Islam Times:
2025-03-12@05:27:10 GMT

علوی کون؟

اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT

علوی کون؟

اسلام ٹائمز: کسی مسلک کے عقائد کی درست طور پر آگاہی اس مسلک کے ذمے دار افراد کے عقائد کو جان کر ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا شام کے علویوں کے عقائد کی گتھی عصر حاضر میں ان کے ذمے دار علماء ہی کے ذریعے سلجھائی جا سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اہل تشیع میں ایک منحرف طبقہ وجود میں آگیا تھا جسے ”نصیری“ کہا جاتا تھا اور شاید اب بھی کچھ گمراہ لوگ اسی قسم کے مشرکانہ عقائد رکھتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اہل سنت کی ایک بھاری تعداد نے قادیانیت کو قبول کیا اور اب بھی روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہیں۔ تحریر: سید تنویر حیدر

اپنے دامن میں جولان کی پہاڑیاں رکھنے والا ”ملک شام“ لمحہء موجود میں فتنوں کی جولان گاہ بنا ہوا ہے۔ شام کا جب ذکر آتا ہے تو اس ملک میں بسنے والے علویوں کا بھی تذکرہ کیا جاتا ہے۔ علوی کون ہیں؟ ان کا عقیدہ کیا ہے؟ اس حوالے سے تحقیق کے میدان سے ناآشنا لوگ اپنے ذہنوں میں کئی طرح کے درست اور غلط تصورات رکھتے ہیں مثلاً ایک یہ نظریہ کہ ان کا تعلق ”نصیری“ فرقے سے ہے جو مولائے کائنات علی علیہ السلام کو خدا مانتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ علویوں کے ان عقائد کے حوالے سے اس قسم کے خیالات ایسے ہی ہیں جس طرح کے بے سر و پا خیالات ”شیعہ اثنا عشری“ مسلمانوں کے بارے میں ذہنوں میں بٹھائے گئے ہیں۔ کسی مسلک کے عقائد کی درست طور پر آگاہی اس مسلک کے ذمے دار افراد کے عقائد کو جان کر ہی ہوتی ہے۔

شام کے علویوں کے عقائد کی گتھی عصر حاضر میں ان کے ذمے دار علماء ہی کے ذریعے سلجھائی جا سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اہل تشیع میں ایک منحرف طبقہ وجود میں آگیا تھا جسے ”نصیری“ کہا جاتا تھا اور شاید اب بھی کچھ گمراہ لوگ اسی قسم کے مشرکانہ عقائد رکھتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اہل سنت کی ایک بھاری تعداد نے قادیانیت کو قبول کیا اور اب بھی روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس تمہید کے بعد اب آئیے دیکھتے ہیں کہ آج کے علویوں کا کیا عقیدہ ہے۔ بعض جید شیعہ علماء اور شام کے علوی علماء کے مابین رابطے، قربت اور افہام و تفہیم کے نتیجے میں علوی فرقے کے علماء نے ایک باضابطہ ”اعلامیہ“ جاری کیا ہے جس میں انہوں نے دین کے اصولوں اور فروعات پر اپنے عقائد اور اپنے نظریاتی موقف کا اظہار کیا ہے جس کا ایک حصہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔

1۔ ہر علوی مسلمان ہے، شہادتین پڑھتا ہے، اس پر کامل ایمان رکھتا ہے اور اسلام کے پانچ ستونوں کا قائل ہے۔
2۔ علوی مسلمان ہیں اور شیعہ ہیں نیز پیروان و یاران امام علی (ع) ہیں۔ علویوں کی آسمانی کتاب ”قرآن کریم“ ہے اور ان کا مذہب وہی ہے جو مذہبِ امام جعفر صادق (ع) ہے۔
3۔ علوی اپنی عبادات، لین دین کے مسائل اور دیگر احکام کے حوالے سے اپنا کوئی جداگانہ مسلک نہیں رکھتے بلکہ وہ اپنے تمام معاملات میں ”مذہب امامیہ“ کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کے نذدیک ”مذہبِ جعفری“ ریشہء مذہبِ علوی ہے ”مکتب جعفریہ“ علوی فرقے کی جڑ ہے اور علوی اس کی شاخ ہیں۔

عقائد مکتب علوی
1۔ اسلام: ہمارا دین اسلام ہے جو دو شہادتوں کا اقرار کرنے اور اس دین پر ایمان لانے پر مشتمل ہے جو پیغمبر اسلام لائے تھے۔
2۔ ایمان: خدا، فرشتوں، آسمانی کتابوں اور انبیاء پر سچا ایمان شہادتین کے اقرار کے ساتھ۔
3۔ دین کے اصول: توحید، عدل، نبوت، امامت، معاد۔
4۔ توحید: خدا کی کوئی مثال نہیں اور وہ لاشریک ہے۔
5۔ انصاف: خدا عادل ہے اور کسی پر ظلم نہیں کرتا۔
6۔ نبوت: اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں پر لطف و احسان کرتے ہوئے ان کے لیے برگزیدہ انبیاء کا انتخاب کیا ہے اور معجزات سے ان کی مدد کی ہے۔
7۔ امامت: امامت ایک منصب الہٰی ہے جسے خدا نے اپنے بندوں کے نفع کے لیے ضروری سمجھا ہے۔ خدا کا فضل اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ ایک نصِ قاطع و صریح کے ساتھ  امام کا تقرر کرے۔ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ امام مانند پیغمبر، معصوم ہوتا ہے اور اس سے کسی قسم کا گناہ اور اشتباہ سرزد نہیں ہوتا۔ ہمارے عقیدے کے مطابق امام 12 ہیں۔ رسول خداؐ نے ایک ایک کرکے ان کے ناموں کی تصریح کر دی ہے۔ (امام علی علیہ السلام سے لے کر آخری امام حجت ابن الحسنؑ تک)۔
8۔ معاذ: اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو ان کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے تاکہ بروز قیامت ان کے اعمال کا حساب لیا جا سکے۔

احکام شرعی چار ہیں
1۔ قرآن کریم
2۔ سنت نبوی
3۔ اجماع
4۔ عقل
ہماری نظر میں ”مرجع تقلید“ کے حوالے سے ہمارا نظریہ وہی ہے جس کے بارے میں امام زمانہ (عج) نے فرمایا ہے: ”عام لوگوں کو چاہیئے کہ وہ فقہا میں سے اس شخص کی تقلید کریں، جو خود پر قابو رکھتا ہو، اپنے دین کی حفاظت کرتا ہو، اپنی نفسانی خواہشات کی مخالفت کرتا ہو اور ”مطیع امر مولیٰ “ ہو۔ عام لوگوں کو          چاہیئے کہ اس کی تقلید کریں۔

فروعات دین
1۔ نماز فرض ہے
2۔ اذان و اقامہ مستحب ہیں
3۔ روزہ دین کے ستونوں میں سے ہے
4۔ ذکوٰۃ دین کا دوسرا ستون ہے
5۔ خمس
6۔ جہاد
7۔ حج
8۔ امر با المعروف و نہی عن المنکر
9۔ تولیٰ و تبریٰ
علوی دیگر تمام اسلامی احکام اور معاملات میں فقہ جعفری پر عمل کرتے ہیں۔ ہمارے فقہاء ”کتب اربعہء شیعہ امامیہ“ کی طرف رجوع کرتے ہیں جو یہ ہیں: کافی، تہذیب، استبصار، من لا یحضر فقیہ۔ ہمارے عوام ”رسالہ ہائے عملیہء مراجع تقلید“ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس بیانیے پر شام اور لبنان کے 80 علماء نے دستخط کیے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے عقائد کی کے ذمے دار رکھتے ہیں حوالے سے کرتے ہیں کے علوی مسلک کے اب بھی ہے اور دین کے کیا ہے

پڑھیں:

وجود زن اور مقصد حیات

’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘ لیکن اُن خواتین کو کیا کہیے جو لگا دیتی ہیں دوسری خواتین کی زندگی کو زنگ؟ جی ہاں عورت جہاں خوبصورت جذبات، احساسات اور نزاکت سے بھرہور ہے وہیں اس کا ایک روپ حسد، بے حسی اور احساس کمتری کا بھی ہے۔

ایک ساس جو بہو کو اپنے ہاتھوں سے بیاہ کر لاتی ہے۔ خود اُس سے حسد، کینہ اور نفرت کرنے لگتی ہے۔ بیٹا جب بہو کےلیے تحفہ لاتا ہے یا اُسے باہر گھمانے لے کر جاتا ہے تو ساس کو بہت برا لگتا ہے۔ مگر اپنا داماد اگر ان کی بیٹی کی فرمائشیں پوری کرے تو ان کا دل داماد کے صدقے قربان ہونے کو چاہتا ہے۔

بہو کے آنے جانے پر پابندی لگانے والی ساس یہ کیوں بھول جاتی ہے کہ وہ بھی کبھی بہو تھی، آزادی اور خودمختاری کی خواہش اس کے دل میں بھی پنپتی تھی۔

خاندان کو اتفاق اور محبت پر درس دیتی ہوئی نند اپنے ہی سسرال سے بیزار دکھائی دیتی ہے۔ بھائی کی دولت کو اپنا حق سمجھتی ہے مگر اپنا شوہر اگر اپنی بہن کو کوئی تحفہ دے تو اسے گراں گزرتا ہے۔

بھابی جو اپنے بہن بھائیوں میں تو قہقہے لگا کر خوش ہوتی ہے لیکن اپنی دیورانی یا جیٹھانی سے مقابلے بازی میں اس گھر کے قہقہے چھین لیتی ہے۔ مال و دولت یا اولاد کی تعلیم و ترقی میں اُن سے برتری کی خواہش رکھتی ہے۔ اور انہیں نیچا دیکھنا چاہتی ہے۔ دیورانی یا جیٹھانی کی تعریف اس کے دل میں کانٹے کی طرح چھبتی ہے۔

اور ہاں اُن ہمسائی صاحبہ کو بھی یاد رکھیے گا جو محلے کا سی سی ٹی وی کیمرہ ہوا کرتی ہیں۔ کس کی کب کہاں لڑائی ہوئی اور کون کہاں گیا؟ سب پر نظر رکھتی ہیں۔ غرض ہمسائیوں کی پریشانی انہیں سکون دیتی ہے۔

تعویز گنڈوں میں پڑ کر گھر خراب کروانے والی پھوپھیوں، چاچیوں، تائی اور خالاؤں کا اپنا ہی لیول ہے۔

گھریلو خواتین کی منفیت کو تو شاید ہم جہالت سمجھ کر پس پشت ڈال دیں۔ مگر ان اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کو کیا کہیں جو دفاتر میں اپنی کولیگز کو نیچا دکھانے کی منصوبہ بندی اور سازشیں کرتی ہیں۔ ان کی ترقی یا تعریف انہیں کسی طور قبول نہیں ہوتی۔

پھر آتی ہیں وہ خواتین جو دوسری خواتین کے شوہر پر ڈورے ڈالنا اپنا حق یا ہنر سمجھتی ہیں۔ ان مرد حضرات کی دولت یا شہرت ان لالچی خواتین کو اپنی جانب کھینچنے میں مقناطیسی طاقت رکھتی ہے۔ وہ اس عورت کے گھر کو ایک سیکنڈ میں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جسے اس مظلوم عورت نے برسوں کی قربانیوں سے بنایا ہوتا ہے۔

پھر آتی ہے جناب وہ دوست یا کزن جو دوستی کا نقاب پہنے آپ کا سوشل امیج خراب کرنے کی خواہاں ہوتی ہے۔

وہ ماں جو ایکسڑا میریٹل افیئرز میں کھو کر اپنی اولاد سے بے نیاز ہوجاتی ہے۔ وہ وقت جس پر اس کی اولاد کا حق تھا وہ ایک دلدل میں گزار دیتی ہے۔

ان سب خواتین کو نکال کر واقعی عورت ذات بے حد حسین ہے۔ اس کی مثال وہ خواتین ہیں جن کی زندگی کو مشعل راہ بنا کر ایک عورت علمی، عملی، معاشی اور معاشرتی طور پر باکمال ہوجاتی ہے۔ جن میں حضرت خدیجہؐ، حضرت فاطمہؐ اور حضرت زینبؐ کا نام سرفہرست ہے۔ ان کے علاوہ فاطمہ جناح، مدر ٹریسا، ڈاکٹر روتھ فاؤ اور ان جیسی تمام باکمال خواتین شامل ہیں۔ یہ خواتین نہ صرف خواتین کے لیے رول ماڈل ہیں بلکہ ان کا علم اور عملی کمالات انسانیت کے عروج کی ایک عظیم داستان ہے۔ 

ان خواتین نے نہ صرف ایک احسن مقصد کےلیے اپنی زندگیوں کو وقف کیا بلکہ اپنی ذات کو انسانیت کےلیے بہترین مثال بنایا۔

وہ خاتون جس کا مقصد حیات عظیم نہیں ہوتا وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں اُلجھ کر رہ جاتی ہے۔ کہتے ہیں ناں خالی دماغ شیطان کی آماجگاہ ہے۔ لہٰذا خواتین کو چاہیے کہ اپنے ذہن کو علم کی روشنی اور اپنے عمل کو بہترین مقاصد کےلیے وقف کریں۔

یہاں مجھے نپولین کا وہ قول یاد آگیا کہ ’’تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا‘‘۔

اگر ہمیں اچھی قوم بننا ہے تو اپنی خواتین کو مثبت ذہنی سرگرمیوں سے روشناس کروا کر انسانیت کی معراج پر لے جانا ہوگا۔ اس چھوٹی سی زندگی میں مقصد اگر عظیم ہوگا تو آپ کا نام صدیوں یاد رکھا جائے گا ورنہ آپ جیسے کئی آئے اور آج ان کا نام و نشان باقی نہیں ہے۔ لہٰذا وہ رنگ اپنائیں جو قوس قزح کی طرح حسین اور محبت کے رنگ جیسا پکا ہو۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • ملتان، بزرگ عالم دین علامہ قاضی شبیر حسین علوی انتقال کر گئے، نماز جنازہ کا اعلان بعد میں کیا جائیگا  
  • ملتان،بزرگ عالم دین علامہ قاضی شبیر حسین علوی انتقال کر گئے، نماز جنازہ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا  
  • جامعہ ملیہ اسلامیہ تشدد معاملہ پر شرجیل امام اور آصف اقبال سمیت 11 ملزمین پر فرد جرم عائد
  • ’’ عوامیّت‘‘ کی موجِ بلاخیز اور جمہوریت!
  • شامی افواج اور معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں کے درمیان جھڑپیں ایک ہزار سے زیادہ ہلاکتیں
  • وجود زن اور مقصد حیات
  • امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ
  • خیالات کی تجسیم یا نفسیات کا مرض
  • صاحبزادے کے مشاغل اور کاروبار