طیبہ‘ طاہرہ امّ المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
النبی اولیٰ بالمومنین من انفسھم و ازواجہ امہاتہم(سورۃ الاحزاب‘۶)
’’ ایمان والوں پر نبی ان کی جانوں سے بڑھ کر ہیں اور نبی کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں‘‘
حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا عام الفیل سے 15 سال قبل 555 ء میں پیدا ہوئیں بچپن سے ہی نہایت نیک اور شریف الطبع تھیں جب سن شعور کو پہنچیں تو آپ کی شادی ابوہالہ بن نباش تمیمی سے کردی گئی جن سے آپ کے دو بیٹے پیدا ہوئے ایک کا نام ہالہ تھا جو اسلام سے قبل ہی فوت ہوگیا البتہ دوسرے بیٹے حارث تھے جو مردوں میں اسلام کے پہلے شہید ہیں۔
ابوہالہ کے انتقال کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی دوسری شادی عتیق بن عابد المخزومی سے ہوئی ان سے بھی ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام ہند تھا کچھ عرصہ بعد عتیق بن عابد بھی انتقال کرگئے۔ آپ رضی اللہ عنہا کے والد اپنے قبیلہ میں ایک نہایت اعلیٰ حیثیت کے مالک تھے ہر شخص ان کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا تھا ان کی تجارت شام و عراق اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی لیکن ان کے انتقال کے بعد حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا تنہا ہوگئیں تھیں اور اپنے شوہر کے انتقال کے بعد آپ رضی اللہ عنہا اپنی بیوگی کے ایام خلوت گزینی میں گزار رہی تھیں آپ اپنا کچھ وقت خانہ کعبہ میں گزارتیں اور کچھ وقت اس زمانہ کی معزز کاہنہ خواتین کے ساتھ گزارتی تھیں۔ قریش کے بڑے بڑے سرداروں نے انہیں نکاح کے پیغام بھیجے لیکن انہوں نے سب رد کردئیے۔ آپ رضی اللہ عنہا کے والد گرامی نے اپنی زندگی میں ہی ضعف پیری کی وجہ سے اپنی وسیع تجارت کا انتظام اپنی عاقلہ بیٹی کے سپرد کرکے خود گوشہ نشین ہوگئے تھے۔ جب ان کا انتقال ہوا تو سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ شوہر پہلے ہی وفات پا چکے تھے اس وقت عرب معاشرے میں ایک عورت کیلئے تجارت کرنا نہایت مشکل تھا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنے نوکروں کے ذریعے ہمیشہ شام، عراق اور یمن کی طرف مال تجارت روانہ کیا کرتی تھیں۔ اس وسیع کاروبار کو چلانے کیلئے آپ رضی اللہ عنہا نے ایک بڑا عملہ رکھا ہوا تھا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی حسن تدبیر اور دیانت داری کی بدولت آپ کی تجارت روز بروز ترقی کررہی تھی اور اب ان کی نظریں ایک ایسے شخص کی متلاشی تھیں جو بے حد قابل، ذہین اور دیانت دار ہو تاکہ وہ اپنے تمام ملازمین کو اس کی سرکردگی میں تجارتی قافلوں کے ہمراہ باہر بھیجا کریں۔
حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی شہرت ’’امین‘‘ کے لقب سے مکہ میں تھی اور آپ کے حسن معاملات، راست بازی، صدق و دیانت اور پاکیزہ اخلاق کا بھی عام چرچا تھا۔ یہ ناممکن تھا کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے کانوں تک اس مقدس ہستی کے اوصاف حمیدہ کی بھنک نہ پڑتی ان کو اپنی تجارت کی نگرانی کیلئے ایسے ہی ہمہ صفت موصوف شخصیت کی تلاش تھی چنانچہ آپ رضی اللہ عنہا نے حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا کہ اگر آپ میرا سامان تجارت ملک شام تک لے جایا کریں تو دوسرے لوگوں سے دو چند معاوضہ آپ کو دیا کروں گی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا پیغام منظور فرمالیا اور اشیائے تجارت لے کر عازم بصریٰ ہوئے۔
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت داری و سلیقہ شعاری کی بدولت تمام سامان تجارت دوگنے منافع پر فروخت ہوگیادوران سفر سردار قافلہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہمراہیوں کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیا کہ ہر ایک حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا مداح بلکہ جانثار بن گیا۔ جب قافلہ واپس آیا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا میسرہ کی زبانی سفر کے حالات تجارت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمدہ اخلاق کا تذکرہ سن کر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی گرویدہ ہوگئیں اور انہوں نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیج کر نکاح کی درخواست کی جسے رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور فرما لیا۔
چنانچہ شادی کی تاریخ مقرر ہوگئی۔ تاریخ معین پر ابو طالب اور تمام روسائے خاندان جن میں حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ بھی تھے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر آئے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بھی اپنے خاندان کے چند بزرگوں کو جمع کیا تھا چنانچہ ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھا اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 25سال تھی اور سیدہ خدیجہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کی عمر40 برس تھی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اعلان نبوت فرمایا تو سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو یہ پیغام سنایا کیونکہ ان سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدق کا کوئی شخص فیصلہ نہیں کر سکتا تھا اور انہوں نے آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے بعد حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا25 سال تک زندہ رہیں اس مدت میں انہوںنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر قسم کے روح فرسا مصائب کو نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اور جانثاری کا حق ادا کردیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اسلام کی وسعت پذیری سے بے حد مسرت ہوتی تھی اور وہ اپنے غیر مسلم اعزہ و اقارب کے طعن و تشنیع کی پرواہ کئے بغیر اپنے آپ کو تبلیغِ حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست بازو ثابت کررہی تھیں انہوں نے اپنے تمام زر و مال کو اسلام پر نثار کر دیا اور اپنی ساری دولت یتیموں اور بیوائوں کی خبر گیری، بے کسوں کی دستگیری اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کیلئے وقف کردی۔ پر آشوب زمانے میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نہ صرف حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم خیال اور غمگسار تھیں بلکہ ہر موقع اور مصیبت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کیلئے تیار رہتی تھیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یہی ہمدردی، دل سوزی اور جانثاری تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بے پناہ محبت فرماتے تھے اور جب تک وہ زندہ رہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا نکاح نہیں فرمایا۔ آپ رضی اللہ عنہا 10 نبوی بعد بعثت میں ظالمانہ محاصرہ ختم ہونے کے بعد زیادہ دن زندہ نہ رہیں اور 11 رمضان المبارک 10 نبوی کو وفات پائی اور مکہ کے قبرستان میں دفن ہوئیں۔مصائب میں تحمل بہت تھا۔ مشکلات میں حضور کی دلجوئی بہت کرتی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدیجہؓ کی محبت خدا نے مجھے دی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلی اللہ علیہ وسلم کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رضی اللہ عنہا کے آپ رضی اللہ عنہا رضی اللہ عنہا کی خدیجۃ الکبری انہوں نے تھی اور کے بعد
پڑھیں:
اعتدال پسند فقیہ امام شافعی رحمہ اللہ
’’میرا مذہب صحیح ہے مگر اس میں غلطی کا احتمال ہے، دوسروں کا مذہب غلط ہوسکتا ہے مگر اس کی بھی درستی ہوسکتی ہے‘‘ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے، جو ایک انتہائی اعتدال پسند اور متوازن مزاج فقیہ تھے جو انکار پر ضد نہیں کرتے تھے اور نہ ہی اصرار کے ذریعے بات منوانے کے قائل تھے۔
اسلامی فقہ کے ایک اہم ستون امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا پورا نام محمد بن ادریس الشافعی تھا جو 150 ہجری میں سر زمین فلسطین کے علاقہ غزہ میں پیداہوئے، یہ حزن و ملال کا وہ سال تھا جس میں ایک عظیم فقیہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ عالم اسلام کو داغ مفارقت دے گئے تھے۔
امام شافعی ؒ کے والد بچپن ہی میں انہیں یتیمی کے حوالے کر گئے، مگر ان کی بیوہ ماں نے ہمت نہیں ہاری اپنے در یتیم کی ا علیٰ دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ بیوہ ماں اپنے بیٹے کو لے کر عازم مکہ مکرمہ ہوئیں وہیں انہیں پہلے حفظ قرآن کرایا اور پھر ابتدائی تعلیم مکہ ہی میں مکمل کرانے کے بعد ہونہار بیٹے کو مدینہ منورہ لے گئیں جہاں امام شافعی نے امام مالک رحمہ اللہ سے ’’الموطا‘‘ پڑھی اور انہی سے حدیث و فقہ کی تعلیم میں مہارت حاصل کی۔ پھر مدینہ منورہ سے آپ نے مزید علم کے حصول کے لئے عراق کا سفر کیا۔ جہاں امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد امام محمد رحمتہ اللہ علیہ سے علمی استفادہ کیا جس سے ان کے فکرو نظر میں وسعت پیدا ہوئی۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے آنے والے زمانے میں نئی فکر متعارف کرائی جو ’’اصول فقہ‘‘ کی بنیاد پر قائم تھی۔ غربت وافلاس کی زندگی بسر کرنے والے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کو بہت کٹھن حالات سے گزر ناپڑا۔ اصول فقہ کے بانی نے پہلی بار کتاب’’الرسالہ‘‘ مرتب کرکے اس میں اصول فقہ کے قواعد ترتیب دیئے۔ جن میں قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس کوبنیاد بنایا۔ یوں آپ نے فقہ مالکی اور فقہ حنفی کی روشنی میں ایک متوازن راہ ہموار کی جو عقل و نقل کا حسین امتزاج کہلائی۔ امام شافعیؒ نے حدیث کو فقہ کی اساسی دلیل قرار دیتے ہوئے ان کے بغیر قیاس کو ناقص قرار دیا۔ انہوں نے قیاس اور اجماع کو غیر اہم قرار نہیں دیا مگر انہوں نے یہ اضافہ کیا کہ قرآن اور حدیث میں واضح احکام نہ ہونے کی صورت میں قیاس یااجماع کا استعمال درست ہے۔ تاہم اگر امت مسلمہ کسی مسئلے پر متفق ہو تواس پر عمل اجماع کیا جاسکتا ہے۔
امام شافعیؒ کی تصنیف ’’ آلام‘‘ فقہ شافعی کے بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے جس میں انہوں نے گہری بصیرت کے ساتھ اپنے مرتب کئے ہوئے فقہی نظام کوواضح کیا اور جس پر وہ ثابت قدم رہے کہ قرآن و حدیث میں وضاحت و صراحت کی صورت میں کسی بھی مسئلے میں قیاس یا اجماع کا استعمال زیبا نہیں۔
اپنی کتاب’’ آلام‘‘ میں امام شافعی نے نئی فقہی ٹیکنیس کو متعارف کروایا اور ان پر تفصیلی بحث کی۔ اسی طرح نصوص کی تعریف و تشریح میں بھی ایک جدت متعارف کروائی کہ ’’قرآن و حدیث کی ظاہر ی تشریح کی بجائے ان کے حقیقی معانی کو سمجھنا ضروری ہے اور نصوص کی تفہیم کے دوران سیاق و سباق کو مدنظر رکھنا ضروری ہے‘‘ ، فقہ میں اجتہاد کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہر دور کے کے علما ء کو نئے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے اجتہاد کرنا چاہیے کہ اجتہاد کا عمل نئی شرعی حقیقتوں کو سامنے لاتا ہے اور انہیں قرآن و حدیث کے اصولوں کے مطابق حل کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے‘‘ ۔
امام شافعیؒ نے فقہ اور اصول شریعت کے بیچ توازن قائم کیا، ان کا کہنا تھا کہ ’’ فقہ کا مقصد معاشرتی زندگی کو قرآن وسنت کے مطابق چلانا ہے اور اس کے لئے اصول شریعت کا درست اور معتدل استعمال ضروری ہے‘‘ امام شافعیؒ کو راہ حیات میں بے شماردشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ عباسی اقتدارکے شورش زدہ دور میں جی رہے تھے جس میں خلیفہ کے اذن کے بغیر پتہ نہیں ہلتا تھا اور امام دین اسلام میں اعتدال کی راہیں تلاشنے میں مصروف تھے۔ مختلف فقہی مکاتب فکر کی یلغار کا زمانہ تھا اسی دوران خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں ان پر شیعہ بغاوت کی حمایت کا الزام عائد کیا گیا جس کی وجہ سے خلیفہ کے حکم پر امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کوپابند سلاسل کردیا گیا، اس دوران جدید فقہی نظریات کی وجہ سے مالکی اور حنفی فقہا نے امام کو ہدف تنقید بنایا، بغداد اور مصر میں ان کے خلاف نظریاتی محاذ آرائی کے در وا ہوئے ۔ مگر سادہ و فقیرانہ زندگی بسر کرنے والے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اپنے عقائد پر قائم و دائم رہے، ان کی معتدل مسلکی سوچ پھلتی پھولتی اور وسیع تر ہوتی چلی گئی مگر فقہا کی ایک فوج تھی جو حکمرانوںکی آشیر باد کے زعم میں ان سے نبرد آزما تھی، سو وہ مصر کی اور ہجرت کرگئے۔مگر مصائب و آلام نے پھر بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑ ا۔ مصر میں مالکی فقہا نے ان پر شدید اختلافات کے تیرچلانا شروع کر دیئے اسی دوران ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ صاحب فراش ٹھہرے، بیماری سے بہت لڑے مگر جانبر نہ ہوپائے اور 204ہجری میں مصر ہی میں راہی عدم ہوئے اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔