم کا عثمان ججہ کو گرفتار کرنے والی ٹیم کیلئے انعام کا اعلان
  • گھریلو کام کاج کیلئے جدید اے آئی روبوٹ متعارف
  • شام میں جاری لوٹ مار اور خونریزی میں بڑی تعداد میں بچے ہلاک