کے پی میں سینیٹ الیکشن نہ ہونے کی ذمہ دار پی ٹی آئی، آرٹیکل 6 نہیں لگا رہے، وزیر قانون
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
منگل کو 16 نکاتی ایجنڈے کے تحت سینیٹ اجلاس چیئرمین سید یوسف رضاگیلانی کی صدارت میں ہوا۔ ایجنڈے میں 2 توجہ دلاؤ نوٹسز شامل تھے، اجلاس میں زیادہ تر قائمہ کمیٹیوں کی رپورٹس پیش کی گئیں۔
سینیٹ اجلاس میں وفاقی وزیرقانون کاکہناہے خیبرپختونخوا میں سینیٹ الیکشن نہ ہونے کی ذمے دار پی ٹی آئی حکومت اور صوبائی اسمبلی کا اسپیکرہے۔
سینیٹر عبدالقادر نے کہا بجلی ایک یونٹ 7 روپے میں بنتاہے جوعوام کو47 روپے کا دیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے کہا آج اس ایوان کا ایک پارلیمانی سال مکمل ہوا لیکن ابھی تک یہ ایوان مکمل نہیں۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے شبلی فراز کو جواب دیتے ہوئے کہا اس ایوان کی کارروائی اورتشکیل قانون کے مطابق ہے۔ حکومت نے سیاسی بردباری اور استحکام کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آرٹیکل 6 کا بہترین کیس 22 اپریل 2022 کو بنتا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کو جس طرح روکنے کی کوشش کی گئی وہ شرمناک تھی۔ پشاور ہائیکورٹ نے مخصوص نشستوں پر حلف لینے کا آرڈر دیا، سیاسی وجوہات کی وجہ سے مخصوص نشستوں پر کے پی اسمبلی میں حلف نہیں لینے دیا گیا۔
بڑی تعداد اس وقت بچوں کی کیمبرج تعلیم اے لیول او لیول حاصل کررہی ہے، حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ پورے ملک میں یکساں تعلیم ہونی چاہیے۔ آئندہ سال سی ایس ایس امتحان میں تبدیلی نظر آئے گی۔
ایوان بالا اجلاس میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے قرارداد پیش کرنے کی کوشش کی تاہم پریذائیڈنگ افسر عرفان صدیقی نے انہیں روکتے ہوئے کہا کہ رولز کے مطابق چلیں۔ شبلی فراز نے کہا کہ قرارداد پہلے سیکریٹریٹ میں جمع کرائیں گے، گارنٹی دیں کہ یہ قرارداد ایجنڈے پر آئے گی؟ عرفان صدیقی نے کہا کہ اس کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی۔
پی ٹی آئی ارکان نے وزیرقانون کی تقریر کے دوران شورشرابہ کیا۔ سابق سینیٹر مشتاق احمد کے بڑے بھائی کی وفات پر ایوان میں فاتحہ خوانی کی گئی۔ وزیر مملکت شیزہ فاطمہ خواجہ نے وقفہ سوالات میں جواب دیتے کہا یو ایس ایف فنڈ کے تحت پسماندہ، دیہی اور دور دراز علاقوں میں ٹیلی کمیونیکیشن خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔
ساڑھے تین سال میں کے پی میں مختلف منصوبوں میں ساڑھے 9ارب روپے تقسیم کیے گئے۔ مختلف قائمہ کمیٹیوں کی رپورٹیں ایوان بالا میں پیش کردی گئیں۔ اجلاس غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق 11مارچ کو سینیٹ کا پارلیمانی سال مکمل ہوگیا ۔ ایک پار لیمانی سال کے دوران 115 دن اجلاس چلایا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی سے سینیٹ کو 25 بل بھجوائے گئے، سینیٹ میں ایک سال میں 14بل متعارف کرائے گئے، پارلیمانی17 قراردادیں منظور کی گئیں، ایوان میں 10آرڈنینس پیش کیے گئے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سویلینز کا ملٹری ٹرائل: آرٹیکل 245 کے تحت بھی فوج کو جوڈیشل اختیار حاصل نہیں، وکیل حامد خان کا موقف
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی آئینی بینچ سماعت کررہا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ سماعت پر پاکستان کی تاریخ سے دلائل دیتے ہوئے مارشل لا اور ملٹری کورٹس کی تاریخ کا بتایا، راولپنڈی بار کیس میں فوجی عدالتوں سے متعلق 21ویں ترمیم چیلنج کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: آئینی بینچ نے وزارت دفاع سے سویلینز کے اب تک ہونے والے ملٹری ٹرائلز کی تفصیلات طلب کرلیں
حامد خان کا موقف تھا کہ کسی بھی حالات میں سویلینز کو اتنے بڑے پیمانے پر فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں کیا جاسکتا، فوجی عدالتیں آئینی ترمیم کے بغیر قائم نہیں ہوسکتیں، فوجی عدالتوں کے حوالے سے آئینی ترمیم پر بھی اصول طے شدہ ہیں۔
حامد خان کے مطابق فوجی عدالتوں کے حوالے سے آئینی ترمیم مخصوص مدت کیلئے ہوسکتی ہے، اس صورت میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا حق بھی دیا جانا ضروری ہے لیکن موجودہ حالات میں ایسی کوئی صورتحال نہیں۔
مزید پڑھیں: آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کو فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی
جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد فوجی عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف اپیل کہاں ہوسکتی ہے، حامد خان بولے؛ ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی جاسکتی ہے، مگر اسکا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے، فوج ایگزیکٹو کا حصہ ہے جو عدالتی اختیارات استعمال نہیں کرسکتی۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کو ایک طرف رکھیں تو آئین میں فوجی عدالتوں کی گنجائش نہیں، ماضی میں 1973 کے آئین سے پہلے کے آئین میں گنجائش تھی، 10ویں ترمیم میں آئین کا آرٹیکل 245 شامل کیا گیا، جس کے تحت بھی فوج کو جوڈیشل اختیار حاصل نہیں۔
مزید پڑھیں: سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری
وکیل حامد خان کا موقف تھا کہ بنیادی انسانی حقوق اور بنیادی سول حقوق دونوں برابر ہیں، آئین کی کوئی بھی شق بنیادی حقوق واپس نہیں لے سکتی،
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی بینچ حامد خان سپریم کورٹ سیویلینز لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملٹری ٹرائل