کائنات، علمِ سائنس، اور جدید تحقیق پر اسلامی نقطہ نظر
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
کائنات، آسمان، ستارے، چاند، مریخ، زمین اور سمندر سے متعلق قرآنی آیات انسانی عقل کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔ قرآنِ کریم نے 1400 سال قبل ایسی حقیقتیں بیان کیں، جنہیں آج کا جدید علم اور سائنس تسلیم کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ مصنوعی ذہانت (AI) اور میٹاورس جیسے جدید تصورات بھی قرآنی تعلیمات کی روشنی میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔
قرآن اور کائنات کا تصور:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (کیا یہ لوگ آسمان کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے بلند کیا گیا)(سورۃ الغاشیہ18)یہ آیت انسان کو آسمان کی تخلیق پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ جدید فلکیات (Astrophysics) نے یہ ثابت کیا ہے کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے، جو قرآن کے اس بیان سے مطابقت رکھتی ہے: (اور ہم نے آسمان کو طاقت کے ساتھ بنایا اور ہم اسے وسعت دینے والے ہیں۔)(سورۃ الذاریات: 47)
زمین سمندر اور چاند کی حقیقتیں جن کا قرآن میں ذکر کثرت سے ملتا ہے:(اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔) (سورۃ الانبیا: 30) یہ آیت واضح کرتی ہے کہ پانی زندگی کی بنیاد ہے، اور آج کی حیاتیاتی تحقیق (Biological Research) اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے۔
چاند کے متعلق قرآن کہتا ہے:(اور چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کیں، یہاں تک کہ وہ پرانی بلندی کی طرح ہو جاتا ہے۔) (سورۃ یٰسین: 39)یہ آیت چاند کے مراحل اور اس کی گردش کی درست تصویر پیش کرتی ہے، جسے آج فلکیاتی تحقیق تصدیق کرتی ہے۔مصنوعی ذہانت (AI) اور میٹاورس کا قرآنی تناظر انسان کو بار بار غور و فکر اور علم حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ موجودہ دور میں مصنوعی ذہانت اور میٹاورس جیسے جدید تصورات نے انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نئی جہت دی ہے۔
-1 مصنوعی ذہانت (AI):مصنوعی ذہانت کی ترقی کے ذریعے انسان کائنات کو بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ AI کے ذریعے حاصل ہونے والے علم کو قرآن کی اس آیت سے جوڑا جاسکتا ہے:(اور اللہ نے آدم کو تمام چیزوں کے نام سکھائے۔) اور علماء کے مطابق ان اسماء کے اندر سارے علوم کے راز موجود ہیں۔اہل فر و تدبر اور تحقیق کرنے والوں پر کچھ علمی راز واضح ہوجاتے ہین۔ انسان کی علمی صلاحیتوں اور نئی ایجادات کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ AI، دراصل، انسانی ذہانت کی ہی توسیع ہے جو تخلیقی صلاحیت اور تجزیہ کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہے۔
-2 میٹاورس (Metaverse):میٹاورس ایک ایسی تخلیق ہے جس میں انسان ایک متوازی دنیا تخلیق کر رہا ہے۔ اس پر قرآن میں موجود آیات غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں، جیسے:(اے گروہِ جن و انس! اگر تم آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل سکتے ہو تو نکل جائو۔) یہ آیت انسان کی تخلیقی اور سائنسی ترقی کی عکاسی کرتی ہے، جو میٹاورس جیسی تخلیقات میں نظر آتی ہے۔قرآن کریم نے 1400 سال پہلے کائنات، علم، اور تخلیق کے بارے میں جو حقائق پیش کیے تھے، وہ آج کی جدید سائنسی تحقیق کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت اور میٹاورس جیسی جدید ٹیکنالوجیز انسان کی تخلیقی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان جدید علوم میں مہارت حاصل کریں اور قرآنی تعلیمات کو اپنی تحقیق و ترقی کا محور بنائیں۔یہی قرآن کی روح کے مطابق تحقیق، تخلیق، اور غور و فکر کی بنیاد ہے پہلے دور کے مسلمان سائنسدانوں کئی ایجادات، قرآن کا علم، اور جدید سائنس کی بنیادیں رکھیں۔ لیکن اس صدی کے دینی علما ء نے اپنے آپ کو علم و تحقیق اور تدبر و تفر سے دور کر لیا ہے۔ جب کہ قرآنِ کریم نے انسان کو تفکر، تحقیق، اور علم کی جستجو کی دعوت دی ہے۔ یہی تعلیمات قرون اولی کے مسلمانوں کے علمی اور سائنسی عروج کا سبب بنیں۔ علمِ کائنات، فلکیات، ریاضی، طب، اور ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کے نمایاں کردار کو قرآن کی رہنمائی کا نتیجہ کا نتیجہ تھا اور اولین ادوار کے مسلمانوں کی علمی خدمات نے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی۔
قرآنی تعلیمات اور سائنسی تحقیق ہ علم ا مقصد مقصد تھا۔ قرآن انسان کو بار بار قدرت کے مظاہر پر غور کرنے کا حکم دیتا ہے۔ (بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کے بدلنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔) (سورۃ آل عمران: 190)یہ آیت مسلمانوں کو تحقیق اور جستجو کی طرف راغب کرتی ہے، اور یہی اصول ان کے سائنسی کارناموں کی بنیاد بنا۔مسلمان سائنسدانوں نے مختلف شعبوں میں ایسی خدمات انجام دیں جنہوں نے جدید سائنس کے بہت سے شعبوں کو متاثر کیا۔
-1 محمد بن موسی الخوارزمی (780-850): الخوارزمی نے الجبرا (Algebra) کو باقاعدہ ایک شعبے کے طور پر متعارف کروایا۔ان کے کام کتاب الحساب اور الجبرا والمقابلہ نے جدید ریاضی کی بنیاد رکھی۔موجودہ دور میں استعمال ہونے والے الگورتھمز کا تصور الخوارزمی کی تحقیقات سے آیا، اور کمپیوٹر سائنس میں یہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
-2 الکندی (801-873):الکندی کو فلسفہ اور تیکنالوجی کا موجد کہا جاتا ہے۔انہوں نے خوارزمی کے کام کو مزید ترقی دی اور کرپٹوگرافی (Cryptography) میں نمایاں کام کیا۔ ان کا Frequency Analysis کا نظریہ جدید سائبر سیکیورٹی اور ڈیٹا انکرپشن میں استعمال ہوتا ہے۔
-3 ابن الہیثم (965-1040):ابن الہیثم کو جدید آپٹکس (Optics) کا بانی کہا جاتا ہے۔ ان کی کتاب کتاب المناظر میں روشنی کے انعکاس اور انعطاف پر تفصیلی تحقیق موجود ہے۔کیمرے کا بنیادی اصول Camera Obscura انہی کے تجربات پر مبنی ہے۔انہوں نے عینک اور دوربین کے نظریات کو بھی فروغ دیا۔
-4 ابوالقاسم الزہراوی (936-1013): طب کے میدان میں الزہراوی کو سرجری کے بانی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ان کی کتاب التصریف صدیوں تک یورپ کی میڈیکل یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہی۔
-5 جابر بن حیان (721-815):کیمسٹری کے میدان میں جابر کو کیمسٹری کا موجد کہا جاتا ہے۔انہوں نے تجرباتی سائنس کی بنیاد رکھی اور اس وقت کی کیمیکل ٹیکنالوجی کو ترقی دی۔6ن سینا (980-1037):ابن سینا کی کتاب القانون فی الطب صدیوں تک طب کے نصاب میں شامل رہی۔وہ علمِ نفسیات اور طب میں جدید نظریات کے بانیوں میں سے ہیں۔مسلمان اسکالرز کی تمام ایجادات قرآن کی رہنمائی کا نتیجہ تھیں۔ وہ قرآن کی آیات کو سائنسی تحقیق کے محرک کے طور پر لیتے تھے:(اور وہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں۔) (سورۃ آل عمران: 191) یہ آیت تحقیق، تجربہ، اور علم کے حصول کی ترغیب دیتی ہے، جو سائنسی کارناموں کی بنیاد تھی۔مصنوعی ذہانت (AI)اور جدید ٹیکنالوجی: مسلمان اسکالرز کے کام نے جدید علوم کے بنیادی اصول وضع کیے، جن سے مصنوعی ذہانت اور میٹاورس جیسے جدید تصورات تک پہنچنا ممکن ہوا۔
الگورتھمز (Algorithms): الخوارزمی اور الکندی Cryptograohy AI:قرآن کی تعلیمات تحقیق اور تخلیق کے حوالے سے وسیع ہیں:علم (اس نے انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔)(سورۃ العلق: 5) یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ علم کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے، اور انسان ہمیشہ نئی چیزیں سیکھتا رہے گا۔مسلمان اسکالرز کی ایجادات اور خدمات جدید سائنس کی بنیادیں ہیں۔ یہ سب قرآنی رہنمائی اور غور و فکر کی دعوت کے سبب ممکن ہوا۔ آج کے مسلمان علماء کو چاہیے کہ وہ اپنے اس شاندار ماضی سے سبق لے کر AI، میٹاورس، اور دیگر جدید علوم میں دوبارہ قائدانہ کردار ادا کریں اور دنیا کو نئی رہنمائی فراہم کریں۔یہی قرآن کا پیغام ہے: علم حاصل کرو اور دنیا میں انسانیت کی خدمت و تعمیر میں اپنا حصہ ڈالو۔یہ علم نافع ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت غور و فکر کی کی دعوت دی کے مسلمان اور سائنس کی تخلیق کی بنیاد انسان کی انسان کو کرتی ہے اور علم جاتا ہے قرآن کی یہ آیت
پڑھیں:
اعتدال پسند فقیہ امام شافعی رحمہ اللہ
’’میرا مذہب صحیح ہے مگر اس میں غلطی کا احتمال ہے، دوسروں کا مذہب غلط ہوسکتا ہے مگر اس کی بھی درستی ہوسکتی ہے‘‘ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے، جو ایک انتہائی اعتدال پسند اور متوازن مزاج فقیہ تھے جو انکار پر ضد نہیں کرتے تھے اور نہ ہی اصرار کے ذریعے بات منوانے کے قائل تھے۔
اسلامی فقہ کے ایک اہم ستون امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا پورا نام محمد بن ادریس الشافعی تھا جو 150 ہجری میں سر زمین فلسطین کے علاقہ غزہ میں پیداہوئے، یہ حزن و ملال کا وہ سال تھا جس میں ایک عظیم فقیہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ عالم اسلام کو داغ مفارقت دے گئے تھے۔
امام شافعی ؒ کے والد بچپن ہی میں انہیں یتیمی کے حوالے کر گئے، مگر ان کی بیوہ ماں نے ہمت نہیں ہاری اپنے در یتیم کی ا علیٰ دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ بیوہ ماں اپنے بیٹے کو لے کر عازم مکہ مکرمہ ہوئیں وہیں انہیں پہلے حفظ قرآن کرایا اور پھر ابتدائی تعلیم مکہ ہی میں مکمل کرانے کے بعد ہونہار بیٹے کو مدینہ منورہ لے گئیں جہاں امام شافعی نے امام مالک رحمہ اللہ سے ’’الموطا‘‘ پڑھی اور انہی سے حدیث و فقہ کی تعلیم میں مہارت حاصل کی۔ پھر مدینہ منورہ سے آپ نے مزید علم کے حصول کے لئے عراق کا سفر کیا۔ جہاں امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد امام محمد رحمتہ اللہ علیہ سے علمی استفادہ کیا جس سے ان کے فکرو نظر میں وسعت پیدا ہوئی۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے آنے والے زمانے میں نئی فکر متعارف کرائی جو ’’اصول فقہ‘‘ کی بنیاد پر قائم تھی۔ غربت وافلاس کی زندگی بسر کرنے والے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کو بہت کٹھن حالات سے گزر ناپڑا۔ اصول فقہ کے بانی نے پہلی بار کتاب’’الرسالہ‘‘ مرتب کرکے اس میں اصول فقہ کے قواعد ترتیب دیئے۔ جن میں قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس کوبنیاد بنایا۔ یوں آپ نے فقہ مالکی اور فقہ حنفی کی روشنی میں ایک متوازن راہ ہموار کی جو عقل و نقل کا حسین امتزاج کہلائی۔ امام شافعیؒ نے حدیث کو فقہ کی اساسی دلیل قرار دیتے ہوئے ان کے بغیر قیاس کو ناقص قرار دیا۔ انہوں نے قیاس اور اجماع کو غیر اہم قرار نہیں دیا مگر انہوں نے یہ اضافہ کیا کہ قرآن اور حدیث میں واضح احکام نہ ہونے کی صورت میں قیاس یااجماع کا استعمال درست ہے۔ تاہم اگر امت مسلمہ کسی مسئلے پر متفق ہو تواس پر عمل اجماع کیا جاسکتا ہے۔
امام شافعیؒ کی تصنیف ’’ آلام‘‘ فقہ شافعی کے بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے جس میں انہوں نے گہری بصیرت کے ساتھ اپنے مرتب کئے ہوئے فقہی نظام کوواضح کیا اور جس پر وہ ثابت قدم رہے کہ قرآن و حدیث میں وضاحت و صراحت کی صورت میں کسی بھی مسئلے میں قیاس یا اجماع کا استعمال زیبا نہیں۔
اپنی کتاب’’ آلام‘‘ میں امام شافعی نے نئی فقہی ٹیکنیس کو متعارف کروایا اور ان پر تفصیلی بحث کی۔ اسی طرح نصوص کی تعریف و تشریح میں بھی ایک جدت متعارف کروائی کہ ’’قرآن و حدیث کی ظاہر ی تشریح کی بجائے ان کے حقیقی معانی کو سمجھنا ضروری ہے اور نصوص کی تفہیم کے دوران سیاق و سباق کو مدنظر رکھنا ضروری ہے‘‘ ، فقہ میں اجتہاد کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہر دور کے کے علما ء کو نئے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے اجتہاد کرنا چاہیے کہ اجتہاد کا عمل نئی شرعی حقیقتوں کو سامنے لاتا ہے اور انہیں قرآن و حدیث کے اصولوں کے مطابق حل کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے‘‘ ۔
امام شافعیؒ نے فقہ اور اصول شریعت کے بیچ توازن قائم کیا، ان کا کہنا تھا کہ ’’ فقہ کا مقصد معاشرتی زندگی کو قرآن وسنت کے مطابق چلانا ہے اور اس کے لئے اصول شریعت کا درست اور معتدل استعمال ضروری ہے‘‘ امام شافعیؒ کو راہ حیات میں بے شماردشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ عباسی اقتدارکے شورش زدہ دور میں جی رہے تھے جس میں خلیفہ کے اذن کے بغیر پتہ نہیں ہلتا تھا اور امام دین اسلام میں اعتدال کی راہیں تلاشنے میں مصروف تھے۔ مختلف فقہی مکاتب فکر کی یلغار کا زمانہ تھا اسی دوران خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں ان پر شیعہ بغاوت کی حمایت کا الزام عائد کیا گیا جس کی وجہ سے خلیفہ کے حکم پر امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کوپابند سلاسل کردیا گیا، اس دوران جدید فقہی نظریات کی وجہ سے مالکی اور حنفی فقہا نے امام کو ہدف تنقید بنایا، بغداد اور مصر میں ان کے خلاف نظریاتی محاذ آرائی کے در وا ہوئے ۔ مگر سادہ و فقیرانہ زندگی بسر کرنے والے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اپنے عقائد پر قائم و دائم رہے، ان کی معتدل مسلکی سوچ پھلتی پھولتی اور وسیع تر ہوتی چلی گئی مگر فقہا کی ایک فوج تھی جو حکمرانوںکی آشیر باد کے زعم میں ان سے نبرد آزما تھی، سو وہ مصر کی اور ہجرت کرگئے۔مگر مصائب و آلام نے پھر بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑ ا۔ مصر میں مالکی فقہا نے ان پر شدید اختلافات کے تیرچلانا شروع کر دیئے اسی دوران ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ صاحب فراش ٹھہرے، بیماری سے بہت لڑے مگر جانبر نہ ہوپائے اور 204ہجری میں مصر ہی میں راہی عدم ہوئے اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔