اسلام ٹائمز: جولانی رژیم سے وابستہ تکفیری عناصر نے عام شہریوں کے خلاف انسان سوز جرائم انجام دینے کی تمام حدیں پار کر دی ہیں۔ ھیئت تحریر الشام کے دہشت گردوں نے تمام ساحلی علاقوں میں علوی باشندوں کے قتل عام کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ان شہریوں کی اکثریت نہتی تھی اور قتل ہونے والوں میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ مزید برآں، بڑی تعداد میں علوی باشندوں کو گرفتار کر کے لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ شام کے ساحلی علاقوں میں جولانی رژیم کی سرپرستی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ قومی صفایا اور نسل کشی ہے۔ ان حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عنقریب شام میں ایک خونریز فرقہ وارانہ خانہ جنگی شروع ہونے والی ہے۔ موجودہ حالات بحران کی پیچیدگی اور شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔ فوجی کونسل برائے آزادی شام ملک کے مختلف حصوں کو جولانی رژیم سے آزاد کروانے کے درپے ہے۔ تحریر: حسین مہدی تبار
بشار اسد حکومت کی سرنگونی اور خانہ جنگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات کے بعد اس وقت شام میں سیاسی اور فوجی میدان میں اہم تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ "فوجی کونسل برائے آزادی شام" نامی گروہ معرض وجود میں آ چکا ہے جس کی سربراہی شام آرمی کے سابق اعلی سطحی کمانڈر بریگیڈیئر غیاث سلیمان دلا کر رہے ہیں۔ اس گروہ کی تشکیل شام کی تاریخ میں فیصلہ کن موڑ قرار دی جا رہی ہے۔ اس کونسل نے اپنے قیام کا مقصد احمد الشرع یا ابو محمد الجولانی کی سربراہی میں نگران حکومت کی "آمریت" اور "دہشت گردی" کا مقابلہ کرنا بیان کیا ہے اور شام کی سرزمین کو غیر ملکی دہشت گرد عناصر سے پاک کرنے کا عہد کیا ہے۔ فوجی کونسل برائے آزادی شام نے اپنے بیانیے میں وسیع اہداف کا ذکر کیا ہے جن میں "غیر ملکی دہشت گرد گروہوں کے قبضے سے شام کی سرزمین آزاد کروانا" بھی شامل ہے۔
اس کونسل نے جن دیگر اہداف کا اعلان کیا ہے ان میں جولانی حکومت کا خاتمہ، آمرانہ اداروں کی تحلیل، شہریوں کے جان و مال کی حفاظت اور جمہوری اصولوں کی بنیاد پر حکومت اداروں کی بحالی شامل ہے۔ اسی طرح فوجی کونسل برای آزادی شام نے جلاوطن افراد کی وطن واپسی اور متحد اور خودمختار شام کی تشکیل پر بھی زور دیا ہے۔ اس کونسل کے قیام کے ساتھ ہی شام کے مختلف شہروں میں جولانی رژیم کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مظاہرین نے ھیئت تحریر الشام کی آمرانہ پالیسیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ احتجاج خاص طور پر ساحلی علاقوں جیسے جبلہ، لاذقیہ، طرطوس اور حلب میں شدت اختیار کر گیا۔ دوسری طرف ھیئت تحریر الشام سے وابستہ تکفیری دہشت گردوں نے فضائی حملوں اور توپخانے کی مدد سے اس عوامی احتجاج کو کچلنے کی کوشش کی جبکہ جولانی رژیم خاموش تماشائی بنی رہی۔
یہ سب کچھ ایسے وقت انجام پایا ہے جب بشار اسد حکومت کی سرنگونی کے بعد پہلے دن سے اسرائیل کی غاصب صیہونی فوج شام کے وسیع علاقوں پر قبضہ جمائے بیٹھی ہے اور جولانی رژیم نے اس کے خلاف حتی بیان دینے سے بھی گریز کیا ہے۔ جولانی رژیم سے وابستہ تکفیری دہشت گرد عناصر اور عوامی مزاحمتی فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں ہیں اور موصولہ رپورٹس کے مطابق عوامی مزاحمتی فورسز نے لاذقیہ شہر میں ایک فوجی ہوائی اڈے پر قبضہ بھی کر لیا ہے جبکہ گھات لگا کر متعدد حملے کیے جن میں بڑی تعداد میں تکفیری دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔ اسی طرح بعض موصولہ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لاذقیہ شہر کے کچھ حصوں پر بھی عوامی مزاحمتی فورسز کا کنٹرول برقرار ہو چکا ہے۔ شام کے مغربی علاقوں میں جھڑپیں جاری رہنے سے وہاں انسانی بحران کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
شام کے مختلف شہروں میں عوام نے حاکم رژیم کی جانب سے طاقت کے بے جا استعمال کے خلاف مظاہرے کیے ہیں اور عام شہریوں کے قتل عام میں ملوث عناصر کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ لاذقیہ اور طرطوس میں جھڑپوں کی شدت زیادہ ہے اور عوام عام شہریوں کو نشانہ نہ بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف علوی اعلی اسلامی کونسل نے بھی ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں دہشت گردانہ اقدامات کی فوری روک تھام اور بے گناہ عوام کی حمایت کا اظہار کیا گیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر سعودی عرب نے جولانی رژیم کی حمایت کی ہے اور اس پر زور دیا ہے کہ وہ ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے موثر اقدامات انجام دے۔ اسی طرح ترکی نے بھی عجیب موقف اپناتے ہوئے جولانی رژیم کے خلاف احتجاج کرنے والے عوام پر وحدت کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا ہے۔
جولانی رژیم سے وابستہ تکفیری عناصر نے عام شہریوں کے خلاف انسان سوز جرائم انجام دینے کی تمام حدیں پار کر دی ہیں۔ ھیئت تحریر الشام کے دہشت گردوں نے تمام ساحلی علاقوں میں علوی باشندوں کے قتل عام کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ان شہریوں کی اکثریت نہتی تھی اور قتل ہونے والوں میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ مزید برآں، بڑی تعداد میں علوی باشندوں کو گرفتار کر کے لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ شام کے ساحلی علاقوں میں جولانی رژیم کی سرپرستی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ قومی صفایا اور نسل کشی ہے۔ ان حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عنقریب شام میں ایک خونریز فرقہ وارانہ خانہ جنگی شروع ہونے والی ہے۔ موجودہ حالات بحران کی پیچیدگی اور شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔ فوجی کونسل برائے آزادی شام ملک کے مختلف حصوں کو جولانی رژیم سے آزاد کروانے کے درپے ہے۔
امریکہ اور فرانس اگرچہ جولانی رژیم پر اقلیتی باشندوں کے خلاف اقدامات نہ دینے کے لیے دباو ڈالتے آئے ہیں لیکن وہ بھی علوی فرقے کی اقتدار میں واپسی سے ہراساں ہیں۔ لہذا عین ممکن ہے کہ وہ جولانی رژیم کو علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے باشندوں کو کچل دینے کے لیے سبز جھنڈی دکھا چکے ہوں۔ یوں شام میں شدید خانہ جنگی کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ ایک طرف جولانی رژیم اس پوزیشن میں نہیں کہ علوی فرقے کو مکمل طور پر کچل دے اور دوسری طرف عوام کی اکثریت جولانی رژیم سے تنگ آ چکا ہے اور وہ مزاحمتی گروہوں کی حمایت کرنے میں مصروف ہے۔ لہذا یوں دکھائی دیتا ہے کہ نہ تو جولانی رژیم مخالفین کو پوری طرح ختم کر پائے گی اور نہ ہی مخالفین جولانی رژیم کے خاتمے میں کامیاب ہو پائیں گے۔ اس طرح ایک طویل خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہونے کا احتمال زیادہ ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فوجی کونسل برائے آزادی شام ھیئت تحریر الشام ساحلی علاقوں میں میں علوی باشندوں عام شہریوں میں جولانی خانہ جنگی بڑی تعداد شہریوں کے کے مختلف شروع ہو کے خلاف رژیم کی گیا ہے شام کے شام کی کیا ہے ہے اور
پڑھیں:
شام کے ساحلوں پر وحشیانہ قتل عام، اردوان کیطرف سے الجولانی کی حمایت
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ترک صدر نے معصوم شہریوں کی ہولناک ہلاکتوں کی مذمت کیے بغیر مبہم بیانات دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو بھی شام میں فتنہ پھیلانے کی کوشش کرے گا وہ کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔ اسلام ٹائمز۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے شام کے ساحلی علاقوں پر تکفیری عناصر اور جولانی رجیم سے وابستہ مسلح گروہوں کے حملوں میں بے گناہ شہریوں کی ہولناک ہلاکت کی مذمت کیے بغیر تحریر الشام کے سابق رہنما کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوان نے شام کے ساحلی علاقوں پر تکفیری عناصر اور جولانی رجیم سے وابستہ مسلح گروہوں کے حملوں میں معصوم شہریوں کی ہولناک ہلاکتوں کی مذمت کیے بغیر مبہم بیانات دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو بھی شام میں فتنہ پھیلانے کی کوشش کرے گا وہ کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بہت سے لوگوں نے اس فتنہ کو ترکی میں منتقل کرنے کی کوشش کی جس کا شام چودہ سالوں سے سامنا کر رہا ہے۔
اردگان نے جولانی رجیم کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا اور اسے شام کے استحکام کا نام دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ شام کی سابق حکومت کی باقیات نے مذہبی تنازعات کو بھڑکانے کے لئے دہشت گردانہ حملے کیے ہیں۔ اردگان نے جولانی کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کے بیانات اعتدال پسند تھے اور ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ان تمام لوگوں کا احتساب کریں گے جنہوں نے ماورائے قانون کام کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ شامی حکومتی فورسز کی موثر مداخلت کی بدولت صورتحال کو مکمل طور پر قابو میں لایا گیا ہے تاہم صورتحال بدستور حساس ہے۔ ترک صدر نے کہا کہ شام ایک آزاد ملک ہے اور اسے اپنی سرزمین پر بغاوت کو تقویت دینے والے کسی بھی اقدام سے گریز کرنا چاہیے۔