توہینِ مذہب کے قانون میں بہتری کی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
توہینِ مذہب کے قانون پر اس پہلو سے تو پہلے بھی تنقید ہوتی رہی ہے کہ فرقہ وارانہ تعصبات کی بنیاد پر اس کا غلط استعمال ہوتا ہے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے یہ بات چل رہی ہے کہ کچھ لوگوں نے باقاعدہ ’بلاسفیمی بزنس‘ شروع کیا ہے اور لوگوں کو جعلی مقدمات میں پھنسا کر اپنا کاروبار چمکاتے ہیں، یہ بہت سنگین الزام ہے اور اس پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہے لیکن اس وقت مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس الزام کے سچے یا جھوٹے ہونے سے قطعِ نظر خود توہینِ مذہب کے متعلق پاکستان میں رائج قانون کا اسلامی اصولوں کی روشنی میں جائزہ لے کر اس میں موجود سقم دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کا 16واں باب
سنہ 1860 سے سے رائج قانون کے اس باب میں پہلے 4 دفعات تھیں (295 سے 298 تک) جن کا اطلاق کسی مذہبی گروہ کے جذبات مجروح کرنے، ان کی عبادت گاہ یا قبرستان وغیرہ کو نقصان پہنچانے اور اس طرح کے دیگر جرائم پر ہوتا تھا، سنہ 1927 میں انگریزوں نے اس میں ایک اور دفعہ 295 اے کا اضافہ کرکے کسی کے مذہبی عقائد کی توہین کو بھی قابلِ سزا جرم قرارا دیا، ان پانچوں جرائم پرجرمانے اور قید کی سزائیں تھیں۔
جنرل محمد ضیاالحق نے تین آرڈی نینسوں کے ذریعے اس باب میں درج ذیل دفعات کا اضافہ کیا:
سنہ 1980 میں دفعہ 298-اے: صحابہ کرام، امہات المؤمنین اور اہل بیت کی توہین پر سزائے قید و جرمانہ۔
1982 میں دفعہ 295-بی: قرآن کریم کی بے حرمتی پر سزائے عمر قید۔
1984 میں دفعات 298-بی اور 298-سی: خود کو احمدی کہنے والے قادیانی اور لاہوری گروہوں کے بعض افعال پر سزاے قید و جرمانہ۔
جولائی 1986 میں پارلیمان نے اس باب میں دفعہ 295-سی کا اضافہ کرکے طے کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں بلا واسطہ یا بالواسطہ، صراحتاً یا کنایتاً، گستاخی کرنے والے کو سزائے موت یا سزائے عمر قید دی جائے گی اور ساتھ ہی اس پر جرمانہ بھی عائد کیا جائےگا، یوں اس باب میں دفعات کی تعداد 10 ہوگئی۔
وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ
اکتوبر 1990 میں وفاقی شرعی عدالت نے مقدمہ بعنوان اسماعیل قریشی بنام وفاقِ پاکستان میں قرار دیا کہ اس قانون میں ’یا سزائے عمر قید‘ کے الفاظ حذف کیے جائیں کیونکہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ توہینِ رسالت کی سزا حد کے طور پر موت ہے۔ نیز عدالت نے حکم دیا کہ چونکہ دیگر انبیائے کرام علیہم السلام میں سے کسی کی شان میں گستاخی پر بھی اسلامی شریعت کی رو سے یہی سزا ہے، اس لیے حکومت اس قانون میں ایک ذیلی شق کا اضافہ کرکے اس کی تصریح کرلے۔ 34 سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی حکومت نے وفاقی شرعی عدالت کے ان دونوں احکامات پر عمل نہیں کیا۔ تاہم عدالتی مہلت ختم ہونے کے بعد دفعہ 295-سی میں ’یا سزاے عمر قید‘ کے الفاظ آئین کی رو سے غیر مؤثر ہوگئے ہیں اور اب اس جرم پر سزائے عمر قید نہیں دی جاسکتی، اور صرف سزائے موت ہی دی جاسکتی ہے۔ البتہ دفعہ 295-سی میں مقررہ سزا کا اطلاق اب بھی صرف حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی پر ہی ہوتا ہے اور دوسرے انبیائے کرام کی شان میں گستاخی پر اس سزا کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ قانون میں اضافے کا اختیار پارلیمان کے پاس ہے جس نے ابھی تک اس شق کا اضافہ نہیں کیا۔
اندرونی تضادات
سوال یہ ہے کہ اگر شرعاً تمام انبیائے کرام کا احترام یکساں واجب ہے اور ان میں کسی کی بھی شان میں گستاخی کی سزا بھی یکساں ہے، تو پھر پاکستان کے قانون میں یہ سزا یکساں کیوں نہیں ہے؟ دیگر انبیائے کرام کی توہین پر سزائے موت کے بجائے زیادہ سے زیادہ 10 سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح اگر شرعاً توہینِ قرآن کے جرم اور توہینِ رسالت کے جرم میں جرم کی نوعیت یا سزا کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے، تو قرآن کی توہین پر سزائے موت کے بجائے عمر قید کی سزا کیوں ہے؟ یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ مجموعہ تعزیراتِ پاکستان میں ’توہینِ خدا‘ پر کوئی خصوصی سزا نہیں ہے، البتہ توہینِ مذہب کے عمومی قانون (دفعہ 295-اے) کے تحت اس پر 10 سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔
نیت کے بغیر توہین
توہینِ قرآن کےلیے تو قانون مجرمانہ فعل (actus reus) کے ساتھ مجرمانہ قصد (mens rea) کا ثبوت بھی ضروری قرار دیتا ہے، لیکن توہینِ رسالت اور توہینِ صحابہ، توہینِ امہات المؤمنین اور توہینِ اہل بیت کے متعلق دفعات اور امتناعِ قادیانیت کی دفعات میں مجرمانہ قصد کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا توہین کے قصد کے بغیر توہین کا جرم متصور ہوسکتا ہے؟ کیا ضروری نہیں ہے کہ جو قول یا فعل بظاہر توہین آمیزلگتا ہے، اس کی ممکن حد تک بہتر تاویل کی جائے، اور سزا صرف اسی وقت دی جائے جب فعل کی کوئی بہتر تاویل ممکن نہ ہو؟
توبہ کے بعد سزا کا سقوط
فقہائے کرام نے تصریح کی ہے کہ اگر ارتداد کا ملزم جرم سے انکاری ہو، تو اس کے انکار کو قبول کیا جائےگا، خواہ اس کے فعل پر اس کے خلاف گواہ موجود ہوں کیونکہ اس کے انکار کو اس کی توبہ سمجھا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا توہین کی سزا بھی توبہ سے ساقط ہوسکتی ہے؟
شرعی عدالت نے اسماعیل قریشی کیس میں توہین کے جرم کے لیے قصد کی ضرورت و اہمیت کے علاوہ توبہ کی صورت میں سزا کے سقوط پر بھی بحث کی ہے۔ عدالت کے سامنے 3 مختلف مکاتبِ فکر کے جید علمائے کرام، مفتی غلام سرور قادری (بریلوی)، مولانا سحبان محمود (دیوبندی) اور حافظ صلاح الدین یوسف (اہل حدیث) نے یہ مؤقف اختیار کیاکہ توبہ سے یہ سزا ساقط ہوجائے گی، اور عدالت نے ان علمائے کرام کے مؤقف کا ذکر بھی کیا، لیکن اپنے فیصلے کے آخر میں اس موضوع پر کوئی حکم جاری نہیں کیا۔
شرعی عدالت کا فیصلہ یہ فرض کرتا ہے کہ توہینِ رسالت ایک مستقل جرم ہے جس پر شریعت نے حد کے طور پر سزائے موت مقرر کی ہے، لیکن عدالت نے اس سوال کا کوئی متعین جواب نہیں دیا کہ اگر یہ جرمِ حد ہے، تو اس کے ثابت کرنے کےلیے وہی معیارِ ثبوت کیوں نہ ہو جو پاکستان میں رائج حدود قوانین کے تحت سرقہ، حرابہ، شربِ خمر، زنا اور قذف کی حدود کےلیے ہے۔ یعنی ملزم کا عدالت میں آزادانہ اقرار یا ایسے دو عاقل، بالغ، مسلمان مرد گواہوں کی گواہی جو تزکیۃ الشہود کے بعد قابلِ اعتماد ثابت ہوئے ہوں؟ اگر دیگر حدود سزائیں قرائن یا واقعاتی ثبوتوں (circumstantial evidence) کی بنیاد پر نہیں دی جاسکتیں، تو یہی اصول اس سزا کے لیے کیوں نہیں ہے؟
شرعی عدالت کے فیصلے میں ارتداد کے جرم اور سزا پر بھی بحث ہوئی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر توہین کا ملزم پہلے ہی سے غیرمسلم ہو، تو اس پر ارتداد کے احکام کا اطلاق کیسے ہوسکتا ہے؟ حنفی فقہائے کرام اسے حد کے بجائے ’سیاسہ‘ کے اصول کے تحت لا کر قرار دیتے ہیں کہ چونکہ غیر مسلم کے اس فعل سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے، اس لیے عدالت اسے مناسب سزا دے سکتی ہے اور بعض سنگین صورتوں میں قانون میں اس پر سزائے موت کو بھی مقرر کیا جاسکتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک اس فعل کے قانونی اثرات کے تعین کےلیے اس امر کا تعین ضروری ہے کہ اس جرم سے قبل ملزم مسلمان تھا یا غیر مسلم؟
حنفی فقہا کا مؤقف کیوں نظر انداز کیا گیا؟
شرعی عدالت کے فیصلے کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ عدالت نے فقہائے احناف کے مؤقف کا اس طرح تفصیلی اور تحلیلی تجزیہ نہیں کیا جو اس کا حق تھا۔ عدالت نے زیادہ تر انحصار حنبلی فقیہ امام ابن تیمیہ کی کتاب الصارم المسلول اور مالکی فقیہ قاضی عیاض کی کتاب الشفا پر کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کتابوں میں بھی حنفی مؤقف بہت مناسب طریقے سے پیش کیا گیا ہے لیکن بوجوہ عدالت نے اس مؤقف کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ عدالت نے اس موضوع پر مشہور حنفی فقیہ علامہ محمد امین ابن عابدین الشامی کے اہم ترین رسالے کو بھی مدِّ نظر نہیں رکھا، باوجود اس کے کہ مفتی غلام سرور قادری نے علامہ شامی کے اس رسالے کا تذکر بھی کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ علامہ شامی کا یہ رسالہ اس موضوع پر قانونی تجزیے کا شاہکار ہے، اس رسالے میں علامہ شامی نے دکھایا ہے کہ کیسے ایک حساس مسئلے کو متعین سوالات کی صورت میں پیش کرکے ان کے جوابات تک یوں پہنچا جاسکتا ہے کہ تمام جوابات آپس میں ہم آہنگ ہوں اور بحث کے ہر موڑ پر اصولی تضاد سے بچا جاسکے، اور یہ سب کچھ ایک بہترین علمی اسلوب میں ہو، اور جن فقہائے کرام کے مؤقف سے اختلاف کا اظہار بھی ہو، تو وہ پورے ادب و احترام کے ساتھ ہو۔ اس ناچیز کی رائے میں علامہ شامی کا یہ رسالہ پاکستان کے قانون میں موجود تضادات کا بہترین حل پیش کرتا ہے۔ اس رسالے کا مرکزی مقدمہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت کے بغیر آپ پر ایمان کا دعویٰ ناقابلِ قبول ہے، لیکن آپ پر ایمان اور آپ کے ساتھ محبت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آپ کے احکام کی اطاعت اور آپ کے اسوۂ حسنہ کی اتباع کی جائے: أن المحبة شرطها الاتباع، لا الابتداع (محبت کی شرط اتباع ہے، نہ کہ اپنی جانب سے دین میں اضافہ)۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے علمائے کرام خود اس قانون کے جائزے اور ان مسائل کے حل کےلیے مل بیٹھ کر اس قانون میں بہتری کی تجاویز سامنے لے آئیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔
wenews توہین مذہب علمائے کرام قانون میں بہتری وفاقی شرعی عدالت وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: توہین مذہب قانون میں بہتری وفاقی شرعی عدالت وی نیوز وفاقی شرعی عدالت شان میں گستاخی سوال یہ ہے کہ انبیائے کرام پر سزائے موت پاکستان میں عدالت نے اس علامہ شامی قید کی سزا کی شان میں دی جاسکتی کے قانون عدالت کے نہیں کیا کا اطلاق کا اضافہ کی توہین نہیں ہے کے ساتھ مذہب کے ہے اور کے بعد کے جرم کہ اگر
پڑھیں:
دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا یہ انسانیت کے دشمن ہوتے ہیں، علامہ شبیر میثمی
ایک بیان میں ایس یو سی کے کے مرکزی سیکرٹری جنرل نے کہا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے دہشت گرد ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردانہ کاروائیاں کرکے اپنے ہونے کا یقین دلا رہے ہیں لیکن ان دہشت گردوں کی بزدلانہ کاروائیوں سے عوام کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ شبیر حسن میثمی کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں دہشت گردوں کی جانب سے بلوچستان میں بولان کے علاقے میں جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کا حملہ انتہائی افسوسناک عمل ہے، ہم اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا یہ انسانیت کے دشمن ہوتے ہیں، رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں معصوم روزے دار مسافروں پر حملہ انتہائی سفاکیت ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، گزشتہ کچھ عرصے سے دہشت گرد ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردانہ کاروائیاں کرکے اپنے ہونے کا یقین دلا رہے ہیں لیکن ان دہشت گردوں کی بزدلانہ کاروائیوں سے عوام کے حوصلے پست نہیں ہوں گے، ہم حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ملک بھر میں قیام امن کے لیے اپنا موثر کردار ادا کریں تاکہ آئندہ دہشت گردی کے ان دلخراش واقعات سے بچا جا سکے۔