کاروباری شخصیات کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران ایرانی صدر نے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا جو کرنا چاہتا ہے کرے، ایسی بات چیت کو قبول نہیں کریں گے، جو دھمکیوں کے تحت کی جائے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے امریکا کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے دو ٹوک اعلان کیا ہے کہ امریکا ہمیں احکامات اور دھمکیاں دے، یہ قابل قبول نہیں، میں امریکا سے بات چیت نہیں کروں گا۔ ایرانی صدر نے کاروباری شخصیات کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا جو کرنا چاہتا ہے کرے، ایسی بات چیت کو قبول نہیں کریں گے جو دھمکیوں کے تحت کی جائے۔ یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کو جوہری معاہدے پر بات چیت کیلئے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط لکھا تھا۔ خط میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایران سے نمٹنے کے دو ہی طریقے ہیں، ایک فوجی طور پر، یا پھر ڈیل کریں۔ ٹرمپ نے خط میں یہ بھی کہا تھا کہ میں میں ڈیل کو ترجیح دوں گا، ایران کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتا۔

امریکی صدر کی جانب سے بات چیت سے متعلق خط کے بعد ایرانی سپریم لیڈر نے بھی گزشتہ دنوں ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ بدمعاشی کرنے والے کچھ ممالک مسائل حل کرنے نہیں بلکہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے بات چیت پر زور دیتے ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ ایران ایسے ممالک کے مطالبات قطعی تسلیم نہیں کرے گا اور اپنے میزائل پروگرام کے خاتمے کے مطالبات بھی تسلیم نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ ایرانی وزیر خارجہ نے بھی دباؤ کے نتیجے میں امریکا کے ساتھ کسی بھی بات چیت کے امکانات کو مکمل مسترد کیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ایرانی صدر قبول نہیں بات چیت کے ساتھ

پڑھیں:

پاک امریکا تعلقات میں نیا موڑ آیا ہے جس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، ڈاکٹر ماریہ سلطان

ساؤتھ ایشین اسٹریٹجک اسٹیبلٹی انسٹیٹیوٹ کی چیئر پرسن اور ماہر امور خارجہ ڈاکٹر ماریہ سلطان کا کہنا ہے کہ پاک امریکا حالیہ تعلقات میں جدت آئی ہے اور یہ پاکستان کے لیے ایک موقع ہے اور یہ اب ہم پر ہے کہ ہم کس طرح اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔

وی ایکسکلوسیو میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ پہلی دفعہ امریکی انتظامیہ نے پاکستان کا شکریہ ادا کر کے یہ عندیہ دیا ہے کہ پاکستان مسئلے کا حل بھی بن سکتا ہے جبکہ بائیڈن انتظامیہ کے نزدیک پاکستان خود ایک مسئلہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں امریکا پاکستان کے نیوکلیئر نظام کی حفاظت سے مطمئن

واضح رہے کہ حال ہی میں 2021 ایبی گیٹ حملے میں امریکا کو مطلوب ملزم شریف اللہ عرف جعفر کو پاکستانی سیکیورٹی اداروں نے گرفتار کر کے امریکا کے حوالے کیا تو امریکی صدر نے کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے کردار کی تعریف کی۔ اس سے عالمی طور پر ایک ایسا منظر نامہ سامنے آیا جیسے پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات اور خاص طور پر دفاعی تعاون کے معاملے میں ایک نیا موڑ آیا ہے۔ اس سے قبل ہم نے دیکھا کہ امریکا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اسپوکس پرسن پاکستان کے انتخابی عمل اور پاکستان میں جمہوریت پر بھی تبصرے کرتے رہے جسے پاکستانی دفتر خارجہ نے مسترد کیا اوراس کے بعد پاکستان کے میزائل پروگرام پر عالمی پابندیاں بھی لگائی گئیں۔

دوسری طرف پاکستان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصبِ صدارت سنبھالنے سے بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں۔ اور ہم نے دیکھا کہ امریکا میں لابنگ کے ذریعے سے پاکستان کا منفی چہرہ سامنے لانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ لیکن 6 مارچ کو صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کا شکریہ ادا کیا جانا پاک امریکا تعلقات کی بہتری کا اشارہ دیتا ہے۔

اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے ماہر امور خارجہ ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان ملزمان کی حوالگی (ایکسٹراڈیشن) کا کوئی معاہدہ تو نہیں لیکن امریکا اور افغانستان کے درمیان یہ معاہدہ ہے اور کابل ایبی گیٹ حملے کا ملزم داعش کا لیڈر شریف اللہ ایک افغان شہری ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جس بین الاقوامی قانون کے تحت شریف اللہ کو امریکا کے حوالے کیا اس کے پیچھے سلامتی کونسل کی قراردادیں 1373 اور 1267 ہیں۔ پاکستان نے شریف اللہ کی حوالگی کے لیے دہشتگردی کے خلاف اقوام متحدہ کا فریم ورک استعمال کیا ہے جس کے مطابق ان قراردادوں پر دستخط کرنے والے ممالک بین الاقوامی طور پر قرار دیے گئے دہشتگردوں کو پناہ فراہم نہیں کر سکتے۔

ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ بنیادی طور پر دوحہ معاہدے میں یہ کہا گیا تھا افغان سرزمین دوسرے ملکوں کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی تو اسی تناظر میں پاک امریکا فوجی تعاون آگے بڑھنے میں مدد ملی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ریپبلیکن جماعت کے ساتھ دیرینہ تعلقات رہے ہیں اور پاکستان یہی چاہتا ہے کہ پاکستان کے تحفظات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔

پاکستان کے تحفظات کیا ہیں؟

ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ پاکستان کا مؤقف یہی رہا ہے کہ امریکا نے جس طرح سے افغانستان سے انخلا کیا اور جدید امریکی ہتھیار جو وہاں رہ گئے وہ ٹھیک نہیں ہوا اور صدر ٹرمپ نے بھی اپنی تقریر میں یہی بات کی۔ پاکستان یہی چاہتا ہے کہ پاکستان بین الاقوامی دہشتگردی کا مرکز نہ بنے اور ہم یہاں پاکستان کی سرزمین میں کسی دہشتگرد کو پناہ دینے کو تیار نہیں۔

کیا پاک امریکا تعلق امریکا بھارت تعلقات کو متاثر کر سکتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ بھارت کا امریکا کے ساتھ تزویراتی معاہدہ ہے اور بھارت امریکا کا تزویراتی شراکت دار ہے۔ پاک امریکا دفاعی تعاون مضبوط ہونے سے بھارت پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا لیکن ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت اور امریکا کے درمیان جو ’بیکا کم کاسا ایس ٹی اے ون‘ جیسے معاہدے ہیں، ان معاہدوں کے تحت بھارت پر کچھ وضاحتیں لازم ہو گئی تھیں جو وہ بائیڈن انتظامیہ کے تحت نہیں کرتا رہا۔ اب ٹرمپ انتظامیہ بھارت سے کہے گی کہ وہ ’میک اِن انڈیا‘ تحت امریکا سے ٹیکنالوجی بھی خریدیں اور امریکی دفاعی صنعت کو وہ اسپیس بھی دیں جو ان معاہدوں کے تحت انہیں دینی تھی۔ یہ چیلنج بھارت کے لیے ضرور آئے گا۔

صدر ٹرمپ دو طرفہ تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں

ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ صدر ٹرمپ کثیرالجہتی کی بجائے دو طرفہ تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ آپ ان کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ اگر آپ امریکا کی اندرونی سیاست کو دیکھتے ہیں تو صدر ٹرمپ کا فوکس یہی نظر آ رہا ہے کہ وہ امریکا کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بطور صدر امریکا وہ نئی جنگوں کے لیے اپنے صدارتی اختیارات استعمال کر سکتے تھے لیکن اس کے برعکس امریکا ماضی میں جہاں جہاں دوسرے ملکوں میں جنگوں میں ملوث رہا صدر ٹرمپ وہاں سے انخلا چاہتے ہیں، ماضی عراق، شام، پاکستان کے لوگوں سے جو وعدے کیے گئے تھے کہ جو کوئی امریکا یا سی آئی اے کو مدد فراہم کرے گا انہیں ویزے دیے جائیں گے تو امریکا نے اب وہ مراعات ختم کی ہیں۔

پاکستان کس طرح سے موجودہ صورتحال سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے؟

ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ صدر ٹرمپ کا فوکس امریکا کی تجارت کو آگے لے کر جانا ہے اور اگر پاکستان کے ساتھ کوئی تجارتی معاہدات ہوتے ہیں تو یہ پاکستان اور امریکا دونوں کے لیے خوش آئند ہوگا۔ ہمارے لیے چیلنج یہ ہو گا کہ ہم امریکا میں اپنے کوٹہ بیسڈ سسٹم میں وسعت لے کر آئیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں افغانستان کے اندر رہ جانے والے امریکی ہتھیاروں کے حوالے سے بات چیت کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی بچوں کے امریکا میں تعلیم حاصل کرنے کے امکانات بھی روشن ہوئے ہیں۔

’ٹرمپ انتظامیہ سوشل انجینیئرنگ پر یقین نہیں رکھتی‘

ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے برخلاف ڈیموکریٹس سوشل انجینیئرنگ پر یقین رکھتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے دنیا بھر کے ممالک میں 700 ارب ڈالر سوشل انجینیئرنگ میں صرف کیے ہیں۔ ڈیموکریٹس یہ سمجھتے ہیں کہ اگر امریکی مفادات کو آگے لے کر جانا ہے تو اُس کے لیے ہمیں مختلف ممالک کے اندر مقامی سطح کی مزاحمت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ یہ سمجھتے ہیں کہ ماضی میں سی آئی اے نے سوشل انجینیئرنگ کے حوالے سے اگر ایسے کام کیے ہیں تو یہ کسی ریاست کا کام نہیں ہے۔ پہلے اقدام کے طور پر اُنہوں نے ایسے تمام تارکین وطن جو شام، عراق یا افغانستان میں امریکہ کے لیے کام کرتے رہے ہیں ان کے ویزوں پر پابندی لگائی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ امریکا آنا ہے تو تعلیم اور سرمایہ کاری کے لیے آئیں۔

ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ اس سے قبل کیری لوگر برمن ایکٹ کے تحت کہا گیا کہ اگر پاکستان اور افغانستان کے اندر امریکا کی شراکت داری کو بڑھانا ہے تو اُس کے لیے امریکا پاکستان کے اندر 22 شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ یہ پیسے پاکستانی حکومت کو نہیں دیے جائیں گے بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ذریعے سے یہ پیسے یہاں مختلف افراد کو دیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں امریکی قومی سلامتی مشیر کا اسحاق ڈار کو ٹیلیفون، دہشتگردی کے خلاف اقدامات پر صدر ٹرمپ کی جانب سے شکریہ

انہوں نے کہا کہ اسی کیری لوگر ایکٹ کے تحت جارج سورس کو فنڈنگ کی گئی جو یہاں لاہور میں رہتے بھی رہے اور اسی ایکٹ کے تحت پاکستان کو 36 ملین ڈالر دیے گئے جبکہ آپ کو ملے صرف 11 ملین ڈالر، 24 ملین ڈالر کا حساب ہی نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ جب ایسے معاملات پر جواب طلبی کر رہے ہیں تو اس سے بہت ساری اور چیزیں بھی کھلیں گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews افغان دہشتگردی گرفتار امریکی صدر پاک امریکا تعلقات ڈونلڈ ٹرمپ شہباز شریف وزیراعظم پاکستان وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • امریکا نے جوکرنا ہے کرے، بات کروں گا نہ دھمکیاں قبول ہیں، ایرانی صدر
  • امریکا جو کرنا ہے کرے، بات نہیں کروں گا، دھمکیاں قبول نہیں: مسعود پزشکیان
  • امریکا نے جو کرنا ہے کرے، بات کروں گا نہ دھمکیاں قبول ہیں: ایرانی صدر
  • جو کرنا ہے کر لو – ایران کا ٹرمپ کو دوٹوک جواب
  • پاک امریکا تعلقات میں نیا موڑ آیا ہے جس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، ڈاکٹر ماریہ سلطان
  • ایلون مسک: ایک کاروباری یا ڈکٹیٹر؟
  • افغانستان کی وجہ سے پاکستان امریکی ریڈار پر ہے‘ ڈاکٹرعادل
  • شریعت کے خلاف کوئی قانون قابل قبول نہیں ہے، مولانا ارشد مدنی
  • ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکا سے مذاکرات کے دباﺅ قبول کرنے سے انکار کردیا