کیا فوجی کو گالی دینے پر کسی سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہوگا؟ جسٹس جمال مندوخیل
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ فوجداری قانون میں تو گالی دینا بھی جرم ہے اس کی سزا متعین ہے، تو کیا مسلح افواج کے ارکان کو گالی دینے پر کسی سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہوگا؟
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے سویلین کے ملٹری ٹرایل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کی۔وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے ایف بی علی کیس کا حوالہ دیا تو جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیے کہ ایف بی علی کیس کو 1962 کے آئین کے تناظر میں ہی دیکھا جا سکتا ہے، اس وقت مروجہ آئین 1973 کا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ایف بی علی کو بنیادی حقوق میسر تھے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق تمام بنیادی حقوق میسر تھے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ میں بنیادی حقوق تو موجود ہیں لیکن دیے جاتے یا نہیں یہ الگ بات ہے، اگر دستیاب بنیادی حقوق فراہم نہ کیے جائیں تو یہ آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی ہوگی۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ٹرائل میں قانون پر عمل نہ ہو تو اس کو چیلنج کیا جا سکتا ہے، خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ ایف بی علی کیس میں کہا گیا تھا کہ فوجی ٹرائل ٹھیک ہے اور فئیر ٹرائل کا حق ملتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین کے آرٹیکل 8(3) اے کے تحت قوانین میں بنیادی حقوق لاگو نہیں ہوتے، اس کے تحت وہ قانون بنیادی حقوق کے تناظر میں کالعدم نہیں قرار دیے جاسکتے.
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: ملٹری کورٹس میں ٹرائل جسٹس جمال مندوخیل نے نے ریمارکس دیے کہ کہ ایف بی علی کیس خواجہ حارث نے بنیادی حقوق سپریم کورٹ سویلین کا کے ارکان آرٹیکل 8 آئین کے ہے جسٹس کہا کہ
پڑھیں:
ملٹری ٹرائل کیس:آرمی ایکٹ کو ایک طرف رکھیں تو آئین میں فوجی عدالتوں کی گنجائش نہیں.جسٹس محمد علی مظہر
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔10 مارچ ۔2025 )سپریم کورٹ آف پاکستان میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کے دوران لاہور بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان کے دلائل مکمل ہو گئے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے کیس کی سماعت کی جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بنچ کا حصہ تھے.(جاری ہے)
تحریک انصاف کے وکیل رہنما حامد خان دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سماعت پر پاکستان کی تاریخ کی دلائل دیئے اور پاکستان میں مارشل لا اور ملٹری کورٹس کی تاریخ کا بتایا سپریم کورٹ کا راولپنڈی بار کیس کا فیصلہ عدالت کے سامنے رکھا راولپنڈی بار کیس میں فوجی عدالتوں سے متعلق 21ویں ترمیم چیلنج کی گئی تھی. حامد خان نے کہا کہ کسی بھی حالات میں سویلینز کا اتنے بڑے پیمانے پر فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں کیا جاسکتا فوجی عدالتیں آئینی ترمیم کے بغیر قائم نہیں ہوسکتیں فوجی عدالتوں کے حوالے سے آئینی ترمیم پر بھی اصول طے شدہ ہیں فوجی عدالتوں کے حوالے سے آئینی ترمیم مخصوص مدت کیلئے ہوسکتی ہے اس صورت میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا حق بھی دیا جانا ضروری ہے موجودہ حالات میں ایسی کوئی صورتحال نہیں. جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ 26ویں ترمیم کے بعد فوجی عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف اپیل کہاں ہوسکتی ہے؟ جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی جاسکتی ہے مگر اس کا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے فوج ایگزیکٹیو کا حصہ ہے جو عدالتی اختیارات استعمال نہیں کرسکتی آرمی ایکٹ کو ایک طرف رکھیں تو آئین میں فوجی عدالتوں کی گنجائش نہیں. ایڈووکیٹ حامد خان نے کہا کہ ماضی میں 1973 کے آئین سے پہلے کے آئین میں گنجائش تھی، دسویں ترمیم میں آئین کا آرٹیکل 245 شامل کیا گیا، آرٹیکل 245 میں بھی فوج کو جوڈیشل اختیار حاصل نہیں بنیادی انسانی حقوق اور بنیادی سول حقوق دونوں برابر ہیں آئین کی کوئی بھی شق بنیادی حقوق واپس نہیں لے سکتی ان کا کہنا تھا کہ اب میں اپنے دلائل میں آئین کے آرٹیکل 175(3) کو بیان کروں گا آئین کے اس آرٹیکل میں واضح لکھا ہے کہ عدلیہ ایگزیکٹو سے الگ ہوگی. جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ یہ بتائیں کہ عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ کس نے کرنا تھا؟ آرٹیکل 175(3) کے تحت عدلیہ ایگزیکٹو سے خود بخود الگ تصور ہوگی ؟یا عدلیہ کے ایگزیکٹو سے الگ ہونے کی ڈیکلریشن عدلیہ دے گی یا پارلیمان ؟ حامد خان نے جواب دیا کہ آئین کے الفاظ واضح ہیں پارلیمان کے ڈیکلریشن کی ضرورت نہیں جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ فوجی عدالتیں آئین کے آرٹیکل 175(3) کے زمرے میں نہیں آتیں سپریم کورٹ کے فیصلے میں فوجی عدالتوں کو تاریخی تناظر میں دیکھا گیا. جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے مطابق آرٹیکل 175(3) کے تحت عدلیہ خود بخود ایگزیکٹو سے الگ تصور ہوگی تو اسکا مطلب ہے کہ اس آرٹیکل کے 14 سال بعد فوجی عدالتیں فوج کے ممبران کیلئے بھی قائم نہیں رہ سکتیں ایڈووکیٹ حامد خان نے جواب دیا کہ فوجی عدالتیں صرف فوج کے ممبران کے لئے قائم رہ سکتی ہیں جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر آپ کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ فوجی عدالتیں متوازی عدالتی نظام ہیں یہ بہت اہم ہے کہ اس معاملے میں آرٹیکل 175(3) کو واضح ہونا ہوگا. جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ ایف بی علی کیس میں طے ہوا کہ آرمی ایکٹ فوج کے ممبران کیلئے بنا مگر ایف بی علی میں یہ بھی کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن ڈی اس مقصد کیلئے نہیں بنا اب تنازع یہ ہے کہ وہ کہہ رہے ایف بی علی کیس میں سویلینز کے ٹرائل کی بھی اجازت تھی آپ کہہ رہے ہیں کہ اجازت نہیں. ایڈووکیٹ حامد خان نے جواب دیا کہ فوجی عدالتوں کے حق میں دلائل دینے والوں کا انحصار آئین کے آرٹیکل 8(3) پر ہے آرمی ایکٹ میں شامل وہ شقیں جن کے تحت سویلین کا ٹرائل کیا جاتا ہے وہ غیر آئینی ہیں جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ ایف بی علی میں کہا گیا کہ پارلیمان اس معاملے پر 2 سال میں ریوو کر سکتی ہے مگر آج تک پارلیمان نے اس معاملے پر کچھ نہیں کیا. جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تنازع یہ نہیں کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کیا جائے یا نہیں مسئلہ یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کے ماتحت جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہوگا؟ آرمی ایکٹ میں درج جرائم کرنے پر اسکا دائرہ اختیار سویلینز تک بڑھایا جاسکتا ہے یا نہیں وکیل حامد خان کے دلائل مکمل ہونے پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آئے اور انہوں نے جواب الجواب کا آغاز کیا . جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ آپ جواب الجواب کے لیے کتنا وقت لیں گے جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ بہت سے اہم نکات سامنے آئے ہیں جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے آپ کو جواب الجواب دلائل میں پورا ہفتہ لگ جائے گا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ہو سکتا ہے ایک ہفتہ لگ جائے بعد ازاں عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت منگل کے روز ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی.