غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق روس نے یوکرین کی جانب سے 30 روز جنگ بندی اور پائیدار امن کے لیے امریکی تجویز تسلیم کرنے کے معاملے پر اپنا ردعمل ظاہر کر دیا۔ اسلام ٹائمز۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا ہے کہ یوکرین کے بارے میں فیصلے امریکا نہیں ماسکو کرے گا۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریا ذاخارووا کا کہنا ہے کہ روس اور یوکرین کے تنازع کے حوالے سے فیصلے روس خود کرے گا۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق روس نے یوکرین کی جانب سے 30 روز جنگ بندی اور پائیدار امن کے لیے امریکی تجویز تسلیم کرنے کے معاملے پر اپنا ردعمل ظاہر کر دیا۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا ذاکارووا نے کہا کہ روس اور یوکرین کے تنازع کے حوالے سے فیصلے روس خود کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ روسی فیڈریشن کی پوزیشن کچھ فریقین، معاہدوں اور کوششوں کی وجہ سے فیڈریشن سے باہر نہیں بلکہ اندر طے ہوتی ہے۔

اس سے قبل سعودی عرب کی میزبانی میں امریکا اور یوکرین کے مذاکرات ہوئے جس میں یوکرین نے امریکہ کی 30 دن کی عارضی جنگ بندی کی تجویز قبول کر لی۔ مشترکہ اعلامیے کے مطابق امریکا یوکرین کو انٹیلی جنس شیئرنگ پر پابندی ختم کرے گا اور امریکا یوکرین کو سیکیورٹی معاونت بھی دوبارہ فراہم کرے گا۔ امریکہ اور یوکرین نے مذاکراتی ٹیموں کا تعین اور پائیدار امن کے لیے فوری طور پر مذاکرات شروع کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ امریکا نے تجاویز پر روس سے بات چیت کا عہد کیا اور یوکرین یورپی پارٹنرز کو امن عمل میں شامل کرے گا۔ امریکا اور یوکرین نے معدنی ذخائر کا معاہدہ بھی جلد کرنے پر اتفاق کیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اور یوکرین کے کے مطابق کرے گا

پڑھیں:

یوکرین اب اسلحہ درآمد کرنے والے ملکوں میں سرفہرست

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 مارچ 2025ء) اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) نے پیر کے روز اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق تین سال سے کچھ زیادہ عرصے قبل روس کی جانب سے یوکرین کے خلاف شروع کی گئی جنگ کے بعد اب کییف دنیا کا اسلحے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ بن گیا ہے۔

بھارت کے پاس پاکستان سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں

سپری کے مطابق اگرگزشتہ دو پانچ سالہ مدت کا موازنہ کیا جائے تو یوکرین کے ہتھیاروں کے درآمدات میں تقریباﹰ ایک سو گنا اضافہ ہوا ہے۔

چونکہ ہتھیاروں کے درآمدات کے حجم میں اتار چڑھاؤ ہوسکتا ہے اس لیے محققین اس کے مالی قدر کے بجائے اس کی حجم کو بنیاد بناتے ہیں۔ محققین اپنی رپورٹ میں پانچ سالہ مدت کا موازنہ کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

یوکرین کے معاملے میں یہ موازنہ سن دو ہزار پندرہ۔انیس اور سن دو ہزار بیس۔ چوبیس میں کیا گیا۔

یوکرین اب ٹینک، جنگی طیارے، آبدوزیں اور اسی طرح کے ہتھیاروں جیسے بھاری ہتھیاروں کے کل حجم کا 8.8 فیصد درآمد کرتا ہے۔

یوکرینی جنگ کے دوران جوہری ہتھیاروں میں اضافہ

پانچ سال کے جائزے کی بنیاد پر، ہتھیار درآمد کرنے والے ملکوں میں بھارت 8.3 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے، اس کے بعد قطر 6.8 فیصد، سعودی عرب 6.8 فیصد اور پاکستان 4.6 فیصد کا نمبر ہے۔

یوکرین کو اسلحے کی درآمدات میں کم از کم 35 ممالک کا تعاون

سپری کی رپورٹ کے مطابق یوکرین کے اسلحے کی درآمدات میں کم از کم 35 ممالک نے تعاون کیا ہے۔

جس میں امریکہ نے 45 فیصد ہتھیار برآمد کیے۔ اس کے بعد جرمنی 12 فیصد اور پولینڈ 11کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔

امریکی انتظامیہ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی روسی یوکرینی جنگ ختم کرنے کی مہم کے حصہ کے طور پر حال ہی میں یوکرین کو دی جانے والی فوجی امداد روک دی تھی۔

سپری کے محققین اس وقت امریکی خارجہ پالیسی میں غیر یقینی صورتحال دیکھ رہے ہیں۔

اس کی ایک اہم وجہ یورپی ممالک کی طرف سے دفاعی اخراجات میں اضافہ ہے۔

عالمی رجحان کے برعکس پچھلے دو پانچ سالہ ادوار میں یورپی ہتھیاروں کی درآمدات میں 155 فیصد اضافہ ہوا۔

امریکہ سب سے بڑا اسلحہ برآمد کنندہ

امریکہ اب بھی دنیا بھر میں ہتھیاروں کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے اور اس نے 2020 سے 2024 کے درمیان کل 107 ممالک کو اس کی ترسیل کی ہے۔

سپری کی رپورٹ تیار کرنے والوں میں سے ایک میتھیو جارج نے کہا کہ 43 فیصد کے ساتھ، "اسلحے کی برآمدات کے معاملے میں امریکہ ایک منفرد مقام پر ہے۔ اس کا ہتھیاروں کی عالمی برآمدات میں حصہ دوسرے سب سے بڑے برآمد کنندہ، فرانس سے چار گنا زیادہ ہے۔"

دوسری جانب روس نے 2015 اور 2024 کے درمیان 63 فیصد کم ہتھیار برآمد کیے اور 2021 اور 2022 میں کل حجم گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے کم تھا۔

لیکن اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ کیونکہ بظاہر یہ ملک پہلے ہی کسی اور جگہ ہتھیار فروخت کرنے کے بجائے جنگ کی تیاری میں خود کو مسلح کر رہا تھا۔

سپری آرمز ٹرانسفر پروگرام کے ایک سینیئر محقق پیٹر ویزمین نے کہا، "جنگ نے روس کے اسلحے کی برآمدات میں کمی کو مزید تیز کر دیا ہے کیونکہ میدان جنگ میں مزید ہتھیاروں کی ضرورت ہے، جب کہ تجارتی پابندیوں نے روس کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اپنے ہتھیاروں کی تیاری اور فروخت کو مشکل بنا دیا ہے۔"

ویزمین نے کہا کہ امریکہ اپنے اتحادی ممالک پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ روسی ہتھیار نہ خریدیں۔ اگر کوئی ملک اب بھی ہتھیار خرید رہا ہے تو وہ بنیادی طور پر چین اور بھارت ہے۔

ج ا ⁄ ص ز (ڈی پی اے، اے ایف پی)

متعلقہ مضامین

  • چین دلچسپی رکھتا ہو تو روس تین بڑی طاقتوں کے درمیان جوہری سلامتی پر اجلاس کروانے کو تیار ہے . روسی وزیرخارجہ
  •  دفتر خارجہ نے امریکہ میں پاکستانی سفیر کو روکنے کی تصدیق کر دی، تحقیقات کر رہے، ترجمان
  • یوکرین کا ماسکو پر آج تک کا سب سے بڑا ڈرون حملہ
  • نئی کینالز کو لیکر سندھ میں بہت خدشات ہیں، اس پر متفقہ فیصلے لینے چاہئیں: بلاول بھٹو
  • چین یوکرین بحران کے پرامن حل کے حوالے سے تمام کوششوں کی حمایت کرتا ہے، چینی وزارت خارجہ
  • دفتر خارجہ کا پاکستانی سفارتکار کو امریکہ سے واپس بھیجنے کے معاملے پر رد عمل سامنے آ گیا 
  • تائیوان چین کے ایک صوبے کے طور پر، آزاد حیثیت نہیں رکھتا، چینی وزارت خارجہ
  • یوکرین اب اسلحہ درآمد کرنے والے ملکوں میں سرفہرست
  • سعودی عرب میں یوکرین روس جنگ پر اہم مذاکرات، امریکہ کی شرائط کیا ہوں گی؟