وزیراعظم کی ازبکستان کیساتھ کیے گئے فیصلوں پر فوری عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف سے ازبکستان کے سفیر جناب علیشیر تختائیف کی وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات ہوئی۔
ملاقات میں وزیر اعظم نے ازبک سفیر کے ذریعے صدر عزت مآب شوکت مرزیوئیف کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور گزشتہ ماہ تاشقند کے دورے کے دوران ان کے اور پاکستانی وفد کی مہمان نوازی کے لیے تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔
وزیراعظم نے اپنے دورے کے دوران دونوں ممالک کے مابین دوطرفہ تعلقات پر ہونے والی شاندار پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا، جس میں ایک اعلیٰ سطحی اسٹریٹجک تعاون کونسل کی تشکیل کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں میں متعدد اہم معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط بھی شامل ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ تاشقند سے واپسی پر متعلقہ شعبوں کے وزراء کو ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ دورے کے دوران ہوئے فیصلوں پر فوری عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔
انہوں نے خاص طور پر کان کنی اور معدنیات، ریلوے (بشمول ٹرانس افغان ریلوے پروجیکٹ)، SEZs، بینکنگ، سیاحت، ثقافت اور قابل تجدید توانائی میں ازبکستان کے ساتھ تعاون بڑھانے میں پاکستان کی دلچسپی پر روشنی ڈالی۔
وزیراعظم نے دوطرفہ تجارت کو 2 بلین ڈالر تک بڑھانے کے لیے کام کرنے کے لیے ایک روڈ میپ وضع کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا، جس پر دورے کے دوران دونوں رہنماؤں کے مابین اتفاق کیا گیا تھا۔
ازبک سفیر نے وزیر اعظم کی نیک خواہشات پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ صدر شوکت مرزیوئیف پاکستان کے ساتھ ازبکستان کے تعلقات کو مضبوط بنانے اور دونوں ممالک کے درمیان بہترین سیاسی تعلقات کو باہمی طور پر مفید اقتصادی تعلقات میں تبدیل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ صدر مرزیوئف نے رواں برس کے آخر میں پاکستان کا سرکاری دورہ کرنے کی وزیر اعظم کی دعوت قبول کر لی ہے، جس کے لیے دونوں فریقین کے درمیان تاریخیں پر اتفاق کیا جار ہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دورے کے دوران کے لیے
پڑھیں:
پاک آذربائیجان باہمی تعلقات
جدہ میں منعقدہ او آئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس کے موقعے پر نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے آذربائیجان کے وزیر خارجہ سے ملاقات کی اور اس موقعے پر اس عزم کو دہرایا کہ دونوں ممالک دو طرفہ تعاون میں اضافہ کریں گے۔
اس سے قبل گزشتہ سال 11 جولائی کو آذربائیجان کے صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر تعاون کے کئی سمجھوتوں پر دستخط ہوئے تھے۔ 1991 میں آذربائیجان کے آزادی کے حصول کے چند سال بعد 1995 کے موسم خزاں میں دونوں ممالک نے تجارت اور معیشت کی سطح پر تعاون کے لیے مشترکہ کمیشن کے قیام سے متعلق ایک پروٹوکول پر دستخط کیے تھے اور یہ طے پایا تھا کہ کمیشن کی میٹنگیں ہر دو سال بعد ہوا کریں گی۔ حالانکہ ایسے اجلاس کم از کم سال میں دو مرتبہ ہونے چاہئیں۔
آذربائیجان تیل اور گیس کے حوالے سے وسطی ایشیا کا انتہائی اہم ترین ملک ہے۔ اس کے علاوہ سونا، چاندی اور دیگر قیمتی معدنیات بھی پائی جاتی ہیں۔
ماہ فروری میں وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ آذربائیجان کے موقع پر آذربائیجان کی طرف سے 2ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر اتفاق کیا گیا۔ اس کے علاوہ یہ طے پایا کہ ایل این جی، پٹرولیم، دفاعی تعاون سمیت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے حوالے سے تمام معاملات کو ایک ماہ کے اندر حتمی شکل دی جائے گی۔ پاکستان کے وزیر خارجہ اور آذربائیجان کے وزیر خارجہ کی ملاقات اسی سلسلے کی کڑی معلوم دے رہی ہے۔ ایک ماہ کے عرصے میں سے نصف سے زائد وقت گزر چکا ہے۔
دنیا جیو پولیٹیکل سے نکل کر تیز رفتاری کے ساتھ ’’جیو اکنامک‘‘ پالیسی کی جانب گامزن ہو چکی ہے۔ پاکستان نے ایک اہم مسئلے پر یعنی آرمینیا کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے، نگورنو کاراباخ کے مسئلے پر پاکستان نے ہمیشہ آذربائیجان کا ساتھ دیا ہے اور آذربائیجان نے بھی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔
آذربائیجان پاکستان کے ساتھ اپنے تجارتی اور باہمی تعلقات کو مزید بڑھانے کا خواہاں ہے۔ پاکستان آذربائیجان کو فوجی ساز و سامان اور لڑاکا طیاروں کی فروخت کے لیے بات چیت کر رہا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں اضافے، نقل و حمل، توانائی کے شعبوں اور سیاحت کے شعبوں میں بھی مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے۔
1995 میں دونوں ملکوں نے مشترکہ کمیشن قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا لیکن اس پر زیادہ توجہ نہ دی جا سکی۔ ملک کو معاشی جنجال سے نکالنے کے لیے وزیر اعظم نے کوششوں کا آغاز کیا ہے اور اس سلسلے میں وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی اور دیگر اہم معاملات توانائی کے شعبوں اور گوادر تک رسائی سمیت بہت سے امور کو لے کر چلنا ہے۔
کئی ممالک ایسے ہیں جوکہ 20 اہم تجارتی شراکت داروں کی فہرست میں شامل ہیں البتہ آذربائیجان کے لیے پاکستانی برآمدات محض ایک سے ڈیڑھ کروڑ ڈالر تک ہی محدود رہے۔ اب اسے کس طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے۔پاکستان آذربائیجان کو چاول، فروٹ، میڈیکل اور فارما سیوٹیکل پراڈکٹس کاٹن فیبرک اور سینتھیٹک فیبرکس کے علاوہ خام کپاس،کچھ کیمیکلز وغیرہ بھی برآمد کرتا ہے۔ آذربائیجان میں اس بات کی گنجائش ہے کہ بڑی مقدار میں پاکستان سے کپڑے، گارمنٹس اور لیدر سے بنی اشیا جس میں لیدر جیکٹس، دستانے، کچھ تعمیراتی سامان فرنیچرز اورکئی اشیا ایکسپورٹ کر سکتا ہے۔
کچھ کیمیکل پراڈکٹس ایسے ہیں جو پاکستان فروخت کر سکتا ہے اس ملک کو ٹرانسپورٹ ایکوئپمنٹ، پلاسٹک کی اشیا، کھاد اس طرح کی کئی اشیا کی ضرورت ہے جو پاکستان تھوڑی سی مارکیٹنگ کر کے وہاں کے تاجروں سے تعلقات بڑھا کر ان کو سہولیات فراہم کرکے اپنی ایکسپورٹ کے حجم کو فوری طور کم ازکم ایک ارب ڈالر تک لے جاسکتا ہے۔ باکو میں سفارتخانہ ہے اسے فعال کریں، دونوں ممالک میں ایسے تاجر کو تجارتی اتاشی مقررکریں جو بزنس کو سمجھتا ہو اور دونوں ممالک کے ایکسپورٹرز اور امپورٹرز کے درمیان پل کا کام کر سکتا ہو تاکہ پاکستانی برآمدات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو۔