پاکستان ری اینشورنس کمپنی کی جانب سے سیکیورٹی گارڈر کی غیر قانونی بھرتیوں کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان ری اینشورنس کمپنی کی جانب سے سیکیورٹی گارڈر کی غیر قانونی بھرتیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اجلاس جنید اکبر کی زیر صدارت ہوا، پی اے سی میں وزارت کامرس ، اسٹیٹ لائف انشورنس اور ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا گیا۔
کمیٹی ممبر نوید قمر نے اجلاس میں بیٹھنے سے معذرت کرلی اور کہا کہ چونکہ آڈٹ اعتراضات میری وزارت کے وقت ہیں اس لیے اس میں بیٹھنا مفادات کا ٹکراؤ ہوگا۔
چیئرمین کمیٹی جنید اکبر، عمر ایوب اور شبلی فراز نے نوید قمر سے اجلاس میں بیٹھنے کی درخواست کی تاہم
نوید قمر معذرت کرکے اجلاس سے چلے گئے۔
اجلاس میں 5 سال سے 2 کروڑ 75 لاکھ کا ای ڈی ایف فنڈ استعمال نہ ہونے کے آڈٹ اعتراض کا جائزہ لیا گیا، چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ پانچ سال سے فنڈ پڑا ہوا ہے اسے استعمال کیوں نہیں کیا گیا، پانچ سال ضائع کر دیے اس منصوبے کے تحت طلباء کو تربیت دی جانی تھی، اس نااہلی کا ذمہ دار کون ہے اور اس وقت منصوبے کا کیا اسٹیٹس ہے۔
سیکریٹری تجارت نے کہا کہ ای ڈی ایف فنڈ پاکستان ہوژری مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کو جاری کیا گیا،
رکن کمیٹی شبلی فراز نے کہا کہ آج وہ 20 ملین تو 5 ملین کے برابر رہ گئے ہونگے، رکن کمیٹی شازیہ مری نے کہا کہ ہمیں بتایا جائے کی کیا اس میں کوئی ذمہ داری کا تعین کیا گیا۔
کمیٹی نے معاملے کی انکوائری کرکے رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کر دی
پی اے سی اجلاس میں ٹریڈنگ کارپوریشن کے قرض پر 89 ارب 72 کروڑ سود بڑھ جانے کا آڈٹ اعتراض کا جائزہ لیا گیا، آڈٹ بریفنگ میں بتایا گیا کہ ٹریڈ کارپوریشن نے وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک سے کریڈٹ سہولت لی۔
رکن کمیٹی سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ کیا ٹی سی پی نے یہ قرض زیادہ شرح سود پر حاصل کیا، آخر تین سالوں میں اتنا مارک اپ کیسے بڑھ گیا۔
سیکریٹری تجارت نے کہا کہ ہمارے حساب سے بقایا جات 217 ارب روپے کے بنتے ہیں، 15 نومبر 2023 کو اس پر ای سی سی کے پاس سمری بھیجی گئی، ای سی سی نے آئندہ کیش کریڈٹ لمٹ محکمے کو ٹرانسفر کرنے کا فیصلہ کیا، یوٹیلیٹی اسٹور ٹریڈ کارپویشن کا 103 ارب روپے کا نا دہندہ ہے، سیکریٹری تجارت
پاکستان نیشنل فرٹیلائزر 123 ارب روہے، پاسکو 6 ارب روپے کا نادہندہ ہے، یکم دسمبر 2023 کو سیکریٹری خزانہ کی زیر صدارت بھی ایک اجلاس ہوا، اس کمیٹی اجلاس میں بھی یہ معاملہ دیکھا گیا تھا لیکن ہو کچھ نہیں۔
چیئرمین کمیٹی جنید اکبر نے کہا کہ یہاں اپنی وزارتوں کے معاملات لیکر مت آیا کریں، آپ کا پیسہ ہے آپ وزارت خزانہ کے ساتھ بیٹھ جائیں، کمیٹی نے وزارت تجارت کو وزارت خزانہ کے ساتھ بیٹھ کر ایک ماہ میں معاملے کے حل کی ہدایت کردی۔
اجلاس میں 2023-24 میں مارکیٹ سروے کے بغیر رائس ملز کے پلانٹس کی فروخت کا انکشاف ہوا ،
پلانٹس کی فروخت سے 1 کروڑ 83 لاکھ کے نقصان کے آڈٹ اعتراض کا جائزہ لیا گیا، رکن کمیٹی حسنین طارق نے کہا کہ بتایا جائے کہ کیا مارکیٹ ویلیوایشن کرائی گئی تھی، سیکریٹری تجارت نے بتایا کہ 6 رائس پلانٹس تھے جن کی مارکیٹ ویلیو ایشن نہیں کرائی گئی۔
سید حسنین طارق نےکہا کہ ویلیو ایشن کے بغیر رائس پلانٹس کی فروخت غیر قانونی تھی، یہ عوامی پیسہ تھا وہ اثاثے اس ملک کے تھے، اس غیر قانونی معاملے پر انکوائری کرائی جانی چاہئیے۔
سیکریٹری تجارت نے کہا کہ انکوائری کرائی گئی تھی اور انہوں نے کہا کہ فروخت درست تھی، یہ پلانٹس 1976 کے تھے انکوائری نے کہا پرانے ہیں اس لیے قیمت درست ہے، یہ بات درست نہیں ہے کہ وہ مشینری آج بھی چل رہی ہے، پرانی مشینری کی جگہ ان لوگوں نے نئی مشینری خرید لی ہے۔
رکن کمیٹی شبلی فراز نے کہا کہ میرے تاثرات یہ ہیں کہ یہ فروخت صحیح نہیں ہوئی تھی، آڈٹ حکام نے کہا کہ یہ مشینری پرانی تھی پھر بھی کوئی ویلیو ایشن کی جا سکتی تھی، کمیٹی نے پلانٹس کی فروخت کے کے آڈٹ پیرا پر دوبارہ ڈی اے سی کرنے کی ہدایت کردی۔
پی اے سی اجلاس میں ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کی جانب سے گندم کی درآمد پر خلاف ضابطہ اور بلاجواز کمیشن چارج کرنے سے متعلق آڈٹ اعتراض کا جائزہ لیا گیا، آڈٹ بریفنگ میں بتایا گیا کہ مینجمنٹ نے 2 فیصد کمیشن چارج کیا ، منظور شدہ ریٹ 0.
ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے معاملہ دوبارہ ڈی اے سی کے سپرد کردیا۔
ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کی جانب سے رائس ملز کی بغیر ویلیوایشن اور مارکیٹ سروےکے فروخت سے متعلق آڈٹ اعتراض کا جائزہ لیا گیا، کمیٹی نے یہ معاملہ بھی دوبارہ ڈی اے سی کے سپرد کردیا
اجلاس میں پاکستان ری اینشورنس کمپنی کی جانب سے سیکیورٹی گارڈر کی غیر قانونی بھرتیوں کا انکشاف ہوا، سکیورٹی گارڈز کی غیر قانونی بھرتیوں سے 1 کروڑ 46 لاکھ روپے کے نقصان کے آڈٹ اعتراض سے متعلق آڈٹ بریفنگ میں آڈیٹر جنرل پاکستان نے بتایا کہ سیکیورٹی گارڈز کی بھرتیوں کیلئے 30 ملین روپے کے اشتہار دیے تھے، بعد میں بھرتیوں کا کنٹریکٹ براہ راست ایف سی کو دے دیا گیا۔
آڈٹ بریفنگ میں بتایا گیا کہ سکیورٹی کیلئے ایف سی کو سالانہ 1 کروڑ 46 لاکھ روپے کی ادائیگی کی گئی،
کمپنی نے 22 سکیورٹی گارڈز، 2 سپروائزر اور 2 لیڈر سرچر غیر قانونی ہائر کیے۔
کمیٹی رکن حسنین طارق نے کہا کہ پیپرا رولز کے مطابق 42 ایف کے نفاذ کی دو شرائط تھیں جو پوری نہیں کی گئیں، اتنی جلدی میں ایف سی کو کنٹریکٹ دینے کی کیا جلدی تھی، اس پر پی اے سی نے معاملے پر ایک ماہ میں انکوائری کرکے رپورٹ طلب کر لی۔
لاہور میں اسٹیٹ لائف انشورنس کے پلاٹس پر تجاوزات میں قبرستان بن گیا، پی اے سی اجلاس میں اسٹیٹ لائف انشورنس کے پلاٹس پر تجاوزارت کے آڈٹ اعتراض کا جائزہ لیا گیا، نمائندہ اسٹیٹ لائف نے کہا کہ پنجاب میں ہمارے دو اور ملیر میں ایک پلاٹ پر تجاوزات ہیں۔
اسٹیٹ لائف حکام نے کہا کہ 1976 میں جب یہ پلاٹس ملے تھے تو ان پر تجاوزات پہلے سے تھیں، ہمیں پلاٹس پر تجاوزات ختم کرتے وقت مارنے کی دھمکیاں دی گئیں، ہم تجاوزات میں سے سے17 ایکڑ رقبہ ریکور کر چکے ہیں، تجاوزات میں سے مزید دس ایکڑ بھی جلد حاصل کر لیں گے، اسٹیٹ لائف کی زمینوں پر پچاس سالوں سے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، لاہور میں تجاوزات کے رقبے ہر قبرستان بھی بنا ہوا ہے۔
رکن کمیٹی شازیہ مری نے کہا کہ اب ہم وہاں تجاوزات سے قبرستان تو نہیں ہٹا سکتے، پی اے سی نے معاملے کی انکوائری کرکے رپورٹ ایک ماہ میں جمع کرانے کی ہدایت کردی۔
کمیٹی نے کہا کہ قبرستان جگہ ریکور کرنے کی بجائے متبادل زمین حاصل کرنے کا آپشن بھی دیکھا جائے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی غیر قانونی بھرتیوں پلانٹس کی فروخت سیکریٹری تجارت کے آڈٹ اعتراض کی ہدایت کر بھرتیوں کا اسٹیٹ لائف کی جانب سے رکن کمیٹی اجلاس میں میں بتایا شبلی فراز کا انکشاف نے کہا کہ کمیٹی نے پی اے سی
پڑھیں:
مارکیٹ سروے کے بغیر رائس ملز کے پلانٹس کی فروخت کا انکشاف
اسلام آباد:پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس کے دوران 2023-24 میں مارکیٹ سروے کے بغیر رائس ملز کے پلانٹس کی فروخت کا انکشاف ہوا ہے۔
اجلاس میں پلانٹس کی فروخت سے 1 کروڑ 83 لاکھ کے نقصان کے آڈٹ اعتراض کا جائزہ لیا گیا۔
رکن کمیٹی حسنین طارق نے سوال کیا کہ بتایا جائے کہ کیا مارکیٹ ویلیوایشن کرائی گئی تھی، جس پر سیکریٹری تجارت نے جواب دیا کہ 6 رائس پلانٹس تھے جن کی مارکیٹ ویلیو ایشن نہیں کرائی گئی۔
ید حسنین طارق نے کہا کہ ویلیو ایشن کے بغیر رائس پلانٹس کی فروخت غیر قانونی تھی، یہ عوامی پیسہ تھا وہ اثاثے اس ملک کے تھے، اس غیر قانونی معاملے پر انکوائری کرائی جانی چاہیے۔
سیکریٹری تجارت نے کہا کہ انکوائری کرائی گئی تھی اور انہوں نے کہا کہ فروخت درست تھی، یہ پلانٹس 1976 کے تھے انکوائری نے کہا پرانے ہیں اس لیے قیمت درست ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے کہ وہ مشینری آج بھی چل رہی ہے، پرانی مشینری کی جگہ ان لوگوں نے نئی مشینری خرید لی ہے۔
رکن کمیٹی شبلی فراز نے کہا کہ میرے تاثرات یہ ہیں کہ یہ فروخت صحیح نہیں ہوئی تھی۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ یہ مشینری پرانی تھی پھر بھی کوئی ویلیو ایشن کی جا سکتی تھی۔
کمیٹی نے پلانٹس کی فروخت کے کے آڈٹ پیرا پر دوبارہ ڈی اے سی کرنے کی ہدایت کر دی۔