دو قدم ساتھ چل کر چھوڑنے والا اپنا نقصان کریگا، قوم معاف نہیں کریگی، سلمان اکرم راجا WhatsAppFacebookTwitter 0 12 March, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(سب نیوز)پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجا نے کہا ہے کہ دو قدم ہمارے ساتھ چل کر چھوڑنے والا خود اپنا نقصان کرے گا، قوم انہیں معاف نہیں کرے گی۔
جوڈیشل کمپلیکس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان اکرم راجا نے کہا کہ کل جو واقعہ اڈیالہ کے باہر ہوا یہ عام بات ہے، وہاں کوئی دوست موجود تھا، اس نے اس کو ریکارڈ کیا اور بات کو بڑا کیا ۔ نعیم حیدر پنجوتھا ہمارے اہم رکن ہیں اور انہوں نے پی ٹی اے ورکرز اور ان کے کیسز کے حوالے سے کافی کام کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی میں کوئی اختلاف نہیں ہے، یہ چھوٹی موٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ ہمارا نظریہ ایک ہے، ہمارا لیڈر ایک ہے ، ہمارا مقصد ایک ہے، ہماری تحریک ایک ہے ۔ ہم سندھ میں جی ڈی اے کے پاس گئے، شاہد خاقان عباسی بھی ہمارے مقف کے ساتھ ہیں ۔
سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ کل جو بلوچستان میں واقعہ ہوا، اس کے بعد اب کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ہم سب مل کر اکٹھے نہ بیٹھیں ۔ چاہے ہم اپوزیشن میں ہوں، حکومت کے لوگ ہوں یا مقتدرہ کے، سب کو اکٹھے بیٹھنا ہے۔ اس وقت ہم نے لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنا ہے، لوگوں کے زخم بھرنے ہیں ۔ ہمیں سب سیاسی اختلافات بھلا کر اس ملک کو اس مشکل سے نکالنا ہے ۔ آپ دیکھیں گے اس میں پی ٹی آئی اپنا بہت مثبت کردار ادا کرے گی ۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ کل میری بانی سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہدایت دی ہے کہ ہم جے یو آئی سے بات چیت کو بڑھائیں ۔ ہم نے جمہوریت کے لیے، انسانی حقوق کے لیے ہاتھ بڑھایا ہے جو بھی ساتھ چلے گا ہم خوش آمدید کہیں گے ۔ جو کوئی سندھ، بلوچستان، پنجاب، جی بی اور دوسرے صوبوں کے حقوق کی بات کرے گا ہم ساتھ دیں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی ہمارے ساتھ چل کر آگے ہمیں چھوڑ دے گا ۔ اگر کوئی دو قدم چلنے کے بعد چھوڑ دے گا تو وہ اپنا نقصان کرے گا قوم اسے معاف نہیں کرے گی۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: سلمان اکرم راجا اپنا نقصان ساتھ چل کر معاف نہیں پی ٹی آئی ایک ہے

پڑھیں:

کوچۂ سخن

غزل
رات نے چرائی ہے ہاتھ کی گھڑی میری
بھید کچھ تو کھولے گی آنکھ کی جھڑی میری
ظلم کی زمینوں پر جبر کے زمانے میں
میں نے سچ اگایا ہے، ہے سزا کڑی میری
ہو گا جو بھی دیکھوں گا لے لیا قدم اب تو
آنکھ اک ستمگر سے دوست جا لڑی میری
اس نے جب نہیں مانا میں نے بھی لگا ڈالی
اب اثر دکھائے گی دیکھنا تڑی میری
جسم میرا انسانی روح ہے مروت کی
ہر گلی میں، ہر گھر میں لاش ہے پڑی میری
تھا خیال میرا ہی اس نے ناک ڈھانپی ہے 
یاد بھی پراگندہ تھی سڑی سڑی میری
سر پہ تھی مرے دستار اس کی تھی فضیلت بھی
ماں کے پاؤں میں جا کر آنکھ یہ گڑی میری
مسئلہ شرافت سے حل جو ہو نہیں پایا
فیصلہ کرے گی اب ہاتھ کی چھڑی میری
مانتا ہوں صورت میں مار کھا گیا ہوں میں
جرم سے نہیں ملتی پر کوئی کڑی میری
پیاز سے بھی بھاؤ میں کم ہوئی مری وقعت
چند ٹکّوں کے عوض اب تو ہے دھڑی میری
وہ رشید رہتا ہے تاک میں ہر اک لمحے
اس کو لطف دیتی ہے گویا ہڑبڑی میری
(رشید حسرتؔ۔ کوئٹہ)

۔۔۔
غزل
ناز نخروں سے جو پلی ہوئی ہے
اسی پاگل سے دل لگی ہوئی ہے
پاؤں زخمی ہوئے ہیں پانی میں
کیسی نادان زندگی ہوئی ہے 
آپ سے کوئی واسطہ نہیں تھا
آپ نے پھر بھی بات کی ہوئی ہے
شہر میں نام گونجتا ہے مرا
آپ سے جب سے دوستی ہوئی ہے 
پھول،اور سنگ و خشت ہیں یکجا
آئنے میں نظر کری ہوئی ہے 
رنگ تتلی کے ہوگئے مدھم 
چاند پر آنکھ جم گئی ہوئی ہے
میری چادر میں چھید تھے پھر بھی
آپ نے سر پہ وہ تنی ہوئی ہے
ہاتھ زخمی ہوئے تھے جس میں ندیمؔ
جنگ وہ پھر چھڑ گئی ہوئی ہے
(ندیم ملک۔ نارووال)

۔۔۔
غزل
توڑی گئی نہ ایک روایت، نہ مل سکے
ہم بھی خلافِ رسمِ محبت نہ مل سکے
اللہ کرے بیان نہ کر پاؤ دردِ دل
اللہ کرے تمہیں یہ سہولت نہ مل سکے
تیماردار آئے بوقتِ وداعِ جاں
بیمار کو پَہ سانس کی مہلت نہ مل سکے
مقبول ہو نہ پائے دعا اُس کی ایک بھی
اک  ہجرزاد کو شبِ وصلت نہ مل سکے
رختِ سفر کو باندھ کے آمادہ ہو کوئی
لیکن روانگی کی اجازت نہ مل سکے
ہم سے ضرورتوں کی نہ تخصیص ہو سکی
ہم تو کسی سے حسبِ ضرورت نہ مل سکے
وہ شخص بھی ملا نہ ہمیں اس طرح حیاؔ
جیسے کسی کو کام کی اجرت نہ مل سکے
(ماہم حیا صفدر۔فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
یہ افسردہ مناظر دیکھ کر بھی
کوئی خوش ہے مرا گھر دیکھ کر بھی 
تعجب ہے، نہ ٹوٹا آئینہ کیوں
تجھے اپنے برابر دیکھ کر بھی 
ہوں بے یاور مگر پُر حوصلہ ہوں
تمہارے ساتھ لشکر دیکھ کر بھی 
کوئی اپنی خطا پر مطمئن ہے
ترے ہاتھوں میں پتھر دیکھ کر بھی 
زمیں پر ناز سے روشن ہے جگنو 
ستارے آسماں پر دیکھ کر بھی 
نہیں ہو اوج کے معنی سے واقف 
سرِ نوکِ سناں سر دیکھ کر بھی 
(پروفیسر علمدار حیدر اوج۔ سادھوکی، گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل
کچھ مزہ تو جینے کا اِس ستم میں رکھا ہے
جور بھی ترا جاناں، اب کرم میں رکھا ہے
پیچ پیچ کھلتی یہ عشق راہ کہتی ہے
جا ترا مقدر بھی زلف خم میں رکھا ہے
اک انا کی چادر ہے جو اُتر نہیں پاتی
راستہ وگرنہ تو اک قدم میں رکھا ہے
ڈھونڈ لے انہیں آکر، ایک دن کوئی شائد
کر حنوط اشکوں کو، چشمِ نم میں رکھا ہے
پیار کرنے والوں کا ایک ہی تصور ہے
ایک ہی تصور جو، لفظ ہم میں رکھا ہے
جو بِتا نہیں سکتے، سنگ خار کے جیون 
ان کو ہم بتائیں کیا، کیا الم میں رکھا ہے
وصل کی ہے ہر ساعت ہجر کے شکنجے میں
بابِ عشق کا آخر، سوز و غم میں رکھا ہے
(عامرمعان۔ؔکوئٹہ) 

۔۔۔
غزل
کوئی پگلا پوچھ رہا تھا پانی سے
خلقت کا آغاز ہوا تھا پانی سے؟
میری یوں ہر بات ہوا کی نذر ہوئی
جیسے ہر اِک شعر لکھا تھا پانی سے
یاد آیا تھا مجھ کو ایک مدھر لہجہ
جب بھی کوئی گیت سنا تھا پانی سے
جب اِک ناؤ ڈوب رہی تھی پانی میں
ایک پرندہ کھیل رہا تھا پانی سے  
میں نے دریا آنکھ میں بھر کے دیکھا تھا
میں نے پہلا پیار کیا تھا پانی سے                         اِک دنیا آباد ہے آصفؔ مجھ میں بھی
مجھ کو یہ نروان ملا تھا پانی سے
(یاسررضاآصفؔ۔ پاک پتن)

۔۔۔
 غزل
کسی کا چین ہوتے ہیں کسی کا پیار ہوتے ہیں 
یہاں! ہر وار کے پیچھے ہمارے یار ہوتے ہیں  
یہ پہلا تو نہیں جس نے مجھے رستے میں چھوڑا ہے 
جو میرے ساتھ چلتے ہیں یونہی بیزار ہوتے ہیں
بظاہر ایک ہوتا ہے کسی بھی فلم کا ہیرو
مگر ہیرو کے پیچھے بھی بڑے کردار ہوتے ہیں  
تمہارے تلخ لہجوں سے تمہارے ان رویوں سے
ہزاروں خواب آنکھوں میں پڑے مسمار ہوتے ہیں
یہ ہم سورج نہیں ہیں جو گئے تو لوٹ آئیں گے 
ہمارے پھر پلٹنے کے کہاں آثار ہوتے ہیں 
تمہارے پاس ویسے بھی مسافت کا بہانہ ہے 
تمہارے جیسے بندے سے بھلا تکرار ہوتے ہیں؟
(ملک اسد معراج اعوان۔ نوشہرہ سٹی،سون ویلی)

۔۔۔
غزل
ہجر سانسوں میں گھل کر نہاں رہ گیا دردِ جاں رہ گیا
عشق میں جسم و جاں کا زیاں رہ گیا دردِ جاں رہ گیا
تم بچھڑ کر بہاروں کی زینت بنے اور کھلتے رہے
میرے آنگن میں موسم خزاں رہ گیا دردِ جاں رہ گیا
سب شہیدوں کی قبروں پہ کتبے لگے پھول پھینکے گئے
ان کی ماؤں کا دکھ جاوداں رہ گیا درد جاں رہ گیا
میں نے آہیں بھریں کوئی سمجھا نہیں میں اکیلا ہوا
میری آہوں کا غل بیزباں رہ گیا دردِ جاں رہ گیا
تیرگی شب گئے نوچتی ہے مجھے کھا رہی ہے مجھے
اے مرے چارہ گر تُو کہاں رہ گیا دردِ جاں رہ گیا
(ملک عثمان مانی۔ اوچھالی،وادیٔ سون)

۔۔۔
غزل
کم سے کم حور تو مشروطِ عبادات نہ ہو
حشر میں تیرے حوالے سے کوئی بات نہ ہو 
یہ قوانین ِ محبت کے الٹ ہے کہ نہیں 
تو کبھی میکے بھی آئے تو ملاقات نہ ہو
اور ترے بعد شرفا نے بہت باتیں کیں 
اور ایسوں نے بھی جن کی کوئی اوقات نہ ہو
یہ تو ہونا تھا میاں ایسا کہاں ممکن ہے
تو دل آزاری کرے اور مکافات نہ ہو
پیار بھی اونچے گھرانوں میں نمو پاتا ہے
ان گھرانوں میں جہاں تنگیِ حالات نہ ہو
اس کی تقدیس کی خاطر کوئی مرتا ہے بھلا 
اس کی خاطر کہ جسے شوقِ مزارات نہ ہو
گاؤں چھوڑا ہے تو خواہش ہے نئے لوگ ملیں
وہ نئے لوگ جنہیں ذوقِ سوالات نہ ہو
مال دیتا ہے تو سردار کو وحشی نہ بنا
کھیت اجڑیں گے تو مالک یہاں برسات نہ ہو
کاش عصمتؔ کی دعائیں ترے کام آ جائیں
ایسی حالت میں جہاں کوئی ترے ساتھ نہ ہو
 (عصمت اللہ سیکھو۔گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل
مرے محرما، مرے دوستا مرے ساتھ چل مرا ساتھ دے 
نہیں کوئی بھی مرا مبتلا مرے ساتھ چل مرا ساتھ دے
یہاں راستوں کا پتا نہیں کہاں کون آ کے دبوچ لے 
مری ڈھال بن یا مجھے بنا مرے ساتھ چل مرا ساتھ دے
میں اندھیر نگری کی خاک ہوں جہاں روشنی کی نوید نئیں 
مجھے ماہتاب سا مکھ دکھا  مرے ساتھ چل مرا ساتھ دے
ترے راستے میں گلاب ہیں مرے راستے میں عذاب ہیں 
مجھے بس ہے تیرا ہی آسرا مرے ساتھ چل مرا ساتھ دے
نہیں مجھ میں اتنا بھی حوصلہ کہ میں لڑ سکوں تری یاد سے
مجھے تیز تر نہ ہوا لگا مرے ساتھ چل مرا ساتھ دے
وہی سلسلہ تری یاد کا مجھے کھینچتا ہے جو  بارہا
ترا نقش دل سے اتر گیا مرے ساتھ چل مرا دے 
وہی منزلیں وہی راستے نہ وہ تو رہا نہ تو میں رہی 
ہے طویل درد کا سلسلہ مرے ساتھ چل مرا ساتھ دے
وہ عمود ؔ عاشقِ غم زدہ مری زندگی کا ہے سلسلہ
وہی آج کہتا ہے بارہا مرے ساتھ چل مرا ساتھ دے
(عمود ابرار احمد۔ کراچی)

۔۔۔
غزل
میں نے خود سے تو نہیں، تم سے محبت کی ہے
ایک ہی شخص کی تا عمر اطاعت کی ہے
تجھ پہ شاید مرے الفاظ گراں گزریں گے 
کیا کوئی بات کبھی تو نے سماعت کی ہے؟
کب سے ہاتھوں کو میں زخمی کیے بیٹھا ہوا ہوں
میں نے کانٹوں کی نہیں، پھول کی چاہت کی ہے
کوئی گر دور چلا جائے تو ہنستا ہوں میاں
پیار میں اپنے لیے اتنی سہولت کی ہے
وہ جو ہر شخص کو تابع کیے پھرتا ہے عزیز 
بات یہ کشف کی ہے، بات کرامت کی ہے
(شارق عزیز میاں اعوان۔نوشہرہ سٹی ،سون ویلی)

۔۔۔
غزل
مری زندگی کا فسانہ ہو تم
مری شاعری ہو ترانہ ہو تم
تمھیں کیا خبر کہ ہوا کیا زیاں
جو کھویا ہے مجھ سے خزانہ ہو تم
اگر پوچھتے ہو تو سچ سچ کہوں
حقیقت ہوں میں اور بہانہ ہو تم
جسے شیخ جنت کہے ساقیا
مرا دلنشیں وہ ٹھکانہ ہو تم
کہا مجھ سے کیسے بچو گے بھلا
جو ہے آنکھ اندر نشانہ ہو تم
جو گزرا،جو اب ہے، جو آئے گا کل
مری ہر گھڑی، ہر زمانہ ہو تم
کہا مجھ سے ساگرؔ نے دیکھا تھا جب
کہ بوسیدہ اک آشیانہ ہو تم
(رجب علی ساگر ۔ڈیرہ اسماعیل خان،پہاڑ پور)
 

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ 
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
 روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

 

متعلقہ مضامین

  • دو قدم ساتھ چل کر چھوڑنے والا اپنا نقصان کرے گا، قوم معاف نہیں کریگی، سلمان اکرم راجا
  • بطور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا مستقبل کیا؟ بانی پی ٹی آئی نے واضح اعلان کردیا
  • کوچۂ سخن
  • جے آئی ٹی نے پی ٹی آئی کے  سلمان اکرم‘رئوف حسن سمیت  25 افراد کو آج دوبارہ طلب کر لیا
  • پولیس اسٹیشن حملہ کیس: سلمان اکرم راجا کے وارنٹ گرفتاری معطل
  • سلمان اکرم راجہ کی اڈیالہ جیل کے باہر کیمپ لگانے کی افواہوں کی تردید
  • سلمان اکرم راجا کے انسداد دہشتگردی عدالت سے جاری وارنٹ ہائیکورٹ سے معطل
  • پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجہ کے وارنٹ معطل
  • قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں