معذور خواتین اور لڑکیاں آن لائن ہراسانی کا زیادہ نشانہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 11 مارچ 2025ء) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ رکن ممالک کو آن لائن ہراسانی روکنے اور جسمانی معذور خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے ٹیکنالوجی تک مساوی رسائی یقینی بنانا ہو گی۔
ان کا کہنا ہے کہ عالمی برادری انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے میں جسمانی معذور افراد کے حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام ہے۔
ہر جگہ ایسے لوگوں کو امتیازی سلوک اور مستردگی کا سامنا رہتا ہے جبکہ جسمانی معذوری کا شکار خواتین اور لڑکیاں اس صورتحال سے کہیں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں جنہیں بدسلوکی کا ہدف بنایا اور نظرانداز کیا جاتا ہے۔ Tweet URLاقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں بات کرتے ہوئے ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ آج کی آن لائن دنیا میں ہراسانی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں۔
(جاری ہے)
معذوری، تفریق اور تشددجسمانی معذور افراد کے حقوق پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار حبا ہغراس نے کونسل میں اسی انتباہ کو دہراتے ہوئے کہا کہ خواتین کے حقوق کو فروغ و تحفظ دینے میں پیش رفت جمود کا شکار ہے۔ پائیدار ترقی کے اہداف کو دیکھا جائے تو پیش رفت 14 فیصد تنزلی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جسمانی معذور خواتین اور لڑکیوں کے حوالے سے یہ صورتحال اور بھی خراب ہے جنہیں کئی طرح کی تفریق کا سامنا ہے۔
انہیں صںفی بنیاد پر اور اپنی معذوری کی وجہ سے امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہ تعلیم اور روزگار میں بہت پیچھے ہیں اور انہیں تشدد و بدسلوکی بالخصوص جبری اسقاط حمل، گھریلو تشدد اور جنسی استحصال کا خطرہ دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے۔مددگار ٹیکنالوجی کی خامیاںوولکر ترک کا کہنا تھا کہ جسمانی معذور افراد کے لیے کئی طرح کی مددگار ٹیکنالوجی مردوں نے مردوں کے لیے تیار کی ہیں جیسا کہ بعض بیساکھیاں صرف مردوں کے لیے ہی موزوں ہوتی ہیں جبکہ انہیں خواتین کے لیے بھی یکساں فائدہ مند ہونا چاہیے۔
اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے سماعت و بصارت سے محروم افراد کے لیے عالمی ادارے کے صدر سنجا ترکزے نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، جسمانی معذوری کے حامل صرف 10 فیصد لوگوں کو ہی مددگار ٹیکنالوجی تک رسائی ہے۔
یہ ٹیکنالوجی محض سادہ آلات نہیں ہوتے بلکہ ان کی بدولت جسمانی معذور افراد کو زندگی میں اپنا کردار بھرپور طور سے ادا کرنے میں مدد ملتی ہے۔
ایسی دنیا محض ایک خواب نہیں جس میں تمام معذور افراد کو مساوی مواقع ملیں بلکہ اسے ممکن بنانا سبھی کی مشترکہ ذمہ داری بھی ہے اور تمام لوگوں کو باہم مل کر اسے حقیقت کا روپ دینا ہے۔سوشل میڈیا کی ذمہ داریجسمانی معذور افراد کے حقوق کی علمبردار نکی للی نے کونسل میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انٹرنیٹ نے سائبر ہراسانی اور آن لائن نفرت کے نئے مواقع پیدا کیے ہیں۔
سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم کو ٹیکنالوجی کی تیاری میں جسمانی معذور افراد کو بھی شامل کرنا ہو گا اور ہراسانی و نفرت پر مبنی پوسٹ حذف کرنے اور انہیں جاری کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے عمل کو تیز رفتار بنانا ہو گا۔انہوں نے جسمانی معذور افراد کے حقوق پر اقوام متحدہ کے کنونشن (یو این سی آر پی ڈی) کا خیرمقدم کرتے ہوئے کونسل کے ارکان سے اپیل کی کہ وہ ایسے قابل رسائی ڈیجیٹل نظام پر سرمایہ کاری یقینی بنائیں جس میں تمام لوگوں کے ساتھ مساوی سلوک ہو، آن لائن ہراسانی پر احتساب کا مضبوط طریقہ اختیار کیا جائے اور ایسی مشمولہ پالیسیاں بنائی اور نافذ کی جائیں جن کی بدولت ہر فرد معاشرے میں مساوی کردار ادا کر سکے۔
انسانی حقوق کونسل سے نکی للی کا خطاب دیکھے.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جسمانی معذور افراد کے حقوق اقوام متحدہ کرتے ہوئے حقوق کو آن لائن کا کہنا کے لیے
پڑھیں:
کاروباری طبقہ جیت گیا، نیب کی نئی بزنس فرینڈلی پالیسی سے اعتماد بحال، ہراسانی ختم
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستان کی تاجر برادری نے نیب کی نئی بزنس فرینڈلی پالیسی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے، جس میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کی مشاورت سے 10؍ مقدمات پہلے ہی بند اور تاجروں کی متعدد شکایات کا ازالہ کیا گیا ہے۔ ایف پی سی سی آئی کے نیب سے وابستہ امور کے فوکل پرسن احمد چنائے نے دی نیوز سے بات چیت میں بتایا ہے کہ کاروباری طبقے کو ہراسانی سے بچانے کیلئے متعارف کرائے گئے نظرثانی شدہ ایس او پیز نافذ ہونے سے مختلف کاروباری افراد کی جانب سے تقریباً 12؍ کیسز سامنے لائے گئے، مختلف نوعیت کے ان کیسز کو نیب کے ساتھ مل کر حل کیا گیا جبکہ تکنیکی بنیادوں پر دو کیسز زیر التوا ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ نیب کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ نے کئی جاری انکوائریز کا حیثیت میں جائزہ لیا، تحمل سے خدشات کو سنا اور ادارے کے عہدیداروں کو منصفانہ اور شفاف انکوائری کو یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ نیب کے نئے طریقہ کار نے کاروباری طبقے میں ادارے کے تشخص کو نمایاں طور پر بہتر کیا ہے، ادارے کے حوالے سے ناانصافی اور زیادتیوں کا تاثر کم ہو چکا ہے، ادارے پر اعتماد بحال ہو رہا ہے اور اب کاروباری طبقہ نیب کے ساتھ مل کر کام کرنے میں پرسکون محسوس کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مثبت تبدیلی سے سرمائے کی بیرون ملک منتقلی روکنے میں مدد ملی ہے اور ملک میں نئی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ احمد چنائے نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ نیب افسران اب زیادہ قابل رسائی ہیں، جس سے کاروباری افراد بلا خوف ان سے براہ راست رابطہ کر سکتے ہیں۔ نیب کے چیئرمین نے گزشتہ ایک سال کے دوران متعدد بار کراچی کا دورہ کیا اور کاروباری برادری کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہوئے بیورو پر اعتماد کو مزید مستحکم کرنے کیلئے اقدامات کیے۔ 2024ء کے اوائل میں، نیب نے اعلیٰ کاروباری ایگزیکٹوز کے ساتھ مشاورت کے بعد بزنس کمیونٹی سے متعلق کیسز کے جائزے کیلئے نئے ایس او پیز متعارف کرائے۔ چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ کی سربراہی میں اس اقدام کا مقصد ماضی کی شکایات کو دور کرنا اور کاروباری برادری کی سہولت کو یقینی بنانا تھا۔ نیب کے جارحانہ رویے کی وجہ سے برسوں سے تاجر برادری کو ہراسگی کا سامنا رہا، معروف تاجروں کیخلاف من گھڑت مقدمات اور جھوٹے الزامات عائد کیے گئے۔ احمد چنائے کے مطابق، اس صورتحال کے نتیجے میں سرمایہ بیرون ملک منتقل ہوا، سرکاری اداروں پر اعتماد کم اور اقتصادی ترقی میں زوال دیکھنے کو ملا۔ انہوں نے کہا کہ نیب کی قیادت نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ بیورو کی توجہ اب غیر ضروری رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے منصفانہ انداز سے کاروبار کو سہل آسان بنانے پر مرکوز ہے۔ ان اصلاحات کے تحت، نیب نے کراچی سمیت مختلف علاقائی دفاتر میں سہولتی مراکز قائم کیے ہیں تاکہ کاروباری افراد کو روایتی دھمکی آمیز ماحول کی بجائے پیشہ ورانہ اور تعاون پر مبنی ماحول فراہم کیا جا سکے۔ احمد چنائے کا کہنا تھا کہ نیب کا کاروبار دوست ادارے میں تبدیل ہونا ایک خوش آئند پیش رفت ہے، ہم ایف پی سی سی آئی کے حوالے سے منصفانہ رویہ اختیار کرنے پر چیئرمین کے عزم کو سراہتے ہیں کیونکہ اس سے ملک میں سرمایہ کاری کیلئے ماحول بہتر اور اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔
انصار عباسی