UrduPoint:
2025-03-12@18:34:06 GMT

جعفر ایکسپریس پر حملے میں ملوث بلوچ لبریشن آرمی کیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT

جعفر ایکسپریس پر حملے میں ملوث بلوچ لبریشن آرمی کیا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مارچ 2025ء) سکیورٹی حکام کا کہنا ہےکہ اب تک ڈیڑھ سو سے زائد مسافروں کو بازیاب کرایا جا چکا ہے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

یرغمالی مسافروں کو بچانے کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟

کوئٹہ میں تعینات ایک سینئر سکیورٹی اہلکار تیمور حبیب نے انکشاف کیا ہے کہ اس حملے میں ملوث بعض عسکریت پسند براہ راست افغانستان میں اپنے ہینڈلرز کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں، جس کے ٹھوس شواہد حاصل کیےگئے ہیں۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''یرغمالی مسافروں کی بازیابی کے لیے موثر کارروائی کی جارہی ہے۔ اس ریسکیو آپریشن میں فورسز کو فضائی معاونت بھی حاصل ہے۔ یرغمالیوں کی بحفاظت بازیابی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

‘‘

تیمور حبیب کا کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں اب تک کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے 20 سے زائد عسکریت پسند ہلاک ہو چکے ہیں۔

رہائی پانے والے یرغمالی مسافر کا آنکھوں دیکھا حال

جعفر ایکسپریس میں یرغمال بنائے گئے مسافروں میں سے بعض رہا ہونے کے بعد کوئٹہ اور مچھ پہنچ رہے ہیں۔ سکھر سے تعلق رکھنے والے 65 سالہ صغیر احمد بھی ان مسافروں میں شامل ہیں، جو رہائی کے بعد کئی گھنٹوں کا پیدل سفر طے کرنے کے بعد مچھ ریلوے اسٹیشن پہنچے تھے۔

مچھ سے کوئٹہ پہنچنے کے بعد ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ہم سے پہلےشناختی دستاویزات طلب کی گئیں اور چیکنگ کے بعد ٹرین باہر جانے کا کہا گیا۔

میں نے سوچا شاید ہمیں مارنے کے لیے باہر لے جایا جا رہا ہے لیکن کچھ دیر بعد ہمیں رہا کردیا گیا ۔ ہم تقریبا 4 گھنٹے پیدل سفر کرکے قریبی ریلوے اسٹیشن پہنچے۔‘‘

جعفر ایکسپریس پر حملہ اور حکومتی موقف

وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ مسافر ٹرین پر حملے میں ملوث عناصر معصوم شہریوں کی جانوں سے کھیل کر بلوچستان کے امن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

کوئٹہ میں جاری کیے گئے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ڈھاڈر میں ٹرین پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کے عزائم ناکام بنانے کے لیے ریاستی ادارے ہر حد تک جائیں گے ۔ ان کے بقول، ''بلوچستان کو منظم منصوبے کے تحت غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بلوچستان کے عوام نے امن دشمن قوتوں کو یکسر مسترد کیا ہے۔‘‘

'گوریلا جنگ پہاڑوں سے شہروں میں داخل ہوچکی ہے‘

بلوچستان کے شورش زدہ ضلع بولان میں حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے کئی دیگر بڑے واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں۔

چند روز قبل ضلع سبی سے واپسی پر رکن بلوچستان اسمبلی لیاقت لہڑی کو بھی عسکریت پسندوں نے روک کر ان کے محافظوں کا اسلحہ چھین لیا تھا۔

اسلام آباد میں مقیم سکیورٹی امور کے تجزیہ کار عبداللہ خان کہتے ہیں کہ بلوچستان میں گوریلا جنگ اب پہاڑوں سے شہروں میں داخل ہوچکی ہے، جس سے نمٹنے کے لیے حکومت کو ملکی داخلی سکیورٹی پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، ''بلوچستان میں جاری شورش کے اثرات پورے ملک پر پڑ رہے ہیں ۔ بد امنی میں ملوث تنظیموں کی مقامی آبادی میں جڑیں دن بدن مضبوط ہو رہی ہیں۔‘‘

ادھر دوسری جانب حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈھاڈر میں مسافر ٹرین میں حملے کے دوران 20 سے زائد سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔

اس کالعدم تنظیم نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ریاستی اداروں کے زیر حراست بلوچ مزاحمت کاروں اور سیاسی کارکنوں کو رہا نہ کیا گیا تو جعفر ایکسپریس کو بھی مکمل طور پر تباہ کردیا جائے گا۔

بلوچ لبریشن آرمی کیا ہے اور کیا چاہتی ہے؟

بلوچ لبریشن آرمی یا بی ایل اے، جسے پاکستان اور امریکہ دونوں نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے، اندازوں کے مطابق تقریباﹰ 3 سے پانچ ہزار ارکان پر مشتمل ایک تنظیم ہے۔

بی ایل اے بلوچستان میں سرگرم درجنوں دیگر علحیدگی پسند عسکری تنظیموں میں سب سے منظم اور مضبوط سمجھی جاتی ہے۔ یہ ایک طویل عرصے سے افغانستان اور ایران کی سرحد سے متصل بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں سرگرم ہے۔

معدنیات کی دولت سے مالا مال یہ خطہ گوادر کے گہرے پانی کی بندرگاہ اور دیگر ترقیاتی منصوبوں میں بیجنگ کی سرمایہ کاری کا مرکز بھی ہے۔

یہاں علیحدگی پسند گروہوں کی جانب سے ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونا، کوئی نئی بات نہیں تاہم بی ایل کے عسکریت پسندوں نے گزشتہ چند مہینوں میں اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ اس کی وجہ بہت واضح ہے: ملکی حکومت کو دباؤ میں رکھنا۔ لیکن آخر بلوچ لبریشن آرمی کے بنیادی مقاصد کیا ہیں؟

بی ایل اے ریاست سے چاہتی کیا ہے؟

اگر آسان الفاظ میں بات کی جائے تو یہ 'آزاد بلوچستان‘ چاہتی ہے۔

یعنی بلوچستان کو پاکستان سے الگ ایک آزاد اور خود مختار ریاست بنا دیا جائے۔ پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔

یہ شمال میں افغانستان اور مغرب میں ایران کی سرحد سے متصل ہے۔ لیکن یہ صوبہ صرف جغرافیائی اہمیت کا ہی حامل نہیں بلکہ قدرت نے اس خطے کو قدرتی وسائل سے بھی دل کھول کر نوازا ہے۔

تاہم حکومت کا موقف ہمیشہ ہی کچھ مختلف رہا ہے۔

صوبے کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی کی جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''جو لوگ حقوق کے نام پر اپنا ایجنڈا عوام پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، وہ اس مٹی کے کبھی خیرخواہ نہیں ہوسکتے۔‘‘

بی ایل اے کا ماننا ہے کہ حکومت صوبے کے قدرتی وسائل کا غیر منصفانہ استعمال کر رہی ہے اور یہ بھی کہ اس سے صوبے اور خصوصا بلوچ عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔

بی ایل اے کے مطابق ان کی لڑائی بلوچستان کے عوام کو ان کے حقوق دلانے کی ہے۔

بی ایل اے آخر اتنی مضبوط کیسے ہوئی؟

حال ہی میں بولان کے اسی علاقے کے آس پاس جہاں یہ ٹرین حملہ کیا گیا، ان علحیدگی پسند عناصر کی کچھ ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کرتی نظر آئیں، جس میں وہ سڑک پر ناکہ بندی کرتے ہوئے دکھائی دیے۔ یاد رہے کہ یہ خطہ اتنا بھی پہاڑوں میں اوجھل نہیں کہ ملک کی سکیورٹی ایجنسیوں کی نظروں سے مکمل طور پر اوجھل ہو جائے۔

تو سوال یہ ہے کہ دن دھاڑے بلوچ علحیدگی پسند پاکستان کی سڑکوں پر ناکہ بندی کریں اور ریاست بے بس ہو؟ ایسا کیسے ممکن ہے؟

کہا جاتا ہے کہ اس تنظیم کا آغاز تو بلوچستان کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے وقت ہی ہوگیا تھا اور 2006 میں اس تنظیم کو کالعدم بھی قرار دے دیا گیا تھا۔ اس دوران بلوچستان میں کئی بڑے واقعات سمیت نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت بھی شامل ہے، جسے بلوچستان میں علحیدگی پسندوں کی کارروائیوں کی اس نئی اور شدید لہر کا ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے۔

پاکستان میں ملکی سلامتی کے اداروں کو البتہ سب سے بڑا دھچکا 2022 میں اس وقت لگا، جب بی ایل اے نے بری فوج اور بحریہ کے اڈوں پر حملہ کیا۔ صرف یہ ہی نہیں اس گروہ نے بلوچ ثقافت کے برعکس خواتین حملہ آوروں کو بھی متعدد جان لیوا حملوں میں شامل کیا۔ اس گروہ کی جانب سے کراچی یونیورسٹی میں چینی شہریوں پر اور بلوچستان میں سکیورٹی ادارو پر چند حملے اس گروہ سے تعلق رکھنے والی خواتین نے کیے۔

بی ایل اے کے اہداف کیا ہیں؟

بی ایل اے اکثر بلوچستان میں بنیادی شہری ڈھانچے اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتی ہے۔ لیکن حالیہ سالوں میں اس گروہ کی جانب سے پاکستان کے دیگر شہروں میں حملے کیے گئے، جیسے کہ کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملہ، اور پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ بلوچستان میں بسنے والے پنجابی آبادی بھی ان کے نشانے پر رہی ہے۔

یہ گروہ پاکستان میں چین کی جانب سے شروع کیے گئے میگا پراجیکٹ، چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کے بھی خلاف ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ اس پراجیکٹ کے ذریعے معدنی کے معدنی وسائل کا استحصال کیا جا رہا ہے اور بلوچستان کے لوگ خاص کر نوجوان اپنے حقوق سے محروم ہیں۔

بلوچستان اتنا اہم کیوں؟

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں بیجنگ کی 65 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری میں بلوچستان کا اہم حصہ ہے۔

سی پیک کے تحت شروع کیے گئے چند میگا پراجیکٹس بھی اسی پسماندہ صوبے میں ہیں، جن کی ایک بڑی مثال ریکوڈیک بھی ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دنیا بھر میں سونے اور تانبے کی سب سے بڑی کانوں میں سے ایک ہے۔

صرف یہ ہی نہیں بلوچستان میں بحیرہ عرب کی ایک طویل ساحلی پٹی بھی ہے۔

صوبے میں لاپتہ افراد کا مسئلہ بھی دہائیوں سے چل رہا ہے۔

اس بابت کئی عوامی تحریکیں بھی شروع ہوئیں اور اب یہ تازہ حملہ اس بات کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ انتھک حکومتی کوششوں کے باوجود علحیدگی پسندی کی یہ لہر اب عوامی سطح پر سرایت کرتی نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے عبداللہ خان کہتے ہیں، ''عوامی سہولت کاری کے بغیر کالعدم تنظیمیں اپنےمقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں، اس لیے عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان پیدا ہونے والے خلیج کو کم کیا جائے۔‘‘

ر ب⁄ ش ر (روئٹرز)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بلوچ لبریشن ا رمی جعفر ایکسپریس علحیدگی پسند کالعدم تنظیم بلوچستان میں عسکریت پسند بلوچستان کے کی جانب سے کرتے ہوئے بی ایل اے میں ملوث اس گروہ رہے ہیں کا کہنا کیے گئے پر حملہ رہا ہے کے بعد کیا جا کے لیے رہی ہے کیا ہے

پڑھیں:

 وزیر اعظم کاوزیراعلیٰ بلوچستان کو ٹیلی فون،جعفر ایکسپریس حملےکے حوالے سے صورتحال معلوم کی

اسلام آباد: وزیر اعظم محمدشہبازشریف نے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی سے ٹیلی فون پر رابطہ کرکےجعفر ایکسپریس پر گھناؤنے دہشت گرد حملے کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہی حاصل کی۔  وزیر اعظم محمدشہبازشریف نے سماجی میڈیا پر جعفر ایکسپریس کے حوالے سے پیغام کہاکہ  میری وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی سے ٹیلی فون پر بات ہوئی جنہوں نے مجھے جعفر ایکسپریس پر ہونے والے گھناؤنے دہشت گرد حملے کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا۔ پوری قوم اس گھناؤنے فعل سے شدید صدمے میں ہے اور معصوم جانوں کے ضیاع پر غمزدہ ہے۔انہوں نے کہاکہ ایسی بزدلانہ کارروائیاں پاکستان کے امن کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتیں۔ میں شہداء کے اہل خانہ سے دلی تعزیت کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور زخمیوں کو جلد صحت یاب فرمائے۔انہوں نے کہاکہ آپریشن کے دوران درجنوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا ہے۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • سلمان اکرم راجا کا جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد حکومت اور تمام پارٹیوں کو ساتھ بیٹھنے کا مشورہ
  • جعفر ایکسپریس حملے پر پوری قوم صدمے میں ہے، وزیراعظم کا وزیراعلی بلوچستان سے رابطہ
  • وزیراعظم کا وزیراعلیٰ بلوچستان رابطہ، ٹرین حملے کی صورت حال سے آگاہ
  •  وزیر اعظم کاوزیراعلیٰ بلوچستان کو ٹیلی فون،جعفر ایکسپریس حملےکے حوالے سے صورتحال معلوم کی
  • دہشت گردی بزدلانہ فعل ہے، جعفر ایکسپریس حملے کی مذمت کرتے ہیں، حنیف عباسی
  • جعفر ایکسپریس واقعے میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے: سرفراز بگٹی
  • بلوچ قوم نہتے مسافروں، بزرگوں، بچوں پر حملے اور یرغمال بنانے والوں کو مسترد کرتی ہے: صدر مملکت
  • وزیراعلیٰ بلوچستان کا ریاستی رٹ چیلنج کرنے والوں کو نیست و نابود کرنے کا عزم
  • جعفر ایکسپریس پر حملے کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کرلی، بیان جاری