توہین آمیز پوسٹیں لگانے پر پیکا ایکٹ کے تحت 7 افراد کے خلاف مقدمات درج
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
پیکا ایکٹ کے تحت درج مقدمے کے متن میں لکھا گیا کہ تحسین الرحمان رسول پور جٹاں کا رہائشی ہے جو اپنے ایکس اکاؤنٹ سے ملکی اداروں کے خلاف توہین آمیز پوسٹیں کررہا تھا جبکہ دیگر ملزمان اپنے ایکس اکاؤنٹ اور سوشل میڈیا پر قومی اداروں کے خلاف نازیبا اور توہین آمیز مواد اپ لوڈ کررہے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ سوشل میڈیا پر پاک فوج، اداروں اور سیاسی شخصیات کے خلاف توہین آمیز پوسٹیں لگانے پر ایف آئی اے سائبر کرائم نے 7 افراد کے خلاف 2 مقدمات درج کر لیے۔ ایف آئی اے نے پیکا ایکٹ کے تحت 2 مقدمات درج کئے، پہلا شہباز گل، عادل راجہ، وقار ملک، احمد نورانی اور شفیق الرحمان کے خلاف درج کیا گیا جبکہ دوسرا مقدمہ تحسین الرحمان کے خلاف درج کیا گیا۔ مقدمے کے متن میں لکھا گیا کہ تحسین الرحمان رسول پور جٹاں کا رہائشی ہے جو اپنے ایکس اکاؤنٹ سے ملکی اداروں کے خلاف توہین آمیز پوسٹیں کررہا تھا جبکہ دیگر ملزمان اپنے ایکس اکاؤنٹ اور سوشل میڈیا پر قومی اداروں کے خلاف نازیبا اور توہین آمیز مواد اپ لوڈ کررہے تھے۔ علاوہ ازیں ایف آئی اے سائبر کرائم نے مقدمات درج کرکے تفتیش کا آغاز کردیا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اپنے ایکس اکاؤنٹ اداروں کے خلاف مقدمات درج
پڑھیں:
زکوٰۃ کی رقم ایسی تنظیموں یا اداروں کو نہ دی جائے جنہیں حکومت نے کالعدم قرار دیا ہو،ڈاکٹرراغب نعیمی
لاہور:رمضان المبارک میں زکوٰۃ، صدقہ فطر اور فدیہ صوم کی ادائیگی کے حوالے سے لوگوں میں کافی سوالات پائے جاتے ہیں۔ زکوٰۃ کن افراد کو دینی چاہیے، صدقہ فطر کی مقدار کیا ہونی چاہیے، اور فدیہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ان تمام امور پر روشنی ڈالتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور جامعہ نعیمیہ لاہور کے سربراہ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے ایکسپریس نیوز سے خصوصی بات چیت کی۔
انہوں نے بتایا کہ زکوٰۃ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم فریضہ ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ زکوٰۃ ان افراد پر فرض ہوتی ہے جن کے پاس مقررہ نصاب سے زائد مال ایک سال تک موجود رہے۔ چاندی کے حساب سے نصاب 55 تولے (تقریباً 613 گرام) ہے، جس کی موجودہ قیمت اسٹیٹ بینک کے مطابق تقریباً 80,000 روپے ہے۔ اگر کسی کے پاس ایک سال تک 80,000 یا اس سے زیادہ کی رقم موجود ہو، تو اسے ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔
مویشیوں پر زکوٰۃ کے حوالے سے انہوں نے وضاحت کی کہ جو جانور چراگاہ میں مفت چرتے ہوں، ان پر زکوٰۃ لاگو ہوتی ہے۔ ہر 100 بکریوں میں سے ایک بکری زکوٰۃ میں دی جائے گی، اور ہر 40 بکریوں کے اضافے پر مزید ایک بکری دینی ہوگی۔ تجارتی مقاصد کے لیے پالے گئے جانوروں پر ان کی مجموعی مالیت کے حساب سے ڈھائی فیصد زکوٰۃ فرض ہوگی۔
زکوٰۃ کی تقسیم کے حوالے سے انہوں نے واضح کیا کہ قرآن میں آٹھ مستحقین کا ذکر ہے، جن میں فقرا، مساکین، زکوٰۃ اکٹھا کرنے والے، غلاموں کی آزادی، قرضدار، اللہ کی راہ میں خرچ، مسافر اور نئے مسلمان شامل ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ زکوٰۃ دیتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ صرف ان افراد یا اداروں کو دی جائے جو شرعی اصولوں پر پورا اترتے ہوں۔ اگر کسی ادارے کا شرعی بورڈ موجود نہیں ہے، تو اسے زکوٰۃ دینا مناسب نہیں ہوگا۔
رمضان المبارک میں کئی غیر مسلم افراد بھی راشن یا امداد وصول کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر راغب نعیمی نے وضاحت کی کہ زکوٰۃ صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص ہے اور غیر مسلموں کو نہیں دی جا سکتی، البتہ صدقہ و خیرات یا حکومت کے فلاحی پروگراموں کے ذریعے ان کی مدد کی جا سکتی ہے۔
صدقہ فطر کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کی مقدار کا تعین کھانے پینے کی عادات پر منحصر ہے۔ عام طور پر فی کس کم از کم 220 روپے مقرر کیے گئے ہیں، جبکہ جو لوگ زیادہ استطاعت رکھتے ہیں، وہ کھجور، منقہ یا دیگر اجناس کے حساب سے زیادہ رقم ادا کر سکتے ہیں۔ اگر کسی کے ہاں عید سے پہلے بچہ پیدا ہو جائے، تو اس کا صدقہ فطر بھی ادا کرنا ہوگا، جبکہ مہمانوں پر صدقہ فطر لازم نہیں ہے۔
فدیہ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جو افراد بیماری یا کمزوری کے باعث روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور آئندہ بھی رکھنے کے قابل نہیں ہوں گے، وہ فدیہ ادا کریں گے۔ فدیہ کی مقدار بھی صدقہ فطر کے برابر ہوگی، یعنی ایک روزے کا فدیہ 220 روپے اور پورے رمضان کا 6600 روپے ہوگا۔ تاہم، صحت مند افراد کو بلاعذر روزہ چھوڑنے سے اجتناب کرنا چاہیے، کیونکہ نبی کریمﷺ کی حدیث کے مطابق، بغیر کسی شرعی عذر کے چھوڑے گئے روزے کا کفارہ ساری زندگی روزے رکھنے سے بھی ادا نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ زکوٰۃ اور صدقات دیتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ رقم ایسی تنظیموں یا اداروں کو نہ دی جائے، جنہیں حکومت نے کالعدم قرار دیا ہو۔ محکمہ داخلہ پنجاب نے اس سال 84 ایسی تنظیموں کی فہرست جاری کی ہے، جن پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنی زکوٰۃ اور عطیات ایسی تنظیموں کو دیں جو واقعی مستحق افراد کی فلاح و بہبود میں کام کر رہی ہوں۔