ہم جنگ بندی کی پیشکش کو روس کے سامنے رکھیں گے.امریکی وزیرخارجہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
جدہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 مارچ ۔2025 ) امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ یوکرین نے امریکی تجویز پر 30 دن کی جنگ بندی کو تسلیم کر لیا اور روس کے ساتھ فوری مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر دی ہے یوکرین کے مثبت ردعمل کے بعد امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے یوکرین کے لیے فوجی امداد کی بحالی کا اعلان کیا اور اس جنگ کے خاتمے کی امید ظاہر کی ہے.
(جاری ہے)
جدہ میں ہونے والی اہم مذاکرات میں اعلی امریکی اوریوکرینی نمائندوں نے شرکت کی وفود کی سطح پر ملاقاتوں کے علاوہ امریکی وزیرخارجہ مارکوروبیو‘یوکرینی صدرزلینسکی نے سعودی ولی عہدپرنس سلمان بن محمد سے بھی ملاقاتیں کیںامریکا کی جانب سے فضائی اور سمندری حملوں پر جزوی جنگ بندی کی پیشکش کی گئی نو گھنٹے طویل مذاکرات کے بعد صحافیوں کو بتایاکہ ہم نے ایک پیشکش کی جسے یوکرینی حکام نے قبول کر لیا ہے جس کے تحت وہ جنگ بندی اور فوری مذاکرات پر آمادہ ہیں. عرب نشریاتی ادارے کے مطابق انہوں نے کہا کہ اب ہم اس پیشکش کو روسیوں کے سامنے رکھیں گے اور امید کرتے ہیں کہ وہ امن کو قبول کریں گے گیند اب ان کے کورٹ میں ہے اگر وہ انکار کرتے ہیں تو بدقسمتی سے ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ امن کے راستے میں اصل رکاوٹ کون ہے . مارکوروبیو نے کہا کہ امریکہ فوری طور پر یوکرین کے لیے فوجی امداد اور انٹیلی جنس معلومات کی شیئرنگ بحال کر رہا ہے جو فروری 28 کو صدر ٹرمپ اور یوکرینی صدر وولودی میر زیلینسکی کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد معطل کر دی گئی تھی ادھرواشنگٹن میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ زیلنسکی کو دوبارہ وائٹ ہاﺅس میں خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہیں اور ممکنہ طور پر اس ہفتے روسی صدر ولادی میر پوٹن سے بات کریں گے. واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران مکمل جنگ بندی کے امکان کے حوالے سے سوال کے جواب میں صدر ٹرمپ نے کہاکہ میں امید کرتا ہوں کہ یہ چند دنوں میں مکمل ہو جائے میں یہی دیکھنا چاہتا ہوں مجھے معلوم ہے کہ کل روس کے ساتھ ایک بڑی ملاقات ہونے والی ہے اور امید ہے کہ کچھ بہترین گفتگو ہوگی. دوسری جانب ایک مشترکہ بیان میں یوکرین اور امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ جلد ایک معاہدہ کریں گے جس کے تحت امریکہ کو یوکرین کے معدنی وسائل تک رسائی حاصل ہو گی یہ وہ شرط تھی جو ٹرمپ نے اپنے پیشرو جو بائیڈن کے دور میں فراہم کیے گئے اربوں ڈالر کے امریکی ہتھیاروں کے بدلے رکھی تھی. یوکرینی صدرزیلینسکی نے جنگ بندی کی تجویز پر صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اب امریکہ کو روس کو قائل کرنے کے لیے کام کرنا ہو گاانہوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ امریکی فریق ہمارے دلائل کو سمجھتا ہے ہماری تجاویز کو قبول کرتا ہے اور میں صدر ٹرمپ کا ہماری ٹیموں کے درمیان تعمیری بات چیت کے لیے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں زیلینسکی کے اعلیٰ مشیر آندرے یرماک نے کہا کہ یوکرین نے واضح کر دیا ہے کہ وہ امن چاہتا ہے. مذکرات کے اختتام پر گفتگو میں انہوں نے کہا کہ روس کو بہت واضح طور پر یہ کہنا ہوگا کہ وہ امن چاہتے ہیں یا نہیں وہ اس جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں یاد رہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان عارضی جنگ بندی کی تجویز امریکہ کی طرف سے پیش کی گئی تھی جس کو قبول کرنے پر یوکرین نے اتفاق کر لیا ہے صدر زیلنسکی کے مشیر نے باور کرایا کہ ان کا ملک امن چاہتا ہے اور جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے لیے تیار ہے آندرے یرماک نے جدہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم امن کو یقینی بنانے کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہیں انہوں نے کہاکہ امریکا اور یوکرین کے درمیان جدہ میں اجلاس کا آغاز نہایت تعمیری سمت میں ہوا اور ہم کام کر رہے ہیں.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جنگ بندی کی یوکرین کے کے درمیان نے کہا کہ قبول کر کے لیے
پڑھیں:
زیلنسکی نے ٹرمپ کے ساتھ گرما گرمی پر معافی مانگ لی، امریکہ کا دعویٰ
فوجی امداد پر پابندی کو ٹرمپ کی اپنی پارٹی کے ارکان کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا کہ روس کی جنگ کے دوران یوکرین سے امداد واپس لینا افغانستان سے بھی بدتر ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ مشرق وسطیٰ کے لیے امریکا کے نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف نے فاکس نیوز کو ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ صدر ولادیمیر زیلنسکی نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ گرما گرم بحث پر معافی مانگ لی ہے۔ دی کیف انڈیپینڈنٹ میگزین کے مطابق وٹکوف اس امریکی وفد کا حصہ ہیں، جو سعودی عرب میں یوکرین کے حکام سے ملاقات کرے گا، یہ وفد وائٹ ہاؤس میں جھڑپ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان پہلے اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں شریک ہوگا۔ وٹکوف نے انٹرویو میں بتایا کہ زیلنسکی نے امریکی صدر کو ایک خط بھیجا، اور اوول آفس میں پیش آنے والے پورے واقعے پر معافی مانگی، مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک اہم قدم تھا۔
وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ عہدیداروں نے 28 فروری کو اوول آفس میں ’تصادم‘ کے بعد یوکرین کے صدر زیلنسکی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا، جس کے بعد زیلنسکی نے 4 مارچ کو مصالحتی بیان جاری کیا، اس بیان میں واقعے کو ’افسوس ناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ ٹرمپ کی ’مضبوط قیادت‘ کے تحت امن کے لیے کام کرنے کو تیار ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وٹکوف اس بیان کو معافی کے طور پر بیان کر رہے تھے یا زیلنسکی اور ٹرمپ کے درمیان دیگر کسی رابطے کا حوالہ دے رہے تھے۔ وٹکوف نے یہ بھی کہا کہ اس واقعے کے بعد سے یوکرین، امریکا اور یورپی حکام کے درمیان بات چیت جاری ہے، واشنگٹن اور کیف کے درمیان تباہ شدہ معدنیات کے معاہدے کو بحال کر سکتے ہیں۔
اسٹیو وٹکوف نے کہا کہ میں اسے ترقی کے طور پر بیان کرنا چاہتا ہوں، مجھے امید ہے کہ کوئی معاہدہ ہو جائے گا، توقع ہے کہ مذاکرات کے دوران دونوں فریق خاطر خواہ پیش رفت کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ میز پر جو کچھ ہے، جس پر بات کرنا اہم ہے، وہ واضح طور پر یوکرین کے لیے سیکیورٹی پروٹوکول ہیں، وہ اس کی پرواہ کرتے ہیں، یہ پیچیدہ چیزیں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سب کچھ میز پر رکھنے، ہر ایک کو اس بارے میں شفاف ہونے کی ضرورت ہے کہ ان کی توقعات کیا ہیں، اس کے بعد ہم اس بارے میں بات چیت کر سکتے ہیں کہ کس طرح ہم سمجھوتے تک پہنچ سکتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں جھڑپ کے بعد یوکرین اور امریکا کے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گئے تھے، کیوں کہ واشنگٹن نے کیف کو فوجی امداد روک دی تھی اور اہم انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ بند کر دیا تھا۔ وٹکوف نے اس سے قبل انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ امریکا نے دفاعی مقاصد کے لیے ضروری انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ بند نہیں کیا ہے۔ فوجی امداد پر پابندی کو ٹرمپ کی اپنی پارٹی کے ارکان کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا کہ روس کی جنگ کے دوران یوکرین سے امداد واپس لینا افغانستان سے بھی بدتر ہوگا۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ اگر سعودی عرب کے مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو واشنگٹن یوکرین کو فوجی امداد دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔