جاپان کا دورہ اور خواتین کے تھانے (آخری قسط)
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
ہم نے چند دنوں میں جاپانی زبان کا ایک لفظ اور ایک فقرہ سیکھ لیا جس کا ہم جاوبے جا استعمال کرنے لگے۔ آپ کا کیا حال ہے؟ کہنا ہو تو او ہا یو گذائے مَس کہنے لگے اور محترم یا محترمہ کے لیے سَیں کا لفظ (سندھی زبان کے سائیں کی طرح) استعمال کرنے لگے۔ سیمینارکی انچارج مس بمبا بڑی اسمارٹ اور خوبرو خاتون تھیں۔
وہ جب بھی ہمارے پاس سے گذرتیں، ہمارے ایک اعلیٰ ترین افسر اپنے چہرے پر خصوصی مسکراہٹ سجاتے اور پھر انگریزی کا کوئی مشکل سا لفظ فقرے میں ڈال کر بول دیتے مگر وہ نوٹس لیے بغیر گذرجاتی۔ میں نے ایک دو بار ان صاحب سے کہا ’’سر! آپ پاکستان کے ہائی لیول وفد کے سربراہ ہیں، اور یہ بمبا نامی خاتون آپ کا بالکل نوٹس ہی نہ لے اور آپ کی اتنی اعلیٰ انگریزی میں بولے گئے فقروں کا جواب تک نہ دے تو یہ ہمارے لیے ہرگز قابلِ قبول نہیں۔ یہ صرف آپ کی نہیں پورے وفد کی توہین ہے۔
وہ صاحب مسکراکر کہتے۔ سائیں دیکھتے جاؤ۔۔۔ پھر ایک روز مجھے شرارت سوجھی تو میں نے ان صاحب کے پاس جاکر بڑے پرجوش انداز میں کہا ’’ سر مبارک ہو‘‘۔ پوچھنے لگے’’چیمہ سَیں کس بات کی مبارک دے رہے ہو؟‘‘ میں نے کہا ’’ سر آج کمال ہوگیا ہے۔ مس بمبا اکیلی کھڑی تھی کہ میں اس کے پاس چلا گیا، اُس نے خصوصی طور پر آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتایا کہ ’’ آپ پاکستان کے بہت بڑے فیوڈل لارڈ ہیں اور جلد ہی ملک کے سب سے طاقتور بیوروکریٹ بننے والے ہیں۔ میں پرائم منسٹر کا اسٹاف افسر ہونے کے ناطے اس بات سے آگاہ ہوں کہ آپ پاکستان کی بہت اہم شخصیّت ہیں‘‘ اس پر وہ بہت متاثر ہوئی اور کہنے لگی ’’فیوڈل لارڈ تو بہت کھلے دل کے ہوتے ہیں۔
ان صاحب نے تو کبھی ہمیں ڈنر پر بھی نہیں بلایا‘‘ یہ سن کر انھوں نے میری طرف فاتحانہ انداز میں دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ میں نہ کہتا تھا کہ ایک دن قدموں میں آگرے گی۔ اس کے بعد وہ فوراً کمرے میں گئے اور سارے سوٹ لے کر استری کے لیے ’’بیبیوں‘‘ کے کمرے میں پہنچ گئے۔ دُوسرے روز وہ خصوصی طور پر کالا سوٹ، پیلی ٹائی اور کالی عینک لگا کر مس بمبا کے پاس چلے گئے اور اسے کینڈل ڈنر کی دعوت دے ڈالی۔ مس بمبا کام سے کام رکھنے والی پروفیشنل خاتون تھیں جو روزانہ بیسیوں ملکوں کے سیکڑوں لوگوں سے ڈیل کرتی تھیں۔
ڈنرکی دعوت پر اس نے کسی قسم کے تاثر کا اظہار کیے بغیر کہا ’’مسٹر ! آپ کے لیے بہتر ہے کہ شبانہ سرگرمیوں کے بجائے پیشہ ورانہ سرگرمیوں پر توّجہ رکھیں۔ اور یاد رکھیں آپ کی توجہ ویمن پر نہیں، ویمن پولیس اسٹیشنز پر رہنی چاہیے جو آپ کے سیمینار کا موضوع ہے‘‘ یہ سن کر قبلہ نیویں نیویں ہوکر واپس کلاس میں آگئے۔ انھوں نے اپنی سبکی کا ذمے دار مجھے قرار دیا لہٰذا ایک دو روز ناراض رہے مگر کھلے دل کے آدمی تھے اس لیے جلد راضی ہوگئے۔
ہمارے سیمینار سے متعلق جتنے بھی جاپانی خواتین و حضرات سے واسطہ پڑا انھیں انتہائی مہذّب اور خوش اخلاق پایا۔ جب ہم جاپانی زبان میں ان سے خیریّت دریافت کرتے تو وہ احتراماً جھک کر جواب دیتے۔ ہم حیران ہو کر پوچھتے تھے کہ اس قدر خوش اخلاق لوگ آپس میں کبھی ناراض بھی ہوتے ہیں؟ گالی تو دور کی بات ہے ایسے مہذب اور polite انسانوں کی زبان سے تو کبھی ناشائستہ لفظ بھی نہیں نکلتا ہو گا۔ یہ اتنی بڑی بڑی جنگیں کیسے لڑتے رہے؟ جاپان کے پروفیسر اور دانشور تو بہت نرم خو، شائستہ اور politeتھے۔
ہاں جب وہاں کے (سی ایس ایس کی طرز کے) مقابلے کے امتحان کے نتیجے میں منتخب ہونے والے پولیس افسروں سے ملاقات ہوئی تو ان میں اکڑ خانی اور پھوں پھاں ضرور نظر آئی۔ وہاں مقابلے کا امتحان پاس کرنے والوں کو پولیس میں اے ایس پی کے بجائے انسپکٹر کے طور پر بھرتی کیا جاتا ہے اور چند سالوں کے بعد وہ اے ایس پی اور پھر ایس پی بنتے ہیں۔ چونکہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جاپان کو فوج رکھنے کی اجازت نہیں تھی، اس لیے فورسز میں سب سے طاقتور اور بااختیار محکمہ پولیس کا ہے۔ جاپان میں پولیس کا سربراہ کمشنر جنرل کہلاتا ہے جو پورے ملک کا سب سے طاقتور بیوروکریٹ سمجھا جاتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے جاپان میں بھی پولیس کا جدید نظام نافذ ہے جس کے تحت انٹرنل سیکیوریٹی اور امن وامان کی ذمّے داری صرف اور صرف پولیس کی ہوتی ہے۔
امریکا اور یورپ کی طرح جاپان میں بھی ایگزیکٹو مجسٹریسی نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ ملک میں امن وامان قائم کرنا اور جرائم کی تفتیش کرنا پولیس کی ذمے داری ہے جب کہ ٹرائل عدلیہ کے جج صاحبان کرتے ہیں جن کا انتظامی امور سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ پوری کوشش کے باوجود ہمارے وفد کی کمشنر جنرل پولیس سے ملاقات نہ ہوسکی اور ہم ڈپٹی کمشنر جنرل سے ہی مل سکے۔ مگر ان کا پروٹوکول بھی ایشیائی ممالک کے وزیروں سے زیادہ نظر آیا۔ جاپان کے اُس وقت بارہ انتظامی صوبے تھے جنھیں prefecture کہا جاتا ہے، ہر صوبے کا گورنر اور پولیس چیف علیحدہ ہوتا ہے۔ جاپان کے سینئر پولیس افسروں سے ملاقات کے دوران ہم ان سے پولیس کے سسٹم کے بارے میں پوچھتے رہے تو انھوں نے کہا کہ یہاں کی پولیس operationially independent ہے مگر عوام کی منتخب حکومت کے سامنے جوابدہ ہے۔
جو ہر جمہوری ملک کی پولیس کا خاصہ ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کی طرح جاپان میں بھی پولیس کو اس قدر آپریشنل آزادی حاصل ہے کہ امن وامان کے کسی اشو پر پولیس کمشنر اگر وزیراعظم کے کسی حکم سے اختلاف کرے اور اسے خلافِ قانون یا نامناسب سمجھ کر اس پر عمل نہ کرے تو قوم اور میڈیا پولیس کمشنر کا ساتھ دیں گے۔ مگر یہ اس لیے ہے کہ پولیس نے اپنے طرزِ عمل سے عوام کے دلوں میں اپنے لیے جگہ (good will) بنائی ہے۔ اگر ان کا طرزِ عمل بھی حکمرانوں کے ذاتی نوکروں والا ہوتا اور وہ ہر غیر قانونی حکم پر آنکھیں بند کرکے عمل کرتے تو قوم اور میڈیا کبھی ان کے ساتھ کھڑے نہ ہوتے۔
ہمارا جاپان کا دورہ اس وقت شروع ہوا تھا جب پاکستان نے تازہ تازہ ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ ہمیں اسلام آباد میں بریفنگز کے دوران کہا گیا تھا کہ ’’چونکہ جاپان واحد ملک ہے جو 1945میں ایٹم بم کی ہلاکت آفرینیوں کا شکار ہوا تھا، اس لیے جاپانی اس معاملے میں بہت حسّاس ہیں لہٰذا آپ وہاں ایٹمی دھماکوں کا زیادہ ذکر نہ کیجیے‘‘ ہم تو ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ایٹمی دھماکوں کے ذکر سے گریز کرتے رہے مگر کئی بار ایسے ہوا کہ لیکچرز میں وقفوں کے دوران یا آتے جاتے جب کسی جاپانی پروفیسر یا دانشور کو پتہ چلتا کہ ہمارا تعلق پاکستان سے ہے تو وہ خاص طور پر ہمارے پاس آتے، ایٹمی قوّت بننے پر مبارکباد دیتے اور خاص طور پر یہ بھی کہتے کہ ’’اگر 1945میں ہماے پاس ایک بھی ایٹم بم ہوتا تو کوئی ملک ہمارے شہریوں پر ایٹم بم گرانے کی جرات نہ کرتا، اور ہم انسانی تاریخ کی سب سے بڑی جار حیت سے محفوظ رہتے‘‘۔
اُس وقت توقیر احمد صاحب جاپان میں پاکستان کے سفیر تھے، جو پرائم منسٹر آفس میں ہمارے کولیگ رہے تھے۔ انھیں پتہ چلا تو انھوں نے ایک دن کھانے پر مدعو کیا۔ گفتگو شروع ہوتے ہی انھوں نے بتایا کہ ’’ایٹمی قوّت بننے کے بعد پاکستان کی عزّت اور اہمیّت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
ہمیں خدشہ تھا کہ جاپانی حکومت کچھ ناراضگی کا اظہار کرے گی مگر یہ لوگ بھی اب بھارت اور پاکستان کو بالکل برابر کا درجہ دینے لگے ہیں۔ چند روز پہلے یہ بھارت کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنے لگے تو انھوں نے ہم سے رابطہ کرکے پوچھا کہ پاکستان کو اس پر کوئی اعتراض تو نہیں‘‘ یہ یاد کرکے بہت دکھ ہوتا ہے کہ جنرل مشرّف اور اس کے ناعاقبت اندیش ٹولے نے حکومتِ پاکستان کو اس عظیم کامیابی کے ثمرات سمیٹنے سے محروم رکھا اور کشمیر کا مسئلہ ایک بہتر انداز میں حل کرنے کا تاریخی موقع ضایع کردیا۔ وہ بغیر تیاری کے اور نتائج کا اندازہ کیے بغیر کارگل پر چڑھ دوڑے اور پاکستان کو عالمی برادری میں غیر معمولی تنہائی اور سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔
میزبانون نے ہمیں ٹوکیو کے علاوہ کیوٹو اور کوبے کا بھی دورہ کرایا اور وہاں کے سب سے بڑے مذہب شنٹو (جو بدھ مت سے ملتا جلتا ہے) کی عبادت گاہیں (shrines) دکھاتے رہے۔ جاپان میں جب بھی دوسری جنگِ عظیم کا ذکر چھڑا اور ہم نے یہ ٹٹولنے کی کوشش کی کہ جاپان کو ایٹمی بم کا نشانہ بنا کر امریکا نے جو انسانی تاریخ کا سب سے بڑا جرم کیا تھا، اس پر ان کے دل میں امریکا کے خلاف کس قدر غصّہ اور نفرت ہے؟ یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ نئی نسل میں امریکا کے خلاف نفرت نہیں بلکہ مرعوبیّت ہے۔ وہ امریکا کی فلموں، امریکا کی بنی ہوئی کاروں اور امریکا کی ہر چیز سے متاثر ہوتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج اکیسویں صدی میں بھی دنیا کا چوہدری وہ ہے اور فیصلہ اس کے ہاتھ میں ہے جو معاشی طور پر نہیں عسکری لحاظ سے سب سے طاقتور ہے۔ امریکا کسی بھی معاملے میں جاپان سے اس طرح فنڈز لیتا ہے جس طرح گاؤں کا چوہدری خوشحال دکانداروں اور سیٹھوں کو بلا کر زبردستی پیسے لے لیتا ہے۔ اقبالؒ کیا پتے کی بات بتاگئے کہ ؎ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات اور پھر یہ کس قدر درست کہا کہ ؎عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سب سے طاقتور پاکستان کو جاپان میں انھوں نے پولیس کا میں بھی ہوتے ہی اس لیے کے بعد
پڑھیں:
پاکستان: خواتین کی اجرتیں مردوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم، آئی ایل او
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 مارچ 2025ء) انٹرنیشل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے پیر کے روز جاری ایک رپورٹ میں کہا کہ پاکستان میں برسرروزگار خواتین کی گھنٹہ وار اجرت مردوں کے مقابلے میں 25 فیصد کم ہے جس کی بڑی وجہ عمر، تعلیم، شعبے یا پیشے کا فرق نہیں بلکہ خواتین سے روا رکھا جانے والا امتیازی سلوک ہے، جس کے باعث وہ مردوں کے مساوی محنت کرنے کے باوجود ان سے کہیں کم کماتی ہیں۔
پاکستانی خواتین کارکنوں کی محنت مردوں کے برابر لیکن اجرتیں کہیں کم
آئی ایل او نے بتایا ہے کہ پاکستان میں ملازمت کرنے والی خواتین کی فی گھنٹہ اوسط اجرت 750 روپے ہے جبکہ مرد ایک گھنٹہ کام کر کے 1,000 روپے کماتے ہیں۔ چونکہ مردوں کو خواتین کے مقابلے میں زیادہ وقت کے لیے کام ملتا ہے اس لیے ماہوار اجرت کے اعتبار سے یہ فرق 30 فیصد تک پہنچ جاتا ہے۔
(جاری ہے)
آئی ایل او کی اس رپورٹ کے مطابق، 35 سال سے زیادہ عمر کے ملازمین کی اجرتوں میں صنفی بنیاد پر فرق زیادہ ہوتا ہے کیونکہ زچگی کے بعد کام پر آنے والی خواتین کو ملازمت میں آسانیاں درکار ہوتی ہیں جس کی قیمت انہیں اجرت میں کمی کی صورت میں چکانا پڑتی ہے۔
پاکستان: ’بچے اور خواتین مزدور جدید غلامی کی مثال‘
کام کے غیررسمی شعبے میں صنفی بنیاد پر اجرتوں کا فرق رسمی شعبے کے مقابلے میں بہت زیادہ (40 فیصد) ہے۔
اسی طرح سرکاری کے مقابلے میں نجی شعبے میں بھی یہ فرق زیادہ ہے، جہاں محنت کے قوانین پر پوری طرح عملدرآمد نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں، تعلیم یافتہ ملازمین میں یہ فرق ناخواندہ محنت کشوں کے مقابلے میں کم ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیم یافتہ ہونے کی صورت میں خواتین کے لیے باوقار روزگار کا حصول قدرے آسان ہو جاتا ہے۔ محنت کے قوانین پر عملدرآمد کا فقدانرپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محنت کے قوانین پر عملدرآمد کی ناقص صورتحال بھی پاکستان میں صنفی بنیاد پر اجرتوں میں فرق کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔
چونکہ رسمی معیشت اور سرکاری شعبے میں ان قوانین پر عملدرآمد کی صورتحال بہتر ہے اسی لیے وہاں خواتین مردوں کے مساوی کام کرتے ہوئے ان کے برابر اجرت پاتی ہیں۔آئی ایل او کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صنفی بنیاد پر اجرتوں میں فرق کو کم اور ختم کرنے کے لیے پالیسی سازی کے ضمن میں نئے اور موثر اقدامات درکار ہیں۔ دیگر ممالک کی مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کام کی قدر کو جانچنے کے لیے ملازمتوں کے صنفی اعتبار سے غیرجانبدارانہ تجزیے کمپنیوں کو اجرت میں فرق کم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔
پاکستان میں بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں 'آئی ایل او' کے کنونشن 100 کے تحت مردوخواتین کے مساوی کام کی مساوی اجرت یقینی بنانے سے متعلق قانون سازی ہو چکی ہے۔
اس حوالے سے دیگر صوبوں میں رائج قوانین میں ترامیم کر کے ان میں مساوی قدر کے کام کی صنفی اعتبار سے مساوی اجرت کا اصول شامل کرنا ضروری ہے۔ اس طرح ہر جگہ ایک جیسا کام کرنے والے مردوں اور خواتین کے لیے ایک سی اجرت یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔
پاکستان میں خواتین آزادی کی خواہش میں استحصال کا شکار
رپورٹ کے مطابق، پاکستان نے اپنے ہاں محنت کے قوانین کو 'آئی ایل او' کے کنونشن سے ہم آہنگ کرنے کے لیے قانونی اصلاحات کا عزم ظاہر کیا ہے۔ صوبہ پنجاب اور سندھ میں بنائے گئے محنت کے ضابطوں میں ان اصولوں کو مدنظر رکھا گیا ہے تاہم انہیں نافذ کرنے اور ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
کم از کم اجرت میں اضافے کی ضرورتآئی ایل او' کا کہنا ہے کہ اجرتوں سے متعلق پالیسیاں بھی کام کے معاوضوں میں صنفی بنیاد پر فرق کو کم اور ختم کرنے میں مددگار ہو سکتی ہیں۔ کم از کم اجرت میں اضافے سے خواتین کو غیرمتناسب طور سے فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ کم اجرت پر کام کرنے والوں میں خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اسی لیے قانون سازی یا اجتماعی سودے بازی کے ذریعے کم از کم اجرت طے کرنے کے عمل میں ان اہم باتوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
پاکستان میں خواتین بعض مخصوص شعبوں (جیسا کہ کان کنی) میں کام نہیں کر سکتیں جنہیں ان کے لیے غیرمحفوظ سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ ایسی پابندیوں کا مقصد خواتین کی زندگی اور صحت کو تحفظ دینا ہوتا ہے لیکن اس سے ان کے لیے روزگار کے مواقع اور اجرتوں کی شرح کم ہو جاتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سخت کام والے شعبوں میں خواتین کے لیے پابندیوں کا جائزہ لینا ضروری ہے اور صرف انہی پابندیوں کو برقرار رکھنا چاہیے جن کی خاص ضرورت ہو۔
موثر اقدامات ضروریآئی ایل او نے کہا ہے کہ ہر بچے کی پیدائش پر خواتین ملازمین کو مساوی دورانیے کی چھٹی ملنی چاہیے۔ اس وقت پاکستان میں خواتین کو پہلے بچے کی پیدائش پر 180 یوم اور تیسرے بچے کو جنم دینے پر 90 یوم کی چھٹی ملتی ہے جبکہ اس کے بعد کسی بچے کی پیدائش پر کوئی چھٹی نہیں۔ علاوہ ازیں، کام کے دوران بچے کی نگہداشت سے متعلق خدمات کو بھی وسعت دینے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کے لیے زچگی کے بعد بھی کام جاری رکھنے کا موقع میسر رہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محنت کے قوانین نافذ کرنے اور ان پر موثر طور سے عملدرآمد کے نتیجے میں صنفی بنیاد پر اجرتوں میں فرق کو کم کرنے میں نمایاں مدد ملے گی کیونکہ پاکستان میں بڑی حد تک اس کی وجہ خواتین کے ساتھ روا رکھا جانے والے امتیازی سلوک سے ہے جس پر قوانین کے ذریعے ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے کام کے غیررسمی شعبے کو بھی باضابطہ بنانا ہو گا جہاں اجرتیں بہت کم اور حالات کار نامناسب ہیں اور محنت کشوں بالخصوص خواتین کے لیے سماجی تحفظ بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہے۔
رپورٹ کے مطابق صنفی تنخواہوں میں فرق کا تناسب سری لنکا میں بائیس فیصد، نیپال میں اٹھارہ فیصد اور بنگلہ دیش میں منفی پانچ فیصد ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں خواتین مردوں کے مقابلے زیادہ کماتی ہیں۔
ج ا ⁄ ص ز (خبررساں ادارے)