آرمی ایکٹ تو خصوصی طور پر افواج پاکستان کے ممبران کیلئے ہے، جج آئینی بینچ
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس محمد علی نے ریمارکس دیے ہیں کہ آرمی ایکٹ تو خصوصی طور پر افواج پاکستان کے ممبران کیلئے ہے۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دئیے کہ عدالتیں آرٹیکل 175 کے تحت بنیں، کیا فوجی عدالت عدالت بھی آرٹیکل 175 کے تحت بنیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کوئی ایسا فورم ہے جو آرٹیکل 175 کے تحت نہ بنا ہو اور شہریوں کا ٹرائل کر سکتا ہو؟ جسٹس محمد علی نے کہا آرمی ایکٹ تو خصوصی طور پر افواج پاکستان کے ممبران کیلئے ہے۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا آئین پاکستان میں درج ہے کہ آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کے ڈسپلن اور فرائض کی انجام دہی کیلئے ہے، میں آپ کے سامنے بتا دوں کہ 9 مئی کے واقعات میں انسداد دہشتگری کا کوئی جرم نہیں تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ کسی فوجی اہلکار کے کام میں رخنہ ڈالنے کا جرم انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت آتا ہے، 9 مئی واقعات میں دوسرا جرم آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت آتا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا آرٹیکل 8 یقینی بناتا ہے کہ افواج اپنے فرائض کو درست طریقے سے ادا کر سکیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نےکہا ایف بی علی کیس میں بنیادی حقوق کا سوال تو آیا ہے، خواجہ حارث نےجواب دیا ایف بی علی کیس چیلنج اس بنیاد پر ہوا تھا کہ ہمارے بنیادی حقوق سلب ہورہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی فوجی عدالتوں سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، خواجہ حارث جواب الجواب جاری رکھیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خواجہ حارث آرمی ایکٹ کیلئے ہے کے تحت نے کہا
پڑھیں:
سپر ٹیکس خاص مقصد کیلئے تھا، ایک مرتبہ لاگو ہونے کے بعد قیامت تک چلے گا؟ جج آئینی بینچ
سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپر ٹیکس ایک مرتبہ خاص مقصد کےلیے لگایا گیا تھا اور ایک مرتبہ سپرٹیکس لاگو کرنے کے بعد کیا قیامت تک چلےگا۔سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے سپر ٹیکس کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں کمپنیز کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے۔ وکیل مخدوم علی نے عدالت کو بتایا کہ سپرلیوی ٹیکس حکومت نے 2015 میں لاگو کیا جس کا مقصد آپریشن ضرب عزب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی تھا۔مخدوم علی نے کہا کہ حکومت نے منی بل 2015 میں ایک مرتبہ سپرٹیکس کا نفاذ کیا، سال 2015 سے 2022 تک سپرٹیکس نافذ رہا جس کا ابتدائی تخمینہ 80 ارب روپے اکٹھے کرنے کا تھا مگر نہیں معلوم حکومت نے سپر لیوی ٹیکس کی مد میں کتنی رقم اکٹھی کی، حکومت سے پوچھا جائے سپرٹیکس کی مد میں کتنا ٹیکس اکٹھا ہوا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کوئی حساب ہے کہ سپرٹیکس میں کتنی رقم اکٹھی ہوئی، اس پر وکیل مخدوم علی نے کہا وزیرخزانہ کی کسی تقریر میں سپرٹیکس کے ریکوری اور خرچ کا نہیں بتایا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپرٹیکس آپریشن کے متاثرین کی بحالی کیلئے تھا، حقیقت ہے دہشتگردی کا ہر روز سامنا کرنا پڑتا ہے، آپریشن میں مجموعی طور پر کتنے لوگ بےگھر ہوئے اور کن علاقوں سے ہوئے؟جسٹس جمال نے سوال کیا کہ آپریشن سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کیلئے حکومتی پلان کیا تھا اورکیا متاثرہ علاقوں کی آباد کاری کا کوئی پی سی ون تیار ہوا؟ کیا متاثرہ علاقوں کی بحالی کا کوئی تخمینہ لگایا گیا؟ کیا منی بل کے ذریعے سروسز پر ٹیکس کا نفاذ کیا جاسکتا ہے؟وکیل مخدوم علی نے جواب دیا حکومت آمدن پر پہلے ہی انکم ٹیکس لے چکی تھی، ڈبل ٹیکسیشن سے بچنے کے لیے سپر ٹیکس کا نام دیا گیا، سوشل ویلفیئر کا سبجیکٹ صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے، یہ سپر ٹیکس نہیں ٹیکس ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا سپرٹیکس ایک مرتبہ خاص مقصد کےلیے لگایا گیا تھا، ایک مرتبہ سپرٹیکس لاگو کرنے کے بعد کیا قیامت تک چلےگا؟ جسٹس امین الدین نے کہا کہ اعتراض ہے قومی مجموعی فنڈز سے رقم صوبوں کی رضامندی بغیرکیسے خرچ ہوسکتی ہے۔ اس موقع پر وکیل ایف بی آر رضاربانی نے دلائل دیے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ مسلسل عمل ہے، متاثرین دہشتگردی کے خاتمے کے نتیجہ میں بے گھر ہوئے، اس پر کمپنیوں کے وکیل مخدوم علی نے کہا کیا دہشتگردی 2020 میں ختم ہوگئی؟حکومت نے 2020میں سپرٹیکس وصولی ختم کردی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سپر ٹیکس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔