کینیڈا؛ سبکدوش وزیراعظم پارلیمان سے اپنی کرسی اُٹھاکر کیوں بھاگ کھڑے ہوئے؟ وجہ سامنے آگئی
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
جسٹن ٹروڈو 2015 سے ملک کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہیں تاہم اب ان کی جماعت نے نیا حکمراں چُن لیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق کینیڈا کی پارلیمان میں الوداعی اجلاس جاری ہے جس میں سبکدوش ہونے والے وزیرِاعظم جسٹن ٹروڈو نے ایک جذباتی خطاب بھی کیا۔
اس اجلاس کے بعد جسٹن ٹروڈو کی ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ پارلیمنٹ میں اپنے زیر استعمال رہنے والی کرسی اُٹھائے ہوئے جا رہے ہیں۔
یہ تصویر دراصل اس بات کی علامت ہے کہ اب جسٹن ٹروڈو وزیراعظم کے عہدے پر براجمان نہیں رہے ہیں۔
سبکدوش وزیراعظم جسٹن ٹروڈو یہ کرسی پارلیمنٹ سے اپنے گھر لے گئے ہیں اور اب وہ ان کی ملکیت بن چکی ہے۔
دراصل کینیڈا میں یہ روایت موجود ہے کہ ارکان پارلیمان مستعفی یا مدت پوری ہونے کے بعد اپنی کرسی کی قیمت ادا کرکے ساتھ لے جا سکتے ہیں۔
سبکدوش وزیراعظم جسٹن ٹروڈو بھی 9 سال وزیرِ اعظم رہے اور اسی کرسی کو استعمال کرتے رہے ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹن ٹروڈو
پڑھیں:
مارک کارنی کینیڈا کے نئے وزیر اعظم منتخب، ٹرمپ کو کھلا چیلنج دے دیا
اوٹاوا: کینیڈا کی لبرل پارٹی نے مارک کارنی کو اپنا نیا رہنما منتخب کر لیا، جس کے بعد وہ جلد ہی وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی جگہ سنبھالیں گے۔
کارنی نے انتخاب میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور اپنی جیت کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا۔
سابق بینک آف کینیڈا اور بینک آف انگلینڈ کے گورنر مارک کارنی نے 85.9 فیصد ووٹ حاصل کر کے اپنی مرکزی حریف کرسٹیا فری لینڈ کو شکست دی، جنہیں صرف 8 فیصد ووٹ ملے۔
اپنی جیت کے بعد مارک کارنی نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کینیڈا کے مزدوروں، خاندانوں اور کاروبار کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور مزید کہا کہ ہمیں امریکہ پر بھروسہ نہیں رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کینیڈا کی زمین، پانی اور وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، اور کینیڈا کو اپنی خودمختاری کے لیے کھڑا ہونا ہوگا۔
کارنی کا وزیر اعظم بننا زیادہ دیر تک یقینی نہیں، کیونکہ کینیڈا میں اکتوبر میں عام انتخابات متوقع ہیں، اور حالات کے پیش نظر قبل از وقت انتخابات بھی ہو سکتے ہیں۔ تازہ ترین سروے کے مطابق اپوزیشن کنزرویٹو پارٹی کو معمولی برتری حاصل ہے۔
نتائج کے اعلان سے قبل جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ کینیڈا کو اپنے ہمسایہ ملک (امریکہ) کی طرف سے وجودی خطرات کا سامنا ہے۔
مارک کارنی نے اپنی بینکنگ کیریئر کا آغاز گولڈمین ساکس سے کیا تھا، اور بعد میں وہ بینک آف کینیڈا اور بینک آف انگلینڈ کے سربراہ رہے۔ تاہم، وہ کبھی بھی کسی منتخب عہدے پر فائز نہیں رہے، جس کی وجہ سے کچھ ماہرین کے مطابق انتخابی مہم کے دوران ان کی قیادت کا امتحان ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کارنی کا سخت اینٹی ٹرمپ بیانیہ لبرل ووٹرز کو متحرک کر سکتا ہے، لیکن کنزرویٹو پارٹی پہلے ہی ان پر الزامات لگا رہی ہے کہ وہ اپنے مؤقف میں مستقل مزاج نہیں رہے۔
حالیہ سروے کے مطابق 43 فیصد کینیڈین شہری مارک کارنی کو ٹرمپ سے نمٹنے کے لیے بہتر لیڈر سمجھتے ہیں، جبکہ 34 فیصد پیئر پوئلیور کی حمایت کر رہے ہیں۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ مارک کارنی کی قیادت میں لبرل پارٹی دوبارہ عوامی مقبولیت حاصل کر پائے گی یا نہیں، کیونکہ ٹروڈو کے استعفیٰ سے پہلے پارٹی کی مقبولیت شدید متاثر ہو چکی تھی۔