بجلی اور پیٹرول کی قیمت میں حیرت انگیز کمی، شہباز شریف کے لیے خوشخبری
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آئی ایم ایف بجلی بلاول بھٹو پیٹرول خوشخبری عمار مسعود قیمت میں کمی ملکی سیاست وزیراعظم شہباز شریف وسیم عباسی وی ٹاک وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف بجلی بلاول بھٹو پیٹرول ملکی سیاست وزیراعظم شہباز شریف وی ٹاک وی نیوز
پڑھیں:
عمران خان، شہباز شریف اور دیسی نسخہ
مشیت الٰہی کے سامنے انسان کی طاقت اور اختیار کتنا محدود اور بے بس ہے اس کی ایک مثال حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سبا کا قصہ ہے، حضرت سلیمان علیہ السلام کو جانوروں، پرندوں، حشرات الارض اور جنوں کی بولیوں کا علم سکھایا گیا تھا، ہزاروں سال پہلے جب انسان کی فضا میں پرواز کا کوئی تصور نہیں تھا، دنیا کے ایک خطے سے دوسرے علاقے میں آپ کی آمدورفت تخت سلیمان کے ذریعے ہوتی تھی کہ جسے ہم فضائی بیڑہ بھی کہہ سکتے ہیں اور جنات اسے ہوا میں اڑاتے تھے، اس تخت کی پرواز اتنی تیز تھی کہ ایک دن میں مہینے بھر کی مسافت کے برابر سفر طے کر لیتا تھا، آپ کے دربار میں ایسے دیوہیکل جنات اور عفریت (دیو) موجود رہتے تھے کہ جو 3 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ چند گھنٹوں میں طے کر لیتے تھے، آپ کے وزیروں مشیروں میں کتاب کے علم (قانون الہی) کے ایسے عالم تھے کہ ڈیڑھ ہزار کلومیٹر دور سے تخت بلقیس کو پلک جھپکتے میں حاضر کرنے کی قدرت رکھتے تھے‘ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنی بے پناہ صلاحیتیں اور قدرت رکھنے کے باوجود نہ صرف حضرت سلیمان بلکہ ان کی پوری سلطنت فلسطین کے دارالحکومت بیت المقدس سے صرف ڈیڑھ ہزار کلومیٹر دور جزیرہ نما عرب کے دوسرے کونے پر موجود ملک سبا (یمن)میں واقع قوم اور اس کی ملکہ سے بے خبر تھے اور یہ خبر(بریکنگ نیوز)انہیں ایک چھوٹا سا پرندہ ہدہد لا کر دیتا ہے۔ اور پھر ملکہ کے نام حضرت سلیمان علیہ السلام کے پیغام پر مبنی خط بھی یہی ہدہد لے کر جاتا ہے۔یہ مثال دینے کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ آج دنیا کے طاقتور ترین حکمرانوں کے سامنے سجدہ ریز ہونا ہی ہر مسئلے کا حل سمجھتے ہیں ان کا ایمان کمزور ہے کیونکہ تاریخ بھی شاہد ہے اور قانون خداوندی بھی یہی ہے کہ انسان چاہے کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو جائے، مشیت الہی کے سامنے وہ عاجز اور بے بس ہے، اس لئے ہمیں دنیا کے طاقتور لوگوں یا ملکوں کو مختار کل سمجھ کر ان کے سامنے ٹوٹل سرینڈر کی سوچ سے باہر نکلنا ہوگا اور اللہ پر بھروسہ کرکے اپنے حالات کو خود بدلنے کی جدوجہد جاری رکھنا ہوگی کہ اللہ کے رسول کا یہی راستہ ہے، آپ نے قریش مکہ کے مقابلے میں دنیاوی لحاظ سے انتہائی کمزور اور بے بس ہونے کے باوجود اپنی جدوجہد اور صبر و استقامت کے زور پر ہی انحصار کیا اور مسلسل مقابلہ جاری رکھا اور کسی بھی مرحلے پر بیرونی مدد کے ذریعے غالب آنے یا اپنے وقت کی سپر پاورز سے مدد کی درخواست کا راستہ اختیار نہیں کیا، حتی کہ جب تک آپ کو اللہ تعالی نے مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کا حکم نہیں دیدیا آپ دنیاوی لحاظ سے اسی کمزوری و بے بسی کی حالت میں اپنے مشن پر کار بند رہے۔
پاکستان میں جاری موجودہ سیاسی کشمکش کے حوالے سے اس وقت یہ دوڑ جاری ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مدد و سرپرستی کسے حاصل ہوتی ہے، قوم کے ایک حصے کو اس توقع کا نشہ لگا دیا گیا ہے کہ بس اب صدر ٹرمپ عمران خان کی حمایت میں حرکت میں آنے والا ہے اور پھر ’’ستے خیراں‘‘ ہو جائیں گی اور نہ صرف عمران خان کی رہائی عمل میں آ جائے گی بلکہ 8 فروری کے حقیقی مینڈیٹ کی بحالی یا نئے عام انتخابات کا انتظام بھی ہو جائے گا اور کپتان دوبارہ وزیراعظم پاکستان بن جائے گا، جبکہ قوم کے دوسرے حصے کی سوچ یہ بنا دی گئی ہے کہ امریکہ کے نئے صدر ٹرمپ کے ساتھ معاملات بالکل سیدھے ہو گئے ہیں اور اب “ستے خیراں” ہو گئی ہیں اور اگلے 4 سال وزیر اعظم شہباز شریف کی موجودہ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اپنے تمام مسائل کے حل کیلئے بیرونی مدد پر انحصار کی اس سوچ کی وجہ سے ملک کے سیاسی کے ساتھ ساتھ معاشی مسائل کا حل بھی ہمیں صرف بیرونی مدد میں ہی نظر آتا ہے اور ہم ایک نہ ختم ہونے والے قرضوں کے سلسلے میں مزید دھنستے چلے جا رہے ہیں، نہ ہمارے پاس اپنے سیاسی بحران کے حل کا کوئی دیسی نسخہ ہے اور نہ معاشی بحران کے حل کا کوئی دیسی نسخہ ہے، اور جس عالمی طاقت کو ہم نے ان داتا بنا رکھا ہے وہ خود مشیت الہی کے سامنے اس طرح سے بے بس ہے کہ وہ ایک طویل عرصے تک آگ اور خون کی ہولی کھیل کر نہ عراق اور افغانستان کے معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکی ہے اور نہ ہی یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کی اپنی کوشش کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکی، اور حالت یہ ہو گئی ہے کہ وہ چین جو 25 ، 30 سال پہلے اس سے 10 گنا چھوٹی معیشت تھا آج اسے چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آ چکا ہے،نہ جانے ہم اس بات پر غور کیوں نہیں کرتے کہ تاریخ انسانی کی سب سے بڑی فوجی مشین اور سب سے بڑی معیشت رکھنے کے باوجود امریکہ کتنا بے بس ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت کا امیر ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ اس کی کوئی بات نہیں سن رہا، جس نے نہ دنیا کی کسی دفاعی یونیورسٹی سے ڈیفنس اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز کی اعلی تعلیم حاصل کی ہے، نہ وہ عالمی معاشی و سیاسی چیلنجز کے حوالے سے مروجہ اعلی ترین تعلیم و تجربہ رکھتا ہے، لیکن پہاڑوں کے اندر اپنے محفوظ ٹھکانوں میں وہ پچھلے دس پندرہ سالوں سے ورلڈ آرڈر کیلئے چیلنج بنا بیٹھا ہے اور اپنے جیسے بظاہر بے سروسامان اور جدید تعلیم سے بے بہرہ جنگجووں کے نیٹ ورک کے ذریعے وہ ملک اور خطے میں “اپنے ایجنڈے” کے نفاذ پر مصر ہے اور اس سلسلے میں چین اور ایران کے ساتھ مل کر وہ ایک متبادل ورلڈ آرڈر کا حصہ بھی بن چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سابق وزیراعظم عمران خان اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف ان عالمی حالات و واقعات اور انسانی تاریخ کے مختلف حوالوں سے سبق حاصل نہیں کر سکتے؟ اور کیا ہم بھی مشیت الہی پر بھروسہ کرتے ہوئے بیرونی مدد پر انحصار چھوڑ کر ملکی مسائل کے حل کا خود مل بیٹھ کر کوئی دیسی نسخہ نہیں بنا سکتے؟ کیونکہ پائیدار حل تو کسی دیسی نسخے سے ہی نکلے گا، بیرونی مدد اپنے ساتھ بیرونی ایجنڈہ بھی لاتی ہے، اور جب تک ہمارے ملک میں بیرونی ایجنڈے آتے رہیں گے بات نہیں بنے گی، وجہ اس کی یہ ہے کہ بیرونی ایجنڈے بیرونی مفادات کے ہی تابع ہوتے ہیں اور انہیں ملکوں کے اندرونی استحکام اور مفادات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، بقول شاعر
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے