Express News:
2025-03-12@08:05:03 GMT

صدر مملکت کی صائب باتیں

اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT

صدر مملکت آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں حکومتی پالیسیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے، اسٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند سطح پر پہنچ گئی جب کہ دیگر معاشی اشاریوں میں بہتری آئی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کو آیندہ بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافے، تنخواہ دار طبقے پرانکم ٹیکس کم کرنے اور توانائی کی لاگت کم کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔

 صدرآصف علی زرداری کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے آٹھویں بار خطاب کے ساتھ ہی ملک میں نئے پارلیمانی سال کا آغاز ہوگیا ہے، صدر مملکت نے حکومت کی معاشی کامیابیوں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

گو صدر مملکت کے خطاب کے دوران اپوزیشن اراکین نے شور شرابا کیا، یہ شور وہنگامہ ہماری پارلیمانی روایت کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ ملکی معیشت کی مضبوطی کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے سیاسی استحکام اولین ضرورت ہے بلکہ ناگزیر ہے۔ اپوزیشن اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر احتجاج کرسکتی ہے اور یہ اس کا جمہوری حق ہے البتہ جمہوری نظام میں ہر حق کے ساتھ کچھ فرائض بھی ہوتے ہیں جن کی پاسداری تمام پارلیمنٹرینز کو کرنی چاہیے۔

پاکستان میں اشرافیہ کو جو سہولیات اور مراعات حاصل ہیں، اس کا حجم بہت زیادہ ہوچکا ہے ۔ سرکاری افسروں اور آئینی عہدیداروں اور ان کے اسٹاف افسران کی تنخواہوں سے زیادہ ان کی مراعات اور دیگر سہولتیں ہیں ، جن کا بجٹ کروڑوں روپے ماہانہ ہے۔

حالیہ دنوں میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کی تنخواہ میں بھاری بھر کم اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کے نتیجے میں تنخواہوں میں تقریباً 140 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اس سے تو لگتا ہے کہ پاکستان میں نہ صرف کوئی معاشی مسائل نہیں ہے بلکہ خزانہ لبا لب بھر چکا ہے۔ اس سے قبل پنجاب اسمبلی کے ارکان وزراء اور دیگر حکام کی مراعات بھی بڑھائی گئی ہیں۔ سندھ اور خیبر پختون خوا کے عوامی نمایندے بھی مراعات میں اضافے کے لیے دیگر صوبوں سے پیچھے نہیں ہیں۔

آئی ایم ایف سے قرض لیتے ہوئے ہر مرتبہ ہمارے حکمران کہتے ہیں کہ ’’ یہ آخری پروگرام ہے‘‘ ایسے دعوؤں کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی ہوتی کہ ایک نیا پروگرام مانگ لیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کے لیے اس کی سخت شرائط بھی تسلیم کر لی جاتی ہیں۔ جن کا خمیازہ ملک کے عوام بھگتے ہیں۔ ایسی یقین دہانیاں کرائی جاتی ہیں جن کو پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔

 سرکاری اداروں اور پارلیمان کے بجٹ میں اس قدر بڑا اضافہ کفایت شعاری کے بلند و بانگ دعوؤں کے بالکل برعکس ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ معیشت مضبوطی کی طرف جا رہی ہے لیکن ابھی اتنی مضبوط نہیں ہوئی کہ اخراجات میں بے محابہ اضافہ کردیا جائے، اگر حکومت سمجھتی ہے کہ عوامی نمایندے واقعی ایسی مراعات کے حقدار ہیں تو عام آدمی کا کیا قصور ہے۔ اس کو بھی اسی طرح ریلیف دیا جائے، خاص طور پر سرکاری اور نجی شعبے کے ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات بھی اسی تناسب سے بڑھائی جائیں۔

کہنے کو توحکومت یہ دعوے کرتی ہے کہ مہنگائی بڑھنے کی شرح بہت کم ہو گئی ہے لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ مہنگائی بڑھنے کی شرح میں کمی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مہنگائی کم ہوگئی ہے ۔ زمینی حقائق کو دیکھیں تو مہنگائی بدستور موجودہے اور بہت زیادہ ہے۔ بجلی،گیس، پٹرول ہو یا ادویات، ان کی قیمتوں میں کمی نہیں ہوئی ہے ۔ نجی تعلیمی اداروں کی فیسیوں اور دیگر اخراجات میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ غربت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

ملک کی کثیر آبادی اس وقت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ تنخواہ دار و دیہاڑی دار طبقہ اس ساری بدحالی سے بہت زیادہ متاثر اور شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔

اس ساری صورتِ حال میں سب سے زیادہ مشکل سفید پوش طبقے کی ہے۔ مہنگائی کی شرح کے تناسب سے دیکھا جائے تو اگرکسی گھرانے کی آمدن 40 ہزار روپے تھی تو موجودہ مہنگائی کی وجہ سے اب اس کی آمدن کی قدر 20 ہزار رہ گئی ہے۔ حکومت اس مہنگائی کے باوجود عوام کو ریلیف دینے کے بجائے اعلیٰ سطح پر تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرنا درست پالیسی نہیںہے۔ مارکیٹ اور بازار میں نرخوں کے حوالے سے حکومتی عمل داری یقینی بنائی جائے،کیوں کہ اس کے بغیر اب چارہ بھی نہیں۔

اسی طرح ٹیکس دہندگان کے ساتھ زیادتی یا سوتیلے پن کا سلوک نہیں ہونا چاہیے کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ حکومت ان لوگوں کی کم پرواہ رکھتی ہے جنھیں ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور مہنگائی بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔

نجی اداروں میں کام کرنے والوں کو تنخواہیں بڑھنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی جب کہ انھیں اپنی تنخواہ سے معقول رقم ٹیکس کی ادائیگی پر خرچ کرنا پڑے گی جب کہ سرکاری ملازمین کو حاصل دیگر مراعات اس کے علاوہ شمار ہوتی ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف آیندہ مالی سال 26-2025کے بجٹ کے لیے تجاویز دے گا۔ تنخواہ دار طبقے کو ریلیف آئی ایم ایف کی رضا مندی سے مشروط ہوگا۔

 حکومت کی طرف سے بار بار معیشت کی مضبوطی کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ ساتھ یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ مہنگائی کم ہوچکی ہے، مگرزمینی حقائق اس کے بالکل ہی برعکس ہیں۔ عام آدمی مہنگائی کی چکی میں بدستور پس رہا ہے۔2024کے انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے حکومتی اخراجات کم کرنے اور قومی بچت کے لیے ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی جس کی رپورٹ جون 2024 میں آگئی تھی۔

کمیٹی نے ابتدائی رپورٹ میں قلیل مدتی اور وسط مدتی سفارشات پیش کیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ سرکاری اداروں میں سروسز کی فراہمی کے لیے نجی شعبے کی خدمات لی جائیں، حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے سرکاری اہلکاروں کے غیر ضروری سفر پر پابندی عائد کی جائے اور ٹیلی کانفرنسنگ کو فروغ دیا جائے۔

رپورٹ میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ ایسے سرکاری افسران جو مونوٹائیزنگ کی سہولت حاصل کررہے ہیں، ان سے سرکاری گاڑیاں فوری واپس لی جائیں۔ ان کمیٹیوں کی سفارشات پر عمل کر لیا جائے تو یہ معیشت کی مضبوطی کی طرف ایک اور قدم ہوگا، اور ہم خود انحصاری کی طرف آئیں گے تو پاکستان کو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑے گا۔ مسلم لیگ نون پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے دعوے کرتی رہی ہے، حکومت ایک بار کڑوا گھونٹ پی لے۔ آئی ایم ایف کے رواں پروگرام کو واقعتاً آخری سمجھ لے۔

 پاکستان میں گھریلو اور صنعتی صارفین کے لیے بجلی کی قیمت نہ صرف خطے بلکہ دنیا میں مہنگی ترین بتائی جاتی ہے، ملک میں گزشتہ تین، چار برس سے بجلی کی قیمتوں میں مسلسل بے تحاشا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ مہنگی بجلی کی بدولت نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ صنعت بھی پریشانی کا اظہا کر رہی ہے۔

حکومت کے مطابق یہ اضافہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت کیا گیا تاہم اس کے ساتھ کیپسٹی پیمنٹ، بلوں کی عدم ادائیگی اور لائن لاسزکی وجہ سے بجلی صارفین سے بجلی کی کھپت سے زیادہ بل وصول کیا جا رہا ہے۔

حکومت بجلی کی قیمت میں کمی لانے کے لیے ایک طرف تو آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کررہی ہے تو دوسری جانب بلوں کی عدم ادائیگی اور لائن لاسز میں کمی لانے کے دعوے کر رہی ہے۔ وزارتِ توانائی کے مطابق آئی پی پیزکے ساتھ مشاورت کے بعد ملکی خزانے میں 1100 ارب روپے کی بچت کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے اقدامات سے کچھ وقتی سہولت تو مل سکتی ہے تاہم یہ توانائی کے شعبے کے مسائل کا دیرپا حل نہیں ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی زون پر تیزی سے کام مکمل کر کے بجلی کی اضافی ضرورت پیدا کرے تاکہ پیدا ہونے والی بجلی کو استعمال میں لایا جا سکے۔ جب تک حکومت توانائی کی قیمت کو کم نہیں کرتی ،اس کے معاشی اہداف حاصل نہیں ہو سکتے۔ بہرحال موجودہ حکومت نے انتہائی مشکل حالات میں اقتدار سنبھالا اور خاصی محنت کے بعد حالات کو بہتر بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں عوام کو اچھا ریلیف دیا جائے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہے کہ مہنگائی ا ئی ایم ایف صدر مملکت نہیں ہوئی دیا جائے بجلی کی کے ساتھ کی طرف رہی ہے گئی ہے کے لیے

پڑھیں:

حکومت کی یک طرفہ پالیسیوں سے وفاق پر شدید دباؤہے، صدر مملکت

 

 

صدر مملکت کی تقریر شروع ہوتے ہی اپوزیشن کا شدید احتجاج، پوری تقریر کے دوران نعرے بازی،اپوزیشن کے شور شرابے کے باعث صدر مملکت نے ہیڈ فون لگالیا، وزیر اعظم شہباز شریف بھی ہیڈ فون لگا نے پر مجبور

وفاقی اکائیوں کی شدید مخالفت کے باوجود حکومت کا دریائے سندھ کے نظام سے مزید نہریں نکالنے کے یکطرفہ فیصلے کی بطور صدر حمایت نہیں کر سکتا، حکومت سے درخواست ہے وہ تجویز کو ترک کرے ، صدر زرداری کا خطاب

پارلیمانی سال مکمل ہونے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا جس سے صدر مملکت آصف علی زرداری نے 8 ویں بار خطاب کیا، تقریر شروع ہوتے ہی اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا، نعرے لگائے جو پوری تقریر کے دوران جاری رہے ۔تفصیلات کے مطابق پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا جس سے صدر زرداری نے خطاب کیا، ایجنڈے کے مطابق صدر مملکت کے خطاب کے سوا کوئی اور کارروائی اجلاس میں شامل نہیں۔اجلاس میں شرکت لیے وزیراعظم شہباز شریف، اسحاق ڈار، بلاول بھٹو زرداری، آصفہ بھٹو، خواجہ آصف، مریم نواز، پرویز خٹک، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ، وزیر اعلی بلوچستان سرفراز بگٹی، گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر بھی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے ۔ غیر ملکی سفراء کے بڑی تعداد بھی مہمان گیلری میں موجود ہے ۔ اجلاس میں خورشید شاہ، عبدالقادر پٹیل، شیری رحمان، فاروق ایچ نائیک، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، شرمیلا فاروقی، سحر کامران، سید نوید قمر، آغا رفیع اللہ، شیری رحمان، طاہرہ اورنگزیب، فاطمہ زہرا، نور عالم خان، حنیف عباسی، شہلا رضا، سلیم مانڈوی، امیر مقام، راجہ پرویز اشرف، رمیش لال، انوار الحق کاکڑ، مصدق ملک نے بھی شرکت کی۔ خطاب کرنے کے لیے صدر مملکت آصف علی زرداری پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے ۔ قبل ازیں وزیراعظم اور صدر زرداری کے درمیان چیمبر میں ملاقات بھی ہوئی۔ ملاقات میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار بھی موجود تھے ۔مشترکہ اجلاس شروع ہوتے ہی پی ٹی آئی اراکین کی بھی ایوان میں آمد ہوئی۔ پی ٹی آئی اراکین نے ایوان میں آتے ہی نعرے بازی کی اور ایوان میں پلے کارڈ بھی لے آئے ۔پرویز خٹک غلطی سے اپوزیشن بینچز کے طرف چلے گئے پھر یاد آنے پر واپس آئے اور وزیراعظم شہباز شریف اور نائب وزیر اعظم سے مصافحہ کیا۔صدر زرداری نے خطاب شروع کیا تو اپوزیشن نے شور شرابہ شروع کردیا، صدر مملکت نے ہیڈ فون لگالیا، وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی ہیڈ فون لگا لیے ۔ صدر مملکت تقریر کے دوران اپوزیشن کی جانب دیکھ کر مسکراتے رہے ۔احتجاج کے دوران اپوزیشن لیڈر عمر ایوب مکے مار مار کر ڈیسک بجاتے رہے ، پی ٹی آئی کی جانب سے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے حق میں نعرے بازی ہوتی رہی۔اپنے خطاب میں صدر مملکت نے کہا کہ پارلیمانی سال کے آغاز پر اس ایوان سے بطور سویلین صدر 8ویں بار خطاب کرنا میرا واحد اعزاز ہے ، ایوان بہتر طرز حکمرانی، سیاسی اور اقتصادی استحکام کے فروغ پر توجہ مرکوز کرے ، ہمارے عوام نے اپنی امیدیں پارلیمنٹ سے وابستہ کر رکھی ہیں ہمیں عوام کی توقعات پر پورا اترنا چاہیے ، جمہوری نظام مضبوط کرنے ، قانون کی حکمرانی پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے محنت کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس ایوان کو اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے ، یہ ایوان گورننس، خدمات کی فراہمی کے نتائج کو ازسرِ نو ترتیب دینے میں اپنا کردار ادا کرے ، وزارتوں کو بھی اپنے وژن اور مقاصد کو ازسرنو متعین کرنے کی ضرورت ہے ، وزارتیں ادراک کریں کہ عوام کو درپیش اہم مسائل کو ایک مقررہ مدت میں حل کرنا ہوگا، جمہوری اداروں پر عوامی اعتماد بحال کرنے کیلئے ٹھوس فوائد پہنچانے کی ضرورت ہے ، جمہوریت میں کچھ دینے اور لینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔صدر کا کہنا تھا کہ اراکین پارلیمنٹ اتحاد اور اتفاق کا سوچیں جس کی ہمارے ملک کو اشد ضرورت ہے ، آپ سب سے گزارش ہے کہ اپنے لوگوں کو بااختیار بنائیں، اتفاق رائے سے قومی اہمیت کے فیصلے کریں، آگے بڑھنے کے لیے ٹیکس نظام میں بہتری ناگزیر ہے ، پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں بوجھ ڈالنے کے بجائے ہر اہل ٹیکس دہندہ قوم کی تعمیر میں حصہ لے ۔صدر مملکت نے کہا کہ میں اس پارلیمنٹ اور حکومت پر زور دیتا ہوں کہ وہ اگلے بجٹ میں عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کریں، حکومت کو آئندہ بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافے ، تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کم کرنے اور توانائی کی لاگت کم کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں، ہمیں ملازمتوں میں کمی سے بچنا چاہیے ، ہماری توجہ نوکریاں پیدا کرنے اور تربیت یافتہ افرادی قوت کے نتیجہ خیز استعمال پر مرکوز ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ آج دہشت گردوں کو جو بیرونی سپورٹ اور فنڈنگ مل رہی ہے اس سے ہم سب واقف ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری سیکیورٹی فورسز نے اپنی جانیں قربان کی ہیں، ہم دہشت گردی کو دوبارہ سر اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتے ، قوم کو مسلح افواج پر فخر ہے ، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عسکریت پسندی کی جڑیں محرومی اور عدم مساوات میں پائی جاتی ہیں، دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے خطوں کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے ، روزگار پیدا کرنا چاہیے ۔آصف علی زرداری نے کہا کہ صدر مملکت کی حیثیت سے میرا آئینی فرض ہے ، محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے میری ذاتی ذمہ داری ہے کہ میں ایوان اور حکومت کو خبردار کروں کہ آپ کی کچھ یک طرفہ پالیسیاں وفاق پر شدید دباؤ کا باعث بن رہی ہیں، خاص طور پر، وفاقی اکائیوں کی شدید مخالفت کے باوجود حکومت کا دریائے سندھ کے نظام سے مزید نہریں نکالنے کا یکطرفہ فیصلہ، میں اس تجویز کی بطور صدر حمایت نہیں کر سکتا، میں اس حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس موجودہ تجویز کو ترک کرے ، تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرے تاکہ وفاق کی اکائیوں کے درمیان متفقہ اتفاق رائے کی بنیاد پر قابل عمل، پائیدار حل نکالا جا سکے ۔صدر مملکت آصف علی زرداری نے مزید کہا کہ آئیے ہم ایک ایسا پاکستان بنانے کی کوشش کریں جو منصفانہ، خوشحال اور ہمہ گیر ہو، آئیے اس پارلیمانی سال کا بہترین استعمال کریں۔

متعلقہ مضامین

  • ریاست کو بدلنا ہو گا
  • آئی ایم ایف نے بجلی نرخوں میں کمی کے حکومتی پلان کو گرین سگنل دیدیا
  • صنعتی ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے صنعتوں کو اضافی بجلی نیلام کرنے کا حکومت کا منصوبہ
  • حکومت نے بجلی سستی کر نے کیلئے آئی ایم ایف کو راضی کر لیا
  • صدر کت ایجنڈ ے پر عمل کرینگے : خواجہ آصف : مہنگائی کنٹرول کا روڈ میپ دیا پیپلز پارٹی 
  • مہنگائی میں کمی کے دعوے
  • حکومت کی یک طرفہ پالیسیوں سے وفاق پر شدید دباؤہے، صدر مملکت
  • میں وہ گورنر نہیں جو صرف باؤنڈری پر رہ کر باتیں کروں، کامران خان ٹیسوری
  • صدر ایف پی سی سی آئی کا بجلی قیمتوں میں کمی کیلئے حکومت سے آئی ایم ایف کو قائل کرنے کا مطالبہ