سزائے موت کے 2 قیدی 17 سال بعد بری
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سزائے موت کے 2 قیدیوں کو عدم شواہد کی بنا پر 17 سال بعد بری کردیا۔
ٹرائل کورٹ نے ملزمان امتیاز اور نعیم کو 2008 میں بچے انعام کو چارسدہ میں اغوا برائے تاوان کے بعد قتل کرنے کے الزام میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔
بعد ازاں پشاور ہائیکورٹ نے ملزمان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا تھا۔
ملزمان نے7 سال بعد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل داخل کی تھی، سپریم کورٹ نے ملزمان کی 7 سال زائد المدت اپیل سماعت کے لیے منظور کی۔
جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس اشتیاق ابراہیم نے مقدمے کی سماعت کی۔
عدالت نے کہا کہ سزائے موت یا عمرقید کے معاملے میں شواہد کی تصدیق اور قانونی حیثیت انتہائی اہم ہے۔
عدالت نے کہا کہ اقبال جرم بعد میں واپس لے لیا جائے اوریہی واحد ثبوت ہو تو قانونی طور پر اس پر بھروسہ کرنا مشکل ہوتا ہے، کسی کو واپس لیے گئے اعترافِ جرم کی بنیاد پر سزا دینا اور وہ بھی سزائے موت انتہائی نازک اور مشکوک عمل ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سزائے موت
پڑھیں:
کیا منی بل کے ذریعے سروسز ٹیکس کا نفاذ کیا جا سکتا ہے؟ سپریم کورٹ
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں سپر لیوی ٹیکس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا منی بل کے ذریعے سروسز پر ٹیکس کا نفاذ کیا جا سکتا ہے؟ سپر ٹیکس میں کتنی رقم اکٹھی ہوئی؟۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
وکیل کمپنیز مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ سپر لیوی ٹیکس حکومت نے 2015 میں لاگو کیا جس کا مقصد آپریشن ضرب عضب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی قرار دیا گیا لیکن حکومت نے منی بل 2015 میں ایک مرتبہ پھر سپر ٹیکس کا نفاذ کیا اور 2015 سے 2022 تک سپر ٹیکس کا نفاذ جاری رہا۔
وکیل مخدوم علی نے کہا کہ ابتدائی حکومتی تخمینہ 80 ارب اکٹھے کرنے کا تھا، نہیں معلوم حکومت نے سپر لیوی ٹیکس کی مد میں کتنی رقم اکٹھی کی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوالات اٹھائے کہ آپریشن سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے حکومتی پلان کیا تھا؟ کیا متاثرہ علاقوں کی آباد کاری کا کوئی پی سی ون تیار ہوا؟ کیا متاثرہ علاقوں کی بحالی کا کوئی تخمینہ لگایا گیا؟ کیا منی بل کے ذریعے سروسز پر ٹیکس کا نفاذ کیا جا سکتا ہے؟۔
وکیل کمپنیز نے کہا کہ حکومت آمدن پر پہلے ہی انکم ٹیکس لے چکی تھی، ڈبل ٹیکسیشن سے بچنے کے لیے سپر ٹیکس کا نام دیا گیا، سوشل ویلفیئر کا سبجیکٹ صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے اور یہ سپر ٹیکس نہیں بلکہ ٹیکس ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا سپر لیوی ٹیکس کا نفاذ ایک سال کے لیے تھا؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ ایک سال کے لیے سپر ٹیکس لگایا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کوئی حساب ہے کہ سپر ٹیکس میں کتنی رقم اکٹھی ہوئی؟
مخدوم علی خان نے بتایا کہ وزیر خزانہ کی کسی تقریر میں سپر ٹیکس کے ریکوری اور خرچ کا نہیں بتایا گیا، حکومت سے پوچھا جائے سپر ٹیکس کی مد میں کتنا ٹیکس اکٹھا ہوا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ داستان بڑی لمبی ہو جائے گی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپر ٹیکس ایک مرتبہ کے لیے لگایا گیا تھا، سپر ٹیکس کسی خاص مقصد کے لیے لگایا گیا تھا لیکن ایک مرتبہ سپر ٹیکس لاگو کرنے کے بعد کیا قیامت تک چلے گا۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ آپریشن سے متاثرہ علاقوں کی بحالی لوکل و صوبائی مسئلہ ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ اعتراض ہے کہ قومی مجموعی فنڈز سے رقم صوبوں کی رضامندی بغیر کیسے خرچ ہو سکتی ہے۔
وکیل ایف بی آر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ مسلسل عمل ہے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کیا دہشت گردی 2020 میں ختم ہوگئی، حکومت نے 2020 میں سپر ٹیکس وصولی ختم کر دی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سپر ٹیکس آپریشن کے متاثرین کی بحالی کے لیے تھا، حقیقت یہ ہے دہشت گردی کا ہر روز سامنا کرنا پڑتا ہے۔
وکیل ایف بی آر نے کہا کہ متاثرین دہشت گردی کے خاتمے کے نتیجے میں بے گھر ہوئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ آپریشن کے دوران مجموعی طور پر کتنے لوگ بے گھر ہوئے اور بے گھر لوگ کن علاقوں سے ہوئے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔