سندھ: ضلعی عدالتوں کے ملازمین کا 1 بنیادی تنخواہ یا ایڈوانس انکریمنٹ دینے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
—فائل فوٹو
سندھ کی ضلعی عدالتوں کے ملازمین نے بذریعہ سیشن جج چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ سندھ کی ضلعی عدالتوں کے ملازمین کو ایک بنیادی تنخواہ یا ایڈوانس انکریمنٹ دیا جائے۔
ضلعی عدالتوں کے ملازمین کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ سابق چیف جسٹس نے ہائی کورٹ کے ملازمین کے لیے رمضان میں خصوصی اعزازیے کا اعلان کیا تھا، گزشتہ کئی برسوں سے ضلعی عدالتوں کے ملازمین اس اعزازیے سے محروم ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ دیگر صوبوں میں بھی ضلعی عدالتوں کے ملازمین کو خصوصی اعزازیہ دیا جا رہا ہے اس لیے سندھ کی ضلعی عدالتوں کے ملازمین بھی اعزازیے کے حق دار ہیں۔
کراچی سندھ ہائی کورٹ نے چیف سیکرٹری سندھ آصف حیدر.
خط میں وضاحت کی گئی ہے کہ طے شدہ اصول ہے کہ ملک میں کہیں بھی ملازمین کو دیے گئے فوائد کے لیے آئینی پٹیشن کی ضرورت نہیں ہے۔
خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ سندھ کی ضلعی عدالتوں کے ملازمین کو 1 بنیادی تنخواہ یا ایڈوانس انکریمنٹ دیا جائے۔
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: سندھ کی ضلعی عدالتوں کے ملازمین ملازمین کو
پڑھیں:
سویلینز کو فوجی عدالتوں میں کیسے ٹرائل کیا جاسکتا ہے؟، یہ ہی سوال میرے دماغ میں اٹکا ہوا ہے، جسٹس جمال مندوخیل
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ کہ ایف بی علی کیس کلاز ڈی کی بات کرتا ہے کہ اس کے تحت سویلین کو بنیادی حقوق حاصل ہونگے، تو پھر ایف بی علی کیس کے تناظر میں کلاز ڈی کے ہوتے ہوئے سویلینز کو فوجی عدالتوں میں کیسے ٹرائل کیا جاسکتا ہے، یہی وہ سوال ہے جو میرے دماغ میں اٹکا ہوا ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ سماعت کر رہا ہے، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل کا آغاز کیا اور مؤقف اپنایا کہ سلمان اکرم راجہ اور اور وزیر بھنڈاری نے اپنے دلائل میں ایف بی علی کیس پر بات کی، میں ایف بی علی کیس کا وہ متعلقہ پیراگراف آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ایف بی علی کیس کا فیصلہ 1962 کے آئین کے تحت ہوا، ایف بی علی کیس کو 1973 کے آئین کے تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا۔
خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ ایف بی علی کیس میں دوسری طرف سے جس پیراگراف کو بنیاد پر کر دلائل دئیے جاتے رہے وہ بے اثر ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ بھی بی علی کیس کو چیلنج کرہے ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جس فیصلہ کیخلاف اپیل سنی جارہی ہے اس میں بھی یہی درج ہے،
ایف بی علی کیس میں کہا گیا تھا کہ فوجی ٹرائل ٹھیک ہے اور فئیر ٹرائل کا حق ملتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 8(3) اے کے تحت جو قوانین ہیں ان میں بنیادی حقوق لاگو نہیں ہوتے، اس کے تحت وہ قانون بنیادی حقوق کے تناظر میں کالعدم نہیں قرار دئیے جاسکتے، 1962 کے آئین میں آرٹیکل 6 جبکہ 1973 کے آئین میں آرٹیکل 8 ہے، ایف بی علی کیس نے کہا کہ آرمڈ فورسز کے ممبران پر بنیادی حقوق لاگو نہیں ہوتے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایف بی علی کیس کلاز ڈی کی بات کرتا ہے کہ اس کے تحت سویلین کو بنیادی حقوق حاصل ہونگے، تو پھر ایف بی علی کیس کے تناظر میں کلاز ڈی کے ہوتے ہوئے سویلینز کو فوجی عدالتوں میں کیسے ٹرائل کیا جاسکتا ہے، یہی وہ سوال ہے جو میرے دماغ میں اٹکا ہوا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ آپ فرض کریں کہ اگر سویلینز پر بھی آئین کے آرٹیکل 8(3) اے کا اطلاق ہوتا ہے، تو پھر ان سویلینز کو بھی بنیادی حقوق حاصل نہیں ہونگے، اس تناظر میں تو سپریم کورٹ میں یہ 184(3) کی درخواست ہی ناقابل سماعت تصور ہوگی، ایف بی علی کیس کو جس طرح سے دوسری طرف نے اپنے دلائل میں بیان کیا وہ کیا ہی نہیں جاسکتا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کسی پارٹی کے دلائل پر انحصار کرنا لازمی نہیں ہوتا ، جب سپریم کورٹ بیٹھ جائے تو پھر وہ مکمل انصاف کا اختیار بھی استعمال کرسکتی ہے۔