Express News:
2025-03-12@06:42:13 GMT

ادب : کیسی کیسی کہانیاں

اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT

اسٹرابیری

قاسم کی طبیعت کئی روز سے سنبھلنے میں نہیں آرہی تھی۔ گیارہ سالہ قاسم بیماری کے باعث ایسا لاغر و کم زور ہوا کہ زیادہ تر غشی کی سی کیفیت میں رہتا۔ محلے کے ڈاکٹر سے مکسچر اور رنگ برنگی گولیاں لاکے قاسم کو پابندی سے کھلائی جاتیں لیکن قاسم کی حالت میں فرق نہیں پڑا۔

رقیہ اپنے اکلوتے بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کے خود ادھ موئی سی ہوگئی تھی۔ اس کی تینوں بیٹیاں بھی جو قاسم سے چھوٹی تھیں، اپنے اکلوتے بھائی کی حالت سے غم گین تھیں۔ مولوی غُلام حسین کو بھی بیٹے کی بیماری تڑپاتی تھی۔

کئی مرتبہ لوگوں نے انھیں مشورہ دیا کہ سڑک پار صاحبِ حیثیت لوگوں کی آبادی میں جاکر کسی سے مدد طلب کریں لیکن انھوں نے قطعیت سے انکار کردیا۔ وہ اللّہ پر توکل کرنے والے قانع انسان تھے اس لیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا پسند نہیں کرتے تھے۔ اس دن قاسم نے ذرا سی آنکھیں کھولیں تو رقیہ کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔

’’امّاں!‘‘

’’ہاں میرے لعل!‘‘

’’امّاں بھوک لگی ہے۔‘‘

’’میں ابھی کھانا لائی۔‘‘

یہ کہہ کر رقیہ باورچی خانے میں گئی اور جلدی سے پتلی کھچڑی اُبال کے لے آئی۔ قاسم کو سہارا دے کر بٹھایا اور اپنے ہاتھ سے کھلانے لگی۔ تھوڑا سا کھانے کے بعد اس نے منھ ہٹالیا۔

’’کیا ہوا کھا کیوں نہیں رہے؟‘‘

’’بس امّاں۔ کھالیا۔ ایک بات کہوں؟‘‘

’’ہاں بیٹے! کہو۔‘‘

’’امّاں میرا جی چاہ رہا ہے میں اسٹرابیری کھاؤں۔‘‘

یہ کہہ کر قاسم پُرامّید نظروں سے ماں کو دیکھنے لگا۔ اُس کی مختصر سی زندگی میں ایسے لمحات بہت کم آئے تھے جب اُس نے پیٹ بھر کے کچھ اچّھی چیز کھائی ہو۔ رقیہ اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے بولی:

’’ہاں ہاں کیوں نہیں، تُم ذرا اچّھے ہوجاؤ۔‘‘

قاسم نے لیٹ کے آنکھیں موند لیں۔ جیسے اسے بھی علم ہو کہ ماں اسے صرف بہلارہی ہے۔ بھلا جس گھر میں ایک سے دوسرے وقت کھانے کا آسرا نہیں ہوتا وہاں مہنگے پھلوں کا کیا تصور۔

ظہر کی نماز پڑھا کر مولوی غلام حسین گھر آئے تو رقیہ نے دبے دبے لفظوں میں قاسم کی خواہش کا ذکر کِیا۔ مولوی صاحب ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گئے۔

’’نیک بخت! تم تو جانتی ہو یہاں کھانے کا پورا نہیں پڑرہا۔ پھل کیسے خرید سکتے ہیں، وہ بھی اتنا مہنگا پھل۔ آج شاید رمضان کا چاند نظر آجائے۔ پھل پہلے ہی مہنگے تھے اب تو اور بھی مہنگے ہوجائیں گے۔‘‘

’’مجھے معلوم ہے لیکن میں کیا کروں۔ میرا بچہ کبھی کچھ نہیں مانگتا۔ بیماری کے دنوں میں اس نے پہلی مرتبہ کوئی خواہش کی ہے۔‘‘

’’اللہ سے دعا کرو۔ وہ مسبب الاسباب ہے ضرور کوئی سبیل نکالے گا۔‘‘

رقیہ کچھ نہ بولی۔ مولوی صاحب کا دل بھی اندر سے کٹ گیا تھا لیکن مجبور تھے کچھ کر نہیں سکتے تھے سو وہ بھی خاموش ہی رہے۔ اسی دن مغرب کے بعد رمضان کے چاند کا اعلان ہوا۔ رمضان کا چاند دیکھ کے مولوی غلام حسین نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تو مسنون دعائیں پڑھ کے ان کے دل سے ایک ہی دعا نکلی ’’اے پروردگار! میں تجھ سے اپنے لِیے کُچھ نہیں مانگتا لیکن میرے بیٹے کی خواہش پوری کردے۔‘‘ نہ جانے کیوں اُن کا دل بھر آیا اور بے تحاشا آنسو بہنے لگے۔ اگلے دن پہلا روزہ تھا۔ افطار سے ذرا پہلے، ایک بہت شان دار سی گاڑی، جس کے پیچھے ایک ٹرک تھا، آکے مسجد کے دروازے پہ رُکی۔ ایک خوش پوش شخص اس میں سے اترا اور مسجد کے اندر آیا۔ اس وقت مسجد میں مؤذن محمد صابر تھے۔ اس شخص نے مسجد کے پیش امام کے بارے میں پوچھا، محمد صابر مولوی صاحب کو بلا لائے۔ اس شخص نے مولوی صاحب سے کہا:

’’آپ نے مشہور صنعت کار سیٹھ ابراہیم کا نام تو سُنا ہوگا جو کاٹن کنگ کہلاتے ہیں، میں ان کا مینجر افتخارعالم ہوں۔ سیٹھ صاحب کے والد کے دل کا آپریشن تھا۔ انھوں نے منّت مانی تھی کہ اگر آپریشن کام یاب رہا تو وہ پورا رمضان اس بستی کے مکینوں کو افطار کروائیں گے۔ آج سے بستی والوں کا افطار سیٹھ صاحب کی طرف سے۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے اپنے ساتھ آنے والوں کو دیکھا۔ انھوں نے افطار اور کھانے کا سامان ٹرک سے اُتارنا شروع کیا۔ پھر اس نے ایک شخص کو اشارہ کیا۔ وہ دو بڑے بڑے خوان، جو کپڑے سے ڈھکے ہوئے تھے، اٹھائے مولوی صاحب کی طرف بڑھا۔ افتخار عالم نے کہا:

’’مولوی صاحب یہ خوان آپ کے لِیے سیٹھ صاحب نے بھجوائے ہیں۔‘‘

ہوا سے ایک خوان سے ذرا سا کپڑا ہٹا۔ پھلوں کا ایک انبار تھا جس میں اسٹرابیری کا ایک بڑا سا ڈبّا بھی نظر آرہا تھا۔

۔۔۔

ریٹ

’’صاحب صاحب! یہ ذرا میری فائل دیکھ لیں۔ روز چکّر لگارہا ہوں۔ آپ نے جتنے پیسے کہے میں وہ بھی لے آیا ہوں۔ اب تو میرا کام کردیں۔‘‘

 پریشان حال ضعیف العُمر شخص نے افسر سے کہا جس کے پیشانی پہ بل پڑے ہوئے تھے۔ افسر نے اُس کے ہاتھ میں دبے ہوئے نوٹوں کو دیکھا اور تُرش روئی سے کہا:

’’جاؤ یہاں سے ابھی ٹائم نہیں ہے بعد میں آنا۔‘‘

 بوڑھا گڑگڑانے لگا کلرک نے اسے جھڑک دیا:

’’تم سے کہا ہے ناں ابھی میرے پاس ٹائم نہیں ہے جاؤ یہاں سے۔‘‘

 وہ ناامید ہوکر پیچھے ہوا اور دفتر کے دروازے سے باہر نکل کے احاطے میں دیوار کے ساتھ لگی ہوئی بینچ پہ بیٹھ کے پیشانی سے پسینہ پونچھنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ تب صاحب کا منہ چڑھا پیون اس کے قریب ا کے بیٹھ گیا اور کہا:

 ’’بابا جی کیا مسئلہ ہے؟‘‘

’’صاحب کے دستخط نہ ہونے کی وجہ سے میرا کام اٹکا ہوا ہے۔ انھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ فائل میں پہیے لگا دو تو تمھارا کام ہوجائے گا اب میں پیسے لے کر آیا ہوں لیکن صاحب نے میرا کام پھر بھی نہ کیا۔ اللّہ جانتا ہے میں کس کس سے قرض لے کے یہ رقم اکٹھی کرکے لایا ہوں۔‘‘

 پیون نے پوچھا:

’’کتنی رقم ہے؟‘‘

 بوڑھے نے مُٹھی میں دبے ہوئے نوٹ اس کے سامنے کردیے۔ پیون نے ادھر ادھر دیکھ کر چھپا کے نوٹ گننا شروع کیے اور پھر اسی طرح بوڑھے کی مٹھی میں تھما دیے۔

’’بابا تمھیں پتا نہیں ہے رمضان میں ہر چیز کا ریٹ ڈبل ہوجاتا ہے اور تم اسی پرانے ریٹ پہ کام کروانا چاہ رہے ہو۔ اب یہ ریٹ پرانے ہوگئے، تمھیں اپنی فائل کو پہیے لگانے ہیں تو یہ رقم ڈبل کرنا ہوگی۔‘‘

بوڑھا نااُمّیدی سے مٹھی میں دبے ہوئے نوٹوں کو دیکھنے لگا

۔۔۔

کمائی کا مہینہ

’’یہ دکھائیں۔‘‘

گاہک نے شیلف پہ رکّھے ہوئے ایک تھان کی طرف اشارہ کیا۔ شیخ صاحب نے ملازم لڑکے کو اشارہ کیا۔ اس نے وہ کپڑا گاہک کے سامنے لا رکھا۔ چند مزید تھان کھلوانے کے بعد ایک کپڑا گاہک کو پسند آیا لیکن قیمت سن کر وہ ہتھے سے اکھڑ گیا۔ بس لڑائی ہوتے ہوتے بچی۔ گاہک کا کہنا تھا اسی برانڈ کا کپڑا اس نے ڈیڑھ مہینے پہلے آدھی قیمت پہ خریدا تھا۔ بہت مشکل سے پانچ سو پہ بات بنی۔ دن بھر گاہکوں سے قیمت پر تکرار ہوتی رہی۔ یہ کسی ایک دکان کا معاملہ نہیں تھا بلکہ مارکیٹ کی ہر دکان پہ یہ ہی صورت حال تھی۔ شام کو شیخ صاحب کے پڑوسی دکان دار نے ان سے پوچھا:

’’شیخ صاحب! کتنی سیل ہوئی؟‘‘

’’اللہ کا کرم ہے۔ رمضان کی برکت سے اچّھا منافع ہوگیا۔‘‘

شیخ صاحب کا جواب سُن کر ملازم لڑکے نے دل میں سوچا واقعی رمضان کی برکت ہے کہ دُگنے داموں پہ مال فروخت ہورہا ہے۔

۔۔۔

حصّہ

’’امرود کیا حساب دیے؟‘‘

’’دو سو روپے کلو۔‘‘

’’دو سو روپے؟؟؟ اور سیب؟‘‘

’’ڈھائی سو روپے۔ مشہدی سیب ہے۔‘‘

’’تم لوگوں نے تو حد کردی ہے اتنی مہنگائی۔ ہر چیز کے دام دُگنے۔‘‘

’’صاحب کیا کریں، قیمت ہم نے نہیں بڑھائی۔ ہمیں بھی یہ پھل مہنگے پڑ رہے ہیں جبھی اِس دام بیچ رہے ہیں۔‘‘

عبدالرحیم نے بہت رسان سے کہا، لیکن گاہک کا غصہ کم نہ ہوا۔ اس نے بڑبڑاتے ہوئے پھل لے کے پیسے دیے اور چلا گیا۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ رمضان میں ہر دن قیمت پہ خریدار اور دکان دار کی یوں ہی تکرار ہوتی تھی۔ افطار سے کُچھ پہلے جب بازار بند ہونے لگا تو عبدالرحیم نے بھی اپنا سامان سمیٹا اور ٹھیلا بند کرنے لگا۔ تبھی ایک سپاہی اُس کے قریب آیا۔

’’ہاں بھئی! نکالو میرا حصہ۔‘‘

عبدالرحیم نے ایک بڑے سے تھیلے میں پھل اور ایک نیلا نوٹ اُس کی طرف بڑھادیا۔

’’یہ کیا؟ مجھے اتنے کم پیسے نہیں چاہییں۔ اس کو ڈبل کرو۔‘‘

عبدالرحیم نے لجاجت سے کہا:

’’آج یہ رکھ لو۔ زیادہ پھل نہیں بِکے۔ کل سے پھل اور زیادہ قیمت پہ بیچوں گا تو تمھارا حصہ بھی بڑھادوں گا۔‘‘

۔۔۔

اب کیا ہوگا

فضلو کے گھر میں سوگ کا سا عالم تھا۔

’’ارے رحیم کے ابا اب کیا ہوگا۔‘‘

’’مجھے کیا پتا کیا ہوگا۔ میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں مجھے اور نہ تنگ کر۔‘‘

’’ارے تو میں نے تجھے تھوڑا ہی پریشان کیا ہے میں تو یہ پوچھ رہی ہوں کہ اب کیا ہوگا۔ ابھی تو ہمیں نجو کی شادی بھی کرنا تھی اور اشرف کو بھی کاروبار کروانا تھا نجو کے بعد پھر ہمیں رضیہ کا بھی جہیز جوڑنا تھا لیکن اب کیا ہوگا۔‘‘

’’دیکھ چپ ہوجا میرا سر نہ کھا۔ میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں۔ میں کیا جانوں کیا ہوگا۔‘‘

 ’’ارے تو میں نے کیا کہا ہے۔ تجھ سے پوچھا ہی تو ہے کہ اب ہم کیا کریں گے۔ تُو مجھ سے کیوں لڑ رہا ہے۔‘‘

’’تو چپ نہیں ہوگی۔ آگے سے بکواس کِیے جائے گی۔‘‘

یہ کہتے کہتے فضل دین اپنی جگہ سے اُٹھا اور بشیراں کے چہرے پہ ایک تھپڑ جڑدیا۔ بشیراں پلٹ کے گری اور یوں چلانا شروع کردیا جیسے اسے ذبح کِیا جارہا ہو۔ جوابی کارروائی کے طور پر وہ بھی برتن پھینک کے مارنے لگی۔ اتنا شورشرابا ہوا کہ محلے کے گھروں تک آوازیں پہنچیں۔ برابر والے گھر سے صابر نے آکے دروازہ پر پڑا ٹاٹ کا پردہ اُٹھایا اور اندر داخل ہوگیا۔

’’او بھائی فضل دین! خیریت تو ہے، شور کی آوازیں آرہی ہیں۔‘‘

 بشیراں نے کچھ نہ کہا اور منہ پھیرلیا۔ فضل دین موڑھے پہ بیٹھ گیا۔ صابر دونوں کی شکلیں دیکھ رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا فضل نے اسے بھی چارپائی پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ بیٹھ گیا اور بولاؒ:

’’ہاں بھائی! اب تو بتادو آخر کیا بات ہے جو اتنی رات گئے تم لوگ اتنے زور زور سے لڑ رہے ہو، پورے محلے میں آوازیں گونج رہی ہیں۔‘‘

 فضل دین نے بہت افسردگی سے کہا:

’’بھائی تمھیں تو پتا ہی ہے سعودی عرب اور امارات میں پاکستانیوں کے ویزے بند ہوگئے ہیں تو پھر یہ کہ رمضان کے مہینے میں وہاں جاکے اللّہ کے نام پہ ہم لوگ اتنا مانگ لاتے تھے کہ پورا سال عیش کی زندگی گزارتے تھے لیکن اب تو ویزے ہی بند ہوگئے۔ ہم اس ایک مہینے میں اتنا کماتے تھے جو پورے سال کی کمائی سے زیادہ ہوتا تھا لیکن اب کیا کریں گے ہم یہ ہی سوچ سوچ کے پریشان ہورہے ہیں کہ اب کیا ہوگا۔‘‘

۔۔۔

عبادت کا مہینہ

’’حرا! پکوڑے تلنا شروع کردو، افطار میں زیادہ وقت نہیں ہے۔‘‘

صفیہ بیگم نے اپنی بہو سے پکار کے کہا۔ جی اچّھا کہہ کے حرا اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔ اس کے سسرال میں افطار میں بہت اہتمام ہوتا تھا۔ انواع و اقسام کی چیزوں کے علاوہ دو تین طرح کے شربت، افطار کے بعد کھانا اور چائے۔ حرا عشاء کے بعد تک بھی فارغ نہیں ہوپاتی تھی۔ اُن کے ہاں آئے دن افطار پہ لوگ مدعو ہوتے۔ اس دن بھی حرا کی ساس صفیہ بیگم کی دو بہنوں اور ایک بھائی کے گھر والے افطار پہ مدعو تھے، لہٰذا افطار کا دسترخوان خاصا وسیع تھا۔ پھر کھانے میں بھی دو تین پکوان تھے۔ نماز اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکے سب لوگ گپ شپ کرنے لگے۔ حرا سب کو چائے دے کے کچن میں آگئی۔ برتن دھونا اور کچن کی صفائی باقی تھی اور سحری کے کھانے کی تیّاری بھی ابھی سے کرنا تھی۔ حرا کی ساس نے حرا کو سُنانے کے لیے زور سے کہا:

’’رمضان کے مہینے میں جتنی بھی عبادت کرو، کم ہے لیکن ہماری بہو بیگم کو نفل نماز یا تلاوت کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ قرآن پاک پڑھنے کو کہو تو انھیں کوئی نہ کوئی کام یاد آجاتا ہے۔ ارے گھر کے کام بھلا ہوتے ہی کیا ہیں۔‘‘

حرا نے ایک تلخ مُسکراہٹ کے ساتھ ان کی بات سنی اور برتن دھونے لگی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عبدالرحیم نے اب کیا ہوگا مولوی صاحب اشارہ کیا انھوں نے نہیں ہے کے بعد سے کہا ہے میں کی طرف وہ بھی کچھ نہ

پڑھیں:

سیاست سے رواداری ختم

سیاست ہمیشہ سے مکالمے برداشت اور دلیل کی بنیاد پر چلتی آئی ہے۔ اختلافات رہے، نظریاتی تقسیم بھی موجود رہی مگر جمہوریت اسی صورت میں پروان چڑھتی ہے جب اختلافِ رائے کو برداشت کیا جائے، جب دوسروں کو سننے اور سمجھنے کی روایت باقی رہے۔ مگر جب سیاست میں سے رواداری ختم ہو جائے ،جب اختلاف کو دشمنی سمجھا جانے لگے ،جب مکالمے کی جگہ دھمکی اور دلیل کی جگہ تحقیر لے لے تو پھر جمہوریت صرف ایک دکھاؤا بن کر رہ جاتی ہے۔

 دنیا کی تاریخ میں کئی بار ایسے مرحلے آئے ہیں جب طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں نے مکالمے کے بجائے طاقت اور جبر کا راستہ اپنایا، جب دلیل کو مسترد کرکے دھونس کو سیاست کا ہتھیار بنایا گیا۔ ایسی سیاست کا انجام ہمیشہ ایک جیسا رہا ہے، انتشار، بد امنی، عوام میں مایوسی اور ریاست میں عدم استحکام۔

 یہ صرف کسی ایک ملک کی کہانی نہیں۔ آج دنیا میں کئی مقامات پر یہی کچھ ہو رہا ہے۔ جمہوریت کا لبادہ اوڑھے کئی ممالک میں آمریت کی روح سرایت کرچکی ہے۔ طاقتور لوگ اختلاف کو برداشت کرنے کے بجائے اسے دبانے پر یقین رکھتے ہیں۔ گفتگو کے دروازے بند کردیے گئے ہیں اور جو سوال اٹھائے اسے یا تو باغی قرار دے دیا جاتا ہے یا غدار۔ حالیہ دنوں میں ایک عالمی رہنما نے ایک ریاستی صدر کے ساتھ جس انداز میں گفتگو کی وہ اسی جمہوری زوال کی ایک جھلک ہے۔

لب و لباب یہی تھا کہ یا تو ہماری بات مانو ورنہ سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہو۔ یہ زبان کسی جمہوری رہنما کی نہیں ہوسکتی یہ وہ طرزِ عمل ہے جو آمریت میں دیکھا جاتا ہے جہاں اقتدار پر قابض لوگ کسی بھی اختلاف کو اپنی طاقت کے لیے خطرہ سمجھ کر اسے کچل دینا چاہتے ہیں۔

 پاکستان کی سیاست بھی اسی روش پر چل رہی ہے۔ یہاں بھی مکالمہ ختم ہوچکا ہے یہاں بھی برداشت کا جنازہ نکل چکا ہے اور یہاں بھی اختلاف کو دشمنی سمجھا جانے لگا ہے۔ سیاسی تقسیم اس نہج پر پہنچ چکی ہے جہاں دلیل کی جگہ الزامات اور تحقیر نے لے لی ہے۔

 ماضی میں بھی یہاں اختلاف کو دبانے کے لیے ہر ممکن ہتھکنڈہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ 1970 کی دہائی میں جب ملک شدید سیاسی تقسیم کا شکار تھا تو اس کا نتیجہ ہمیں 1971 میں دکھائی دیا۔ ایک ایسا بحران پیدا ہوا جس نے ملک کے دو ٹکڑے کر دیے۔ اس کے بعد بھی یہی روش جاری رہی، 1990 کی دہائی میں سیاسی قیادت کے درمیان محاذ آرائی نے جمہوریت کو کمزور کیا، معیشت کو نقصان پہنچایا اور اداروں کو بے توقیر کردیا۔

 آج بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ سیاسی اختلاف کو غداری قرار دیا جا رہا ہے، ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ ہے اور سیاست صرف مخالفین کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ سیاستدانوں کی گفتگو میں دلیل کم اور نفرت زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ جو بلند آواز میں بولے جو زیادہ اشتعال انگیز بات کرے وہی کامیاب سمجھا جاتا ہے۔

 یہ رویہ صرف سیاست تک محدود نہیں رہا۔ میڈیا، سوشل میڈیا اور عوامی سطح پر بھی یہی مزاج سرایت کر چکا ہے۔ ایک وقت تھا جب سیاسی مباحثے علمی ہوا کرتے تھے جب اختلاف کو علمی و فکری بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ مگر آج ہر ٹی وی اسکرین پر الزامات ،گالی گلوچ اور دھمکیوں کی بھرمار ہے۔

سیاستدانوں کے لیے مخالف کو نیچا دکھانا سب سے بڑی ترجیح بن چکا ہے۔ ایک وقت تھا جب پارلیمنٹ میں سیاسی قیادت ایک دوسرے کو برداشت کرتی تھی مگر آج وہاں بھی وہی کچھ ہوتا ہے جو ٹی وی اسکرین پر نظر آتا ہے۔ کوئی چیختا ہے، کوئی میز پر ہاتھ مارتا ہے، کوئی دوسرے کو غدار کہتا ہے اور کوئی ہاتھا پائی پر اتر آتا ہے۔ یہ سیاست نہیں، یہ ایک تماشا ہے، ایک ایسا تماشا جو سماج کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرتا ہے۔

 اس تماشے کے اثرات عوام پر بھی پڑ رہے ہیں۔ جب سیاست میں برداشت ختم ہو جائے، جب دلیل کا قتل کردیا جائے، جب اختلاف کرنے والوں کو غدار قرار دیا جائے تو پھر یہی رویہ عام زندگی میں بھی نظر آتا ہے۔

لوگ ایک دوسرے کو سننے کے بجائے لڑنے کو تیار ہوجاتے ہیں، عدم برداشت عام ہو جاتا ہے اور ہر اختلاف کا نتیجہ نفرت اور تصادم میں نکلتا ہے۔ آج پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ سڑکوں پر گھروں میں تعلیمی اداروں میں ہر جگہ تلخی بڑھتی جا رہی ہے۔ سیاسی تقسیم نے عوامی زندگی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کوئی کسی ایک جماعت کو سپورٹ کرتا ہے ،کوئی کسی دوسری کو، مگر دونوں کے درمیان مکالمہ ممکن نہیں۔ دونوں اپنے اپنے نظریے پر اس قدر ڈٹے ہوئے ہیں کہ دوسروں کی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جو سماجی زوال کی نشاندہی کرتا ہے۔

معاشی بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے، عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، بے روزگاری عام ہو چکی ہے مگر سیاستدانوں کی توجہ ان مسائل پر نہیں۔ ان کے نزدیک سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ کون اقتدار میں آئے گا اور کس کو اقتدار سے باہر رکھنا ہے۔ معیشت کی زبوں حالی کسی کا مسئلہ نہیں تعلیم اور صحت کی تباہی کسی کی ترجیح نہیں، بس اقتدار کا کھیل جاری ہے۔ اسی کھیل میں ادارے بھی کمزور ہو رہے ہیں، عدلیہ بھی دباؤ میں آ رہی ہے اور جمہوری عمل بھی اپنی ساکھ کھو رہا ہے۔ ایسے میں اگر سیاستدان خود بھی مکالمے اور رواداری کو خیرباد کہہ دیں تو پھر سیاست کا مطلب ہی ختم ہو جاتا ہے۔ وہ سیاست جس کا مقصد عوام کی خدمت تھا،وہ محض طاقت کی جنگ بن کر رہ جاتی ہے۔

یہ سب کچھ دیکھ کر سوال اٹھتا ہے کہ آخر اس صورتحال کا حل کیا ہے؟ کیا سیاست ہمیشہ اسی طرح رہے گی؟ کیا برداشت کبھی واپس آئے گی؟ کیا سیاستدان کبھی ایک دوسرے کو سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہوں گے؟ ان سوالوں کے جواب شاید اتنے آسان نہیں مگر ایک بات طے ہے کہ جب تک سیاست میں مکالمہ بحال نہیں ہوگا جب تک برداشت واپس نہیں آئے گی، جب تک دلیل کو دبانے کے بجائے اسے سننے اور سمجھنے کا رجحان پیدا نہیں ہوگا، تب تک سیاست اسی طرح زہر آلود رہے گی اور اس کا نقصان صرف سیاستدانوں کو نہیں پورے ملک کو اٹھانا پڑے گا۔ عوام کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ کیسی سیاست چاہتے ہیں۔ اگر وہ بار بار ان ہی لوگوں کو منتخب کریں گے جو نفرت کی سیاست کرتے ہیں جو مکالمے کے بجائے تصادم کو ترجیح دیتے ہیں تو پھر بہتری کی امید کیسے رکھی جا سکتی ہے؟

سیاست صرف اقتدار کا نام نہیں، یہ ایک ذمے داری ہے، ایک عہد ہے کہ عوام کی بہتری کے لیے کام کیا جائے گا۔ اگر سیاستدان اپنی ذمے داری کو بھول جائیں، اگر وہ اپنے مفادات کو عوامی مفادات پر ترجیح دینے لگیں، اگر وہ اقتدار کے لیے ہر حد پار کرنے کو تیار ہو جائیں تو پھر سیاست اپنی اصل سے محروم ہو جاتی ہے۔ پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے اور اس وقت اسے ایسی سیاست کی ضرورت ہے جو دلیل برداشت اور مکالمے پر مبنی ہو۔ مگر اگر سیاست اسی طرح نفرت اور تصادم کا شکار ہو جائے گی تو یہ ممکن نہیں رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • سیاست سے رواداری ختم
  • جراتِ انکار ( پہلا حصہ)
  • چلتی پھرتی کہانیاں
  • پشاور ہائی کورٹ کا پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کا حکم
  • پاکستان کرکٹ
  • یوٹیلٹی اسٹورز کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہہ دیا، اسکی بدترین کرپشن کی کہانیاں عام تھیں، وزیراعظم
  • سال 25۔2024 میں خواتین پارلیمنٹیرینز کی کارکردگی کیسی رہی؟ فافن کی رپورٹ جاری
  • ’سیٹ ون سی‘
  • خواتین پارلیمنٹرینز کی کارکردگی کیسی رہی؟ رپورٹ آگئی