ملزم ارمغان کا مزید 7 دن کا جسمانی ریمانڈ منظور
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
مصطفیٰ عامر قتل کیس کے ملزم ارمغان کو مزید 7 دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔کراچی کی مقامی عدالت میں مصطفیٰ عامر قتل کیس کی سماعت کے دوران وکیل صفائی نے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ گاڑی، لاش اور آلۂ ضرب برآمد ہوچکا ہے ، مزید ریمانڈ کی ضرورت نہیں ہے اس لیے عدالتی ریمانڈ دیا جائے۔اس دوران وکیل سرکار نے کہا کہ ملزم نے برآمد ہر شے پر پاس ورڈ لگایا ہوا ہے، اس سے مزید تفتیش لازمی ہے جب کہ تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزم نے اپنا کال سینٹر کراچی سے اسکردو منتقل کیا اور بعد میں اپنے والد کو بھی اسکردو بلالیا تھا۔پولیس کی ریمانڈ رپورٹ میں کہا گیا کہ ملزم ارمغان نے قتل کے بعد والد کو بتایا تو والد نے روپوش ہونے کا مشورہ دیا۔دورن سماعت جج نے ملزم سے پوچھا کہ پولیس نے مارپیٹ تو نہیں کی؟ اس پر ملزم نے کہا وہ سر نہیں ہلا سکتا ۔ علاوہ ازیں عدالتی حکم پر ملزم کی والدین سے 5 منٹ ملاقات کرائی گئی اور بعد ازاں اسے مزید 7 روز کے جسمانی ریمانڈ پرپولیس کے حوالے کردیا گیا۔یاد رہے کہ مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو اغوا کیا گیا تھا اور پھر ایک ماہ بعد 8 فروری کو پولیس نے مصطفیٰ عامر کی بازیابی کے لیے کراچی کے علاقے ڈیفنس خیابان مومن میں ایک بنگلے پر چھاپہ مارا تھا جس دوران پولیس پر فائرنگ بھی کی گئی تھی اور مقابلے میں ڈی ایس پی سمیت 3 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔پولیس نے ملزم ارمغان کو حراست میں لیا جس نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ اس نے شیراز کے ساتھ مل کر مصطفیٰ کو اسی کی گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر حب لیجا کر جلا دیا تھا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
مصطفٰی عامر قتل کیس: ملزم ارمغان کے والد کو شامل تفتیش کیا جائے، اسپیشل پراسیکیوٹر
مصطفی عامر قتل کیس میں اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار آرائیں نے ڈی آئی جی سی آئی اے، ایس ایس پی اور تفتیشی افسر کے نام خط لکھ کر گائیڈ لائنز جاری کردیں۔
اسپیشل پراسیکیوٹر کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ملزم ارمغان کے والد اور مقتول مصطفی عامر کی والدہ کو شامل تفتیش کیا جائے، ملزم ارمغان اور اس کے ساتھیوں کا تعلق دہشتگردی یا دہشتگردوں کی مالی معاونت کرنے والوں میں ہوسکتا ہے۔
خط کے مطابق ملزم ارمغان منی لانڈرنگ میں بھی ملوث ہوسکتا ہے۔ ملزم ارمغان کا تعلق ملک دشمن عناصر سے ہوسکتا ہے۔ سچائی جاننےکیلئے پیرا ملٹری فورس اور حساس اداروں سے مدد لی جائے۔ ملزم ارمغان کا تعلق منشیات کے بین الاقوامی ڈیلرز سے بھی ہوسکتا ہے۔ ملزم اور مقتول کے دوستوں کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔ دونوں کے دوستوں میں مرد و خواتین، لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں۔ ان سب سے پوچھ گچھ کی جائے، جن کا ملزم یا مقتول سے تعلق رہا ہے۔
ملزم ارمغان کی جائیداد، بزنس، بینک اکاؤنٹس اور ٹریول ہسٹری بھی حاصل کی جائے۔ مقتول مصطفی عامر کے بزنس اور جائیداد اور ٹریول ہسٹری حاصل کی جائے۔ جس موبائل فون سے تاوان کیلئےکال کی گئی اور جس موبائل پر کال ریسیو ہوئی دونوں کا فرانزک کرایا جائے۔
ملزم کے گھر سے برآمد ہونے والا اسلحہ 6/7 رائفلز، سنائپر گن، گولیوں سے بھرے سوٹ کیسز کو کیس پراپرٹی بنایا جائے۔ برآمد ہونے والے 64 لیپ ٹاپس، 3 واکی ٹاکی سیٹ، ڈیجیٹل لاکرز، 2 شناختی کارڈ کو بھی کیس پراپرٹی میں شامل کیا جائے۔ برآمد ہونے والی تمام اشیاء کا فرانزک کرایا جائے۔ یہ اسلحہ ملزم نے کہاں سے خریدا؟ کس سے خریدا معلومات حاصل کی جائیں۔ ڈی ایچ اے کے سیکیورٹی انچارج اور مقامی انٹیلیجنس اداروں کے اہلکاروں کی مدد لی جائے۔
مقامی پولیس سے پوچھا جائے کہ اتنا عرصہ کیوں آنکھیں بند رکھی۔ ملزم کے گھر اور اردگرد کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا فرانزک کرایا جائے۔ مقدمے کے بارے میں سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے مواد کو کیس پراپرٹی بنایا جائے۔
مصطفی کا ارمغان کے گھر آنا، پھر گاڑی کا بلوچستان جانا، جائے وقوعہ سمیت تمام جگہوں کے فوٹوگرافس لئے جائیں۔ ملزم کے مالک مکان سے بھی پوچھ گچھ کی جائے۔ کرائے کا ایگریمنٹ دیکھا جائے کس مد میں بنگلہ کرائے پر دیا گیا۔ رہائشی علاقے میں کمرشل سرگرمیاں کیوں ہوتی رہیں۔
ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے ذولفقار علی آرائیں نے کہا کہ تفتیش میں پراسیکیوشن سے مشاورت جاری ہے، ریمانڈ ختم ہونے پر آج ملزم ارمغان کو پیش کیا جائیگا، جبکہ ملزم شیراز کو جیل حکام پیش کرینگے۔