Express News:
2025-03-12@08:12:19 GMT

فل اسٹاپ

اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT

ملک کے دو اہم صوبے کے پی کے اور بلوچستان گزشتہ چند ماہ سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں، رمضان المبارک کا مقدس و بابرکت مہینہ شروع ہو چکا ہے لیکن دہشت گردوں نے جو خود کو اسلام کا داعی قرار دیتے ہیں اس ماہ مقدس کے احترام اور تقدس کا بھی خیال نہ رکھا اور اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

گزشتہ منگل کو عین افطار کے وقت جب روزہ دار بنوں بازار میں افطاری خرید رہے تھے اور لوگوں کا جم غفیر وہاں موجود تھا تو ملحقہ سیکیورٹی کی کینٹ چھاؤنی کی دیوار سے بارود کی بھری ہوئی دو گاڑیاں ٹکرا دیں جس سے قریبی مسجد بھی شہید ہو گئی۔ دہشت گرد عناصر کا اصل ٹارگٹ کینٹ کے اندر داخل ہو کرکارروائی کرنا تھا لیکن ہمارے بہادر سیکیورٹی اہلکاروں نے ان کی کوشش کو ناکام بناتے ہوئے تمام دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا، فائرنگ کے دو طرفہ مقابلے میں 5 فوجی جوان بھی جام شہادت نوش کر گئے، دہشت گردوں کے اس حملے میں مسجد کے علاوہ آس پاس کے بعض مکانات کو بھی نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں عین افطاری کے موقع پر 13 افراد شہید اور 30 سے زائد زخمی ہوگئے۔

 آئی ایس پی آر کے مطابق تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ سے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ بنوں حملے میں افغان شہری براہ راست ملوث تھے اور اس کی منصوبہ بندی افغانستان میں پناہ گزین خوارج کے سرغنہ کر رہے تھے۔ پاکستان کی جانب سے حکومتی سطح پر افغان طالبان حکومت سے بار بار یہ گزارش کی گئی ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔

اس کے باوجود افغانستان کی طالبان حکومت نے غیر سنجیدہ طرز عمل اختیار کر رکھا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے پے در پے واقعات کے تانے بانے افغانستان میں موجود طالبان کے مختلف گروپوں سے ملتے ہیں۔ بنوں واقعے کی ذمے داری بھی ایک ایسے ہی گروپ کی طرف سے قبول کرنے کی اطلاعات ہیں جس کا تعلق کالعدم حافظ گل بہادر گروپ سے بتایا جاتا ہے۔ اس گروپ نے ماضی میں بھی ایسی کئی کارروائیاں کی ہیں۔ بنوں میں اس سے قبل بھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہو چکے ہیں، جولائی 24 میں خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی سپلائی ڈپو کے مرکز سے ٹکرا دی تھی۔ دسمبر 2022 میں بنوں چھاؤنی میں دھماکے اور فائرنگ کے واقعات رونما ہوئے تھے۔ یہ تسلسل اب بنوں چھاؤنی پر دوسرا حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بنوں چھاؤنی کے دورے کے دوران پاک فوج کے اس عزم کا اظہار کیا کہ اس افسوس ناک سانحے کے منصوبہ سازوں اور ان کے سہولت کاروں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ انھوں نے واضح کیا کہ شرپسند خوارج خواہ کہیں بھی چھپے ہوں انھیں قانون کی گرفت میں لایا جائے گا۔ آرمی چیف نے یہ بھی نشان دہی کی کہ دہشت گردوں کے پاس سے جو اسلحہ برآمد ہوا ہے اس کے بارے میں شواہد ملے ہیں کہ وہ افغان سرزمین سے حاصل کیا گیا ہے۔

 گزشتہ دو عشروں سے ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی کے عفریت نے جو پنجے گاڑے ہوئے ہیں اس کی بیخ کنی کے لیے پاک فوج کے بہادر افسر و جوانوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے جو پوری قوم کے لیے باعث فخر ہے۔ ہمارے خفیہ اداروں کی کارکردگی بھی مثالی رہی ہے۔ لیکن دہشت گردوں کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں جہاں سے ان کی سہولت کاری کی جاتی ہے۔ بنوں چھاؤنی حملے میں افغان ساختہ اسلحے کا ملنا اس حقیقت کا بین ثبوت ہے۔

کہا جاتا ہے کہ یہ وہ اسلحہ ہے جو امریکا اور اس کے نیٹو اتحادی ممالک نے افغانستان ن ہی میں چھوڑ دیا ہے۔ افغان طالبان اسی اسلحے کا استعمال کر رہے ہیں اور پاکستان میں موجود ان کے سہولت کار ان کی مدد سے دہشت گردانہ کارروائیاں کرکے پاکستان کے امن کو تباہ کر رہے ہیں۔ ہم من حیث القوم ہر بڑے واقعے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف نئے عزم و جذبے کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں جو بلاشبہ ہمارے یقین کی علامت ہے۔ صورت حال کی نزاکت کا تقاضا ہے کہ ایسے عملی اقدامات اٹھائے جائیں کہ فتنہ الخوارج کو دہشت گردی کا موقع نہ مل سکے۔ ان کے بڑھتے ہوئے قدموں کے فل اسٹاپ لگ جائے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دہشت گردوں کے دہشت گردی کے بنوں چھاؤنی

پڑھیں:

دہشت گردی کے سائے میں جکڑا پاکستان

دہشت گردی ایک مہلک ناسور ہے جو انسانی معاشروں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ یہ نہ صرف افراد کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتی ہے بلکہ ایک پُرامن اور ترقی یافتہ سماج کی تشکیل میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کسی ایک ریاست کا معاملہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کا مسئلہ ہے۔ اگر قرآنِ مجید، فلسفہ، اور تاریخ کے تناظر میں اس مسئلے کا جائزہ لیا جائے تو اس کی جڑیں انسانی نافرمانی، ظلم، ناانصافی اور اخلاقی زوال میں نظر آتی ہیں۔

قرآنِ کریم ظلم، فساد اور ناحق قتل و غارت کی سخت مذمت کرتا ہے۔ سورۃ المائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جس نے کسی ایک انسان کو بغیر کسی وجہ کے قتل کیا، گویا اُس نے پوری انسانیت کو قتل کردیا، اور جس نے کسی ایک جان کو بچایا، گویا اُس نے پوری انسانیت کو بچایا۔‘‘ (المائدہ: 32)۔

یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ ایک بے گناہ جان لینا پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے، جبکہ ایک جان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے برابر ہے۔

فلسفیانہ نقطۂ نظر سے، دہشت گردی کے اسباب و علل کا گہرا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ یہ مسئلہ محض مذہبی یا نظریاتی نہیں بلکہ اس کے پیچھے نفسیاتی، سماجی اور سیاسی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ سقراط کا کہنا تھا: ’’جہالت سب سے بڑا ظلم ہے، اور جب یہ ظلم طاقتور کے ہاتھ میں آجائے تو فساد کو جنم دیتا ہے۔‘‘ یہی اصول دہشت گردی پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اکثر دہشت گردی کے پیچھے جہالت، انتقام اور سماجی ناانصافی جیسے عناصر ہوتے ہیں۔ جب کسی قوم یا گروہ کے ساتھ ناانصافی کی جاتی ہے، تو ان کے اندر انتقامی جذبات پیدا ہوتے ہیں اور وہ تشدد کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔

پاکستان کو دہشت گردی کے خطرے کا سامنا 1980 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کے بعد کرنا پڑا۔ اس جنگ کے دوران پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی اور مختلف گروہوں کی مدد کی، جس کے نتیجے میں انتہاپسندی نے جڑیں پکڑ لیں۔ 9/11 کے بعد، جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہونا پڑا، جس کے بعد دہشت گرد تنظیموں نے پاکستان میں اپنی کارروائیاں تیز کردیں۔

حالیہ واقعات نے قومی سلامتی پر کئی سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی جانب سے مسافر ٹرین کو یرغمال بنانا ریاستی کمزوری اور حکومتی عدم دلچسپی کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ دہشت گرد اتنے طاقتور کیوں ہوگئے ہیں؟ ریاست ان کے سامنے بے بس کیوں نظر آتی ہے؟ عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے کےلیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟

پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات محض اتفاقیہ نہیں بلکہ ریاستی کمزوری، اقتدار کی کشمکش اور حکومتی نااہلی کا واضح ثبوت ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں کی اولین ترجیح اقتدار کا حصول اور اس کی حفاظت بن چکی ہے جبکہ عوام کے جان و مال کے تحفظ جیسے بنیادی فرائض پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی کے حملے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ گروہ عسکری لحاظ سے منظم ہوچکا ہے اور اسے مقامی و غیر ملکی سرپرستی حاصل ہے۔

سوال یہ ہے کہ ریاست کی انٹیلی جنس ایجنسیاں کہاں ہیں؟ وہ ان گروہوں کی کارروائیوں کو پہلے سے کیوں نہیں روک پاتیں؟ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمے داریوں کو نبھانے میں کیوں ناکام ہو رہے ہیں؟ حکومت کی عدم استحکام اور پالیسیوں کی کمی کی وجہ سے دہشت گرد تنظیموں کو تقویت ملتی ہے۔ فوج اور دیگر ادارے دہشت گردی کے خلاف مؤثر کارروائیاں کرنے میں ناکام کیوں ہورہے ہیں؟ کیا انٹیلی جنس نیٹ ورک میں کمزوری ہے یا جان بوجھ کر ان عناصر کو نظر انداز کیا جارہا ہے؟

پارلیمنٹ اور دیگر قانون ساز ادارے دہشت گردی کے خلاف کوئی ٹھوس پالیسی کیوں نہیں بنا پاتے؟ آج پاکستان میں اگر کوئی محب وطن شہری ریاستی ناکامیوں پر سوال اٹھاتا ہے تو اسے ملک دشمن قرار دے دیا جاتا ہے۔ لیکن اصل غدار کون ہے؟ وہ جو ریاست کی ناکامیوں کو چھپاتے ہیں یا وہ جو ان کمزوریوں کو بے نقاب کر کے بہتری کی امید رکھتے ہیں؟ یہ رویہ نہ صرف آزادیٔ اظہار کو محدود کرتا ہے بلکہ مسائل کے حل میں بھی رکاوٹ بنتا ہے۔

پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف مؤثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس کےلیے ایک جامع اور عملی انسدادِ دہشت گردی پالیسی ترتیب دینا ہوگی جو زمینی حقائق کے مطابق ہو۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مزید متحرک کیا جائے اور ان کے درمیان مؤثر معلوماتی تبادلہ یقینی بنایا جائے تاکہ دہشت گردوں کے منصوبوں کو ناکام بنایا جاسکے۔ سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کے خلاف متفقہ بیانیہ اپنانا ہوگا اور اقتدار کی کشمکش کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد میں فیصلے کرنے ہوں گے۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جدید تربیت فراہم کی جائے تاکہ وہ دہشت گردی کے خلاف زیادہ مؤثر کارروائیاں کرسکیں۔ فوج کو صرف دفاعی مقاصد تک محدود رکھا جائے اور سول اداروں کو مضبوط بنایا جائے تاکہ داخلی سیکیورٹی کے معاملات میں بہتری آ سکے۔

بلوچستان میں سیاسی اور معاشی اصلاحات متعارف کرانا ناگزیر ہوچکا ہے تاکہ عوام دہشت گردوں کا ساتھ نہ دیں۔ مقامی سطح پر ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ بیروزگاری اور معاشی استحصال کو روکا جاسکے۔ پاکستان کو عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف مؤثر سفارتی مہم بھی چلانی چاہیے تاکہ بین الاقوامی برادری کو دہشت گردی کے خطرے سے آگاہ کیا جا سکے اور بیرونی مدد حاصل کی جاسکے۔ بھارت اور افغانستان سمیت دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنا کر دہشت گردوں کی بیرونی مدد کو روکا جاسکتا ہے۔

پاکستان دہشت گردی جیسے سنگین مسئلے سے نبرد آزما ہے، اور اگر آج بھی حکومت اور ریاستی اداروں نے اپنی ذمے داریوں کو سمجھ کر مؤثر اقدامات نہ کیے، تو آنے والے وقت میں صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔ ریاست کو اپنی رِٹ بحال کرنی ہوگی، عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا اور دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائیاں کرنا ہوں گی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی ایک پُرامن اور محفوظ پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ یا پھر ہم صرف اندھیروں میں روشنی کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں؟ اس سب کے بعد فیض احمد فیض کی صبحِ آزادی کی یاد آتی ہے، جس کا پہلا شعر ہی اس سارے مضمون کا خلاصہ ہے:

یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

آج بھی یہی سوال کھڑا ہے کہ کیا ہم نے جس آزادی، امن اور ترقی کا خواب دیکھا تھا، وہ حقیقت بن سکا؟ یا پھر یہ صبح بھی اسی شب گزیدہ تاریکی کا تسلسل ہے؟ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں ایک ایسی قیادت نصیب کرے جو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں فیصلے کر سکے۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • دہشت گردی کے سائے میں جکڑا پاکستان
  • دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام متحد ہے، گورنر سندھ
  • بنوں کینٹ حملہ میں ہلاک 16 دہشتگردوں میں سے 2 افغان شہری نکلے
  • بنوں کینٹ حملے میں ہلاک 16 دہشتگردوں بارے ہولناک انکشاف سامنے آگیا
  • دہشت گرد حملوں میں ا فغان حکومت کے اعلیٰ حکام ملوث
  • بنوں میں دہشت گردی کے واقعے کا مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی میں درج
  • بنوں دہشتگردی واقعہ کا مقدمہ درج
  • عمران خان کو گئے ہوئے تین سال ہوگئے، حکومت کہہ رہی ہے دہشت گردی کے ذمہ دار وہی ہیں، محمد زبیر
  • بنوں : دہشت گردی کے واقعے کا مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی میں درج