غزہ کوئی ’’چیز‘‘ نہیں ہے، جناب صدر!
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نہ اسرائیل اور نہ ہی امریکہ ہمیں، غزہ کے لوگوں کو امن کے ساتھ چھوڑنے پر تیار ہیں۔ یہاں تک کہ اسرائیلی استعماری قبضے کے ذریعے ہونے والی نسل کشی کی جنگ میں ایک نازک جنگ بندی کے اعلان کے بعد، جسے امریکی حمایت اور مصری اور قطری ضمانتوں کے ساتھ عمل میں لایا گیا،امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک اور گہرا متنازعہ اعلان کیا۔ انہوں نے اس ساری چیز کو صاف کرنے” کی تجویز پیش کی، “ڈیڑھ ملین” فلسطینیوں کو اردن اور مصر جیسے پڑوسی ممالک میں منتقل کرنے کی تجویز پیش کی،اور اسے ایک نام نہاد انسانی حل کے طور پر پیش کیا۔میں نے ان کے الفاظ کو دو مرتبہ پڑھا،اور اس بات کو شعوری طور پر سمجھنے کی کوشش کی کہ “چیز” کا مطلب ان کے نزدیک کیا ہے۔ وہ خود غزہ کا حوالہ دے رہے تھے، ایک ایسی سرزمین جو بیس لاکھ سے زیادہ لوگوں کا گھر ہے جنہوں نے کئی دہائیوں کے محاصرے، بمباری اور جبری نقل مکانی کو برداشت کیا ہے۔ ٹرمپ کے نزدیک غزہ زندگی، تاریخ اور مزاحمت کی جگہ نہیں ہے بلکہ ایسی ایک رکاوٹ جسے دور کرنے کی ضرورت ہے، غزہ کے لوگوں نے امریکہ جیسے بگڑے ہوئے بچے کواپنا پسندیدہ “حل” نکالنے میں ان کےلیے ایک مسئلہ بنا دیا ہے۔اردن کے شاہ عبداللہ دوم کے ساتھ فون کال پر وضاحت کرتے ہوئے، ٹرمپ نے غزہ کو “ایک حقیقی گندگی” قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے شاہ عبداللہ پر زور دیا کہ وہ مزید فلسطینیوں کو لے جائیں۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ نیا انتظام بےگھر ہونے والوں کے لیے عارضی یا طویل مدتی ہو سکتا ہے، اور دعویٰ کیا کہ اس سے وہ ’’تبدیلی کے بعد امن کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ” مصر اوراردن غزہ کے لوگوں کو لے”۔( تاہم مصر اور اردن دونوں نے غزہ سے فلسطینیوں کی نقل مکانی کی تجویز کو مسترد کر دیا(یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے) ٹرمپ غزہ کو وطن کے طور پر نہیں بلکہ رئیل اسٹیٹ کے طور پر مسئلے کو حل کرنے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اسے ایک “غیر معمولی مقام” کہا، لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے “بڑے پیمانے پر مسمار کرنے والی جگہ” سے بھی تشبیہ دی۔ ان کے الفاظ ان کے داماد جیرڈ کشنر کے الفاظ کی بازگشت ہیں، جنہوں نے گزشتہ سال غزہ کی “قیمتی” واٹر فرنٹ پراپرٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھاکہ فلسطینیوں سے خالی کروانے کے بعد یہ دوبارہ ترقی کے لیے اہم زمین ہے۔غزہ میں، ٹرمپ کی تجویز کو دیوانے کی بڑ سمجھا گیا اور گہری تشویش کے ساتھ دیکھا گیا۔ کچھ لوگوں نے اسے یکسر مسترد کر دیا،اور ان کے الفاظ کو سنجیدگی سے نہیں لیا، خاص طور پر جب اسرائیلی فوج نے ساحلی علاقے کے بیشتر علاقوں سے انخلا کیا، اور رہائشیوں کو شمالی غزہ میں اپنے تباہ شدہ محلوں میں واپس جانے کی اجازت دی۔ غزہ میں عام جذبات یہ تھے کہ اگر وہ بمباری کے دوران وہاں سے نہیں نکلے جب گھر چھوڑنے کا دباؤ اپنے عروج پر تھاتو قتل و غارت گری کے تھمنے کے بعد اب وہ وہاں سے کیوں نکلیں گے؟ تاہم کچھ نے ان کے اس بیان کو ایک انتباہ کے طور پر دیکھا کہ غزہ کی تعمیر نو کو جان بوجھ کر روکا جا سکتا ہے،جس کی وجہ سے یہ علاقہ ناقابل رہائش رہے گا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبورکیا جاسکےگا۔ اس طرح براہ راست فوجی کارروائی کے بغیر بھی ایک دوسری طرز کی جنگ کو جاری رکھاجاسکتا ہے ۔ محرومیوں ،خوراک، ادویات، پانی اور ایندھن پر سخت پابندیوں نے روزمرہ کی زندگی کو بقا کی جنگ بنا دیا ہے۔ ہسپتال کام کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، خاندان صاف پانی کے لیے لامتناہی لائنوں میں انتظارکر رہے ہیں، اور بجلی کی بار بار کٹوتی پورے محلے کو تاریکی میں ڈبو دیتی ہے۔ اگر یہ حالات برقرار رہے تو غزہ میں رہنا ایک ناقابل برداشت انتخاب بن سکتا ہے۔ والدین کےلئے اپنے بچوں کو بھوک اور بیماری کا شکار ہوتے دیکھنا یا اپنے وطن کو پیچھے چھوڑنے جیسے عبرتناک فیصلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انسانی امداد جو پہلے سے ہی بقا کے لیے ایک لائف لائن ہے، کو ہتھیار بنایا جا سکتا ہے، ان طریقوں سے مشروط کیا جا سکتا ہے جو ضرورت کی آڑ میں نقل مکانی پر زور دیں۔ یہ سب کچھ جو وہ بم کے ذریعےحاصل کرنے میں ناکام رہے، مایوسی پھیلا کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔اگرچہ مصر اور اردن نے اب تک ایسی تجاویز کی مزاحمت کی ہے لیکن سفارتی کوششیں ان پر فلسطینی پناہ گزینوں کو بین الاقوامی امن تصفیہ کے حصے کے طور پر قبول کرنے کے لیے دبائوکا باعث بن سکتی ہیں۔
11 اکتوبر 2023 کو جب امریکی اہلکار جان کربی نے غزہ کے باشندوں کو فرار ہونے کے لیے ’’محفوظ راستے‘‘ کی بات کی، تو کمرے میں بیٹھے میرے والد نے بیزاری سے ریڈیو بند کر دیا۔ ان کا چہرہ تاریک ہو گیا، اور انہوں نے جان کربی کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے ہاتھ لہرایا اورمضبوطی سے کہا کہ “ہم یہ جگہ نہیں چھوڑیں گے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: جا سکتا ہے کے طور پر کی تجویز انہوں نے کے الفاظ کے ساتھ کے لیے غزہ کے پیش کی کے بعد
پڑھیں:
پولیس پر میرا کوئی کنٹرول نہیں ہے، عمر عبداللہ کا اعتراف
ذرائع کے مطابق انہوں نے یہ بات گزشتہ روز سرینگر میں احتجاج کرنے والے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے کارکنوں پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہی۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں حال ہی میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنی بے بسی اور بے اختیاری کا کھلے عام اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق انہوں نے یہ بات گزشتہ روز سرینگر میں احتجاج کرنے والے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے کارکنوں پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہی۔ جیسے ہی مقبوضہ جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو اراکین نے یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے احتجاج کو اجاگر کیا جو اجرتوں کے اجراء اور ملازمتوں کو باقاعدہ بنانے کا مطالبہ کر رہے تھے اور پولیس نے ان کو منتشر کرنے کے لئے ان پر لاٹھی چارج کیا تھا۔ اس پر عمر عبداللہ نے کہا کہ لاٹھی چارج نہیں ہونا چاہیے تھا اور اعتراف کیا کہ وہ پولیس پر کنٹرول نہیں رکھتے۔ انہوں نے اسمبلی میں اس معاملے کو اٹھانے والے ایک رکن کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ جہاں تک مظاہرین کے ساتھ پولیس کے سلوک کا تعلق ہے، میں یہ یاد دلانا چاہوں گا کہ بدقسمتی سے نہ آپ کا اور نہ ہی میرا پولیس پر کنٹرول ہے۔