’’جرات انکار‘‘ سینئر صحافی اور انسانی حقوق کی تحریک کے ہر اول دستہ کے رکن حسین نقی کے تجربات و مشاہدات پر مشتمل کتاب ہے۔ پاکستان کے ممتاز سوشل سائنٹسٹ ڈاکٹر جعفر احمد نے حسین نقی کے ساتھ طویل انٹرویو کو 184 صفحات پر مشتمل کتاب پر منتقل کیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ نے شایع کیا ہے۔
کتاب کا انتساب عظیم صحافی منہاج برنا کے نام منسوب ہے۔ معروف صحافی محمود شام نے کتاب کے فلیپ پر لکھا ہے کہ حسین نقی بائیں بازو کی عملی تنظیمی سرگرمیوں میں مستعد رہے ہیں۔ اظہارِ خیال ہو یا کسی ادارہ سے وابستگی، انھوں نے اپنے آدرش کو ہی اہمیت دی۔ اپنے منصب، تنخواہ اور عہدہ کو فوقیت نہیں دی۔ ڈاکٹر جعفر احمد نے ’’عرضِ مرتب‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ حسین نقی نے صحافت کو اپنے پیشہ کے طور پر اختیار کیا اور جلد ہی ان کے شوق کی حیثیت بھی اختیار کر لی۔ حسین نقی نے گزشتہ کئی عشروں میں پاکستان کی صحافت کے ارتقاء کو، اس کے اتار چڑھاؤ کو، اس کے امید افزاء و مثبت رجحانات کو، اس کے آزمائش سے اور تکلیف دہ ادارہ کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔
دیکھا ہی نہیں برتا بھی ہے۔ بقول ڈاکٹر جعفر حسین، نقی نے ہیومن رائٹس کمیشن کے پلیٹ فارم سے ملک میں انسان کی بے توقیری کے جو واقعات دیکھے، خاص طور پر بلوچستان میں جس قسم کے واقعات ان کی نظر میں آئے ان کا ذکر کرتے وقت ان کی آوازگلو ریز ہوجاتی ہے۔ حسین نقی نے ڈاکٹر جعفر کے سوال کے جواب میں کہا کہ وہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ 1946کے انتخابات کے وقت مجھ میں سمجھ بوجھ پیدا ہوچکی تھی۔ 1936میں پیدا ہوا۔ میرے والد وکیل تھے اور سیاست وغیرہ پر ان سے بحث ہوتی تھی۔ میرے والد تقسیم ہند کے متشدد طریقے کے خلاف تھے۔ ان کے بہت قریبی دوست وہاں سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے تو والد صاحب نے ان سے خط و کتابت بند کردی تھی۔
حسین نقی نے پاکستان آنے کے بارے میں بتایا کہ ہمارے عزیز اور تایا وغیرہ 1948 یا 1947 میں پاکستان آگئے تھے۔ ہمارے باقی بہن بھائی ہندوستان میں رہے۔ سب سے بڑی بہن پاکستان آگئی تھیں۔ حسین نقی نے بتایا کہ ہندوستان میں تعلیم صرف انٹرمیڈیٹ تک رہی، پھر علی گڑھ یونیورسٹی گیا، جیالوجی میں داخلہ لیا، نقی صاحب نے بتایا کہ وہ علی گڑھ سے بھاگ آئے۔ 1953 میں ان کا داخلہ کراچی کے ڈی جے کالج میں ہوگیا، پھرکراچی یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس ڈپارٹمنٹ میں ایم اے میں داخلہ لیا۔ حسین نقی نے کراچی یونیورسٹی طلبہ یونین کے صدر کے عہدے کے لیے امیدوار بننے کا قصہ یوں بیان کیا کہ 1962-63کا سیشن تھا، وائس چانسلر (ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی) نے طلبہ یونین کی صدارت کے لیے الیکشن لڑنے کی یہ شرط رکھ دی کہ ایم اے سال اول پاس کیا ہو، حالانکہ سال اول اور فائنل الگ الگ تھے۔
چار چار پیپر دو برسوں میں کرنے ہوتے تھے۔ اسی طرح ایک سال مجھے الیکشن لڑنے نہیں دیا گیا کیونکہ ہم شہر بدری کے خاتمے کے بعد واپس آئے تو امتحانات ہوچکے تھے۔ 1961-62میں ہم نے ایم اے سال اول کا امتحان پاس کرلیا اور الیکشن لڑنے کے اہل ہوگئے۔ ہمارے مقابلے میں مکرم علی خان شیروانی تھے جو بعد میں نیشنل کالج میں پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ مقرر ہوئے، وہ جمعیت میں تھے۔ ہم ساتھ پڑھ رہے تھے اور ساتھ ہی کمپین چلاتے تھے، میں منتخب ہوا۔ میرے ساتھ جمعیت کے انیس احمد کلیہ فنون سے منتخب ہوئے۔ میں ہر بات میں ان سے مشورہ کرلیتا تھا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ کوئی اختلاف نہ ہو۔ حسین نقی نے کہا کہ وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نہیں چاہتے تھے کہ میں الیکٹ ہو جاؤں مگر بقول نقی صاحب وہ الیکٹ ہوگئے مگر جوائنٹ سیکریٹری کے الیکشن پر کچھ اختلاف ہوا۔
وائس چانسلر نے کہا کہ سالانہ الیکشن دوبارہ ہوگا۔ مجھے یاد ہے کہ تیرہ ووٹ سے جیتا تھا۔ حسین نقی نے اپنی یاد داشتیں بیان کرتے ہوئے کہا کہ تین بلوچ لڑکے جو بلوچستان اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے تھے انھوں نے الیکشن میں این ایس ایف کی حمایت کی تھی۔ ان کا ہوسٹل میں جھگڑا ہوا مگر یہ جھگڑا ختم کرایا گیا۔ وائس چانسلر نے ان بلوچ لڑکوں کو رسٹیکیٹ کردیا۔ حسین صاحب نے وائس چانسلر سے کہا تھا کہ ان لڑکوں کا کیریئر ختم ہوجائے گا تو وائس چانسلر نے کہا کہ میں اب رسٹیکیٹ کردوں، میں نے کہا ہاں، یوں میرا حسین نقی کہتے ہیں کہ کراچی یونیورسٹی سے رسٹیکیٹ ہونے کے بعد انھوں نے اردو روزنامہ میں کام کرنے کا فیصلہ کیا مگر پروفیسر سجاد باقرکی ہدایت پر پی پی آئی میں ملازمت کی۔ پی پی آئی کئی بین الاقوامی نیوز ایجنسیوں کی خبریں مانیٹر کرتی تھی۔ ان میں کافی Garbage بھی ہوتا تھا۔
میں نے دن رات محنت سے خود کو اہل ثابت کردیا۔‘‘ نقی صاحب نے بتایا کہ ’’ میرے پاس سونے کے لیے جگہ نہیں تھی۔ میں رات کام کرتے کرتے میز پر سو جاتا تھا۔ پی پی آئی کے مینیجنگ ڈائریکٹر معظم علی دیکھتے تھے کہ کام ٹھیک ہو رہا ہے۔ مجھے میز پر سوتا دیکھ کر کہا ’’ تم میرے کمرے میں کاؤچ پر سوجایا کرو۔‘‘ انھوں نے میرے صبح کے ناشتہ کے لیے روزانہ بن، مکھن اور چائے بھی لگا دی۔ حسین نقی نے اپنے زندگی کے واقعات تفصیل سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ کراچی یونین آف جرنلسٹس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن منتخب ہوگئے تھے۔ اس وقت کراچی سے شایع ہونے والا اخبار روزنامہ انجام بند ہو رہا تھا۔ پی ایف یو جے نے ’’انجام‘‘ کی پابندی کے خلاف تحریک شروع کی۔ نیشنل پریس ٹرسٹ N.
ایک دفعہ ایوب خان حیدرآباد آئے۔ وہ کہنے لگے ’’ تم بھی سوال کرو۔‘‘ میں نے سوال کیا کہ ’’ آپ بڑے زور و شور سے کہہ رہے ہیں جنھوں نے کوآپریٹیو کے پیسے کھائے ہوئے ان سے ہر صورت وصول کروں گا۔ میں نے پھر پوچھا آپ اپنے دوستوں سے بھی وصول کریں گے؟‘‘ پھر حیدرآباد کمشنر مسرور احسن خان کی شکایت پر حسین نقی کا تبادلہ لاہور کردیا گیا۔ پی پی آئی سے صحیح خبر دینے پر برطرف کردیے گئے۔ نقی صاحب نے اپنی زندگی کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ معروف صحافی صفدر میر نے ایک دن کہا کہ ویکلی اخبار نکلے گا 1970میں۔ تم اس کے ایڈیٹر بنو گے، یوں ہفت روزہ پنجاب ٹائمزکا اجراء ہوا مگر 3 ماہ بعد نسیم اکبر خان نے یہ اخبار خرید لیا۔
نسیم اکبر خان، بیگم شاہ نواز کی بیٹی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ اخبار بھٹو کے خلاف لکھ رہا ہے تو انھوں نے بند کردیا۔ پھر ہفت روزہ پنجاب پنج شایع کیا گیا۔ اس دوران پیپلز پارٹی کی حکومت برسرِ اقتدار آگئی۔ پنجاب پنج کے پبلشر مظفر قادر تھے۔ پنجاب پنج میں کئی مشہور افراد لکھتے تھے جن میں مسعود اﷲ خان، نجم حسین سید اور لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ایس اے سلام شامل تھے۔ اس وقت پنجاب کے گورنر اور پنجاب کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر غلام مصطفی کھر نے مارشل لاء آرڈر کے تحت پنجاب پنج پر پابندی لگا دی۔
حسین نقی کا کہنا ہے کہ بھٹو صاحب کے اس عتاب اور ناراضگی کی وجہ یہ تھی کہ جب میں The Sunمیں کام کر رہا تھا تو ڈھاکا میں شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقارعلی بھٹو کے درمیان مذاکرات ہو رہے تھے۔ سن کے ایڈیٹر شمیم احمد نے مجھے ڈھاکا بھیجا۔ سب رہنما ڈھاکا کے ہوٹل پی سی میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ میں بھٹو صاحب کے پاس گیا اور کہا کہ آپ لوگ جرنیلوں سے جو کچھ بھی بات کررہے ہیں مجیب الرحمن کے پاس اس کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ آپ فوج سے ان کو (عوامی لیگ) نہ ڈرائیں۔ آپ کوئی مصالحت کی بات کرلیں۔ بات آگے نہ بڑھی۔ بھٹو اور مجیب مذاکرات ناکام ہوگئے۔ بھٹو حکومت میں حسین نقی کو گرفتار کر کے پہلے کوٹ لکھپت جیل پھر جہلم جیل منتقل کردیا گیا۔ نقی صاحب نے جہلم کی جیل کے واقعات تفصیل سے بیان کیے ہیں۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وائس چانسلر ڈاکٹر جعفر کے واقعات نے کہا کہ پی پی آئی بتایا کہ انھوں نے کے لیے
پڑھیں:
شہرِقائد میں نیگلیریا سے موت کا پہلا کیس رپورٹ
کراچی میں رواں سال نیگلیریا سے ہلاکت کا پہلا کیس سامنے آگیا ہے۔
دماغ خور جرثومہ نیگلیریا فاؤلری رواں سال کراچی میں پہلی جان نگل گیا ہے۔ گلشنِ اقبال کی 36 سالہ خاتون اس جان لیوا جرثومے کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار گئیں۔
محکمہ صحت سندھ کے مطابق متاثرہ خاتون میں 18 فروری 2025 کو علامات ظاہر ہوئیں۔ خاتون کو 19 فروری کو ایک نجی اسپتال میں داخل کیا گیا جہاں وہ 23 فروری کو انتقال کر گئیں۔
24 فروری کو لیبارٹری رپورٹ میں نیگلیریا فاؤلری کی تصدیق ہوئی تھی۔ تحقیقات کے مطابق مریضہ نے کسی بھی قسم کی پانی سے متعلق سرگرمی میں حصہ نہیں لیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی ممکنہ وجہ وضو ہوسکتی ہے۔ یہ جان لیوا جرثومہ عام طور پر گرم پانی میں پایا جاتا ہے اور ناک کی نالی کے ذریعے دماغ میں داخل ہو کر شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ ابتدائی علامات میں شدید سر درد، بخار، متلی، گردن کا اکڑاؤ، ذہنی الجھن اور بے ہوشی شامل ہیں جو چند دن میں موت کا سبب بن سکتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نیگلیریا فاؤلری سے بچاؤ کے لیے پانی میں مناسب مقدار میں کلورین کی گولیاں ڈالنی چاہئیں تاکہ جراثیم کا خاتمہ یقینی بنایا جا سکے۔