زیلنسکی نے ٹرمپ کے ساتھ گرما گرمی پر معافی مانگ لی، امریکہ کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
فوجی امداد پر پابندی کو ٹرمپ کی اپنی پارٹی کے ارکان کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا کہ روس کی جنگ کے دوران یوکرین سے امداد واپس لینا افغانستان سے بھی بدتر ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ مشرق وسطیٰ کے لیے امریکا کے نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف نے فاکس نیوز کو ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ صدر ولادیمیر زیلنسکی نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ گرما گرم بحث پر معافی مانگ لی ہے۔ دی کیف انڈیپینڈنٹ میگزین کے مطابق وٹکوف اس امریکی وفد کا حصہ ہیں، جو سعودی عرب میں یوکرین کے حکام سے ملاقات کرے گا، یہ وفد وائٹ ہاؤس میں جھڑپ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان پہلے اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں شریک ہوگا۔ وٹکوف نے انٹرویو میں بتایا کہ زیلنسکی نے امریکی صدر کو ایک خط بھیجا، اور اوول آفس میں پیش آنے والے پورے واقعے پر معافی مانگی، مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک اہم قدم تھا۔
وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ عہدیداروں نے 28 فروری کو اوول آفس میں ’تصادم‘ کے بعد یوکرین کے صدر زیلنسکی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا، جس کے بعد زیلنسکی نے 4 مارچ کو مصالحتی بیان جاری کیا، اس بیان میں واقعے کو ’افسوس ناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ ٹرمپ کی ’مضبوط قیادت‘ کے تحت امن کے لیے کام کرنے کو تیار ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وٹکوف اس بیان کو معافی کے طور پر بیان کر رہے تھے یا زیلنسکی اور ٹرمپ کے درمیان دیگر کسی رابطے کا حوالہ دے رہے تھے۔ وٹکوف نے یہ بھی کہا کہ اس واقعے کے بعد سے یوکرین، امریکا اور یورپی حکام کے درمیان بات چیت جاری ہے، واشنگٹن اور کیف کے درمیان تباہ شدہ معدنیات کے معاہدے کو بحال کر سکتے ہیں۔
اسٹیو وٹکوف نے کہا کہ میں اسے ترقی کے طور پر بیان کرنا چاہتا ہوں، مجھے امید ہے کہ کوئی معاہدہ ہو جائے گا، توقع ہے کہ مذاکرات کے دوران دونوں فریق خاطر خواہ پیش رفت کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ میز پر جو کچھ ہے، جس پر بات کرنا اہم ہے، وہ واضح طور پر یوکرین کے لیے سیکیورٹی پروٹوکول ہیں، وہ اس کی پرواہ کرتے ہیں، یہ پیچیدہ چیزیں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سب کچھ میز پر رکھنے، ہر ایک کو اس بارے میں شفاف ہونے کی ضرورت ہے کہ ان کی توقعات کیا ہیں، اس کے بعد ہم اس بارے میں بات چیت کر سکتے ہیں کہ کس طرح ہم سمجھوتے تک پہنچ سکتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں جھڑپ کے بعد یوکرین اور امریکا کے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گئے تھے، کیوں کہ واشنگٹن نے کیف کو فوجی امداد روک دی تھی اور اہم انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ بند کر دیا تھا۔ وٹکوف نے اس سے قبل انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ امریکا نے دفاعی مقاصد کے لیے ضروری انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ بند نہیں کیا ہے۔ فوجی امداد پر پابندی کو ٹرمپ کی اپنی پارٹی کے ارکان کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا کہ روس کی جنگ کے دوران یوکرین سے امداد واپس لینا افغانستان سے بھی بدتر ہوگا۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ اگر سعودی عرب کے مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو واشنگٹن یوکرین کو فوجی امداد دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: زیلنسکی نے فوجی امداد وائٹ ہاؤس کے درمیان نے کہا کہ کے بعد سے بھی کے لیے
پڑھیں:
’’ عوامیّت‘‘ کی موجِ بلاخیز اور جمہوریت!
امریکی اور یوکرینی صدور، ڈونلڈ ٹرمپ اور والدیمیر زیلنسکی کے درمیان حالیہ مکالمہ چند منٹوں پر مشتمل تھا لیکن اِس مکالمے سے شروع ہونے والا ’’مکالمہ‘‘ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ شرکائے نشست کی گفتگو، الفاظ اور لب ولہجہ ہی نہیں، ’’بدن بولی‘‘ (Body Language) بھی دیدنی تھی۔ یہ اُس عوامیّت (Populism)کا عُریاں مظاہرہ تھا جس کی کرشمہ سازیاں اَب یورپ، امریکہ اور لاطینی امریکہ تک ہی محدود نہیں رہیں، ایشیا تک آن پہنچی ہیں۔ کوئی آٹھ دہائیاں قبل ہٹلر کے مشیر گوئبلز کے پاس صرف ریڈیو تھا جس کے ذریعے اُس نے ہٹلر کا ایک مسیحاصفت بت تراشا اور خلقِ خد کو اُس کے سحر میں مبتلا کردیا۔ آج بھی ’سامری کے بچھڑے‘ تخلیق کرنے کا فن، تشہیر کی جدید ترین ٹیکنالوجی کی کوکھ سے پھوٹتا ہے جس نے گوئبلز کے ریڈیو کو، صدیوں پیچھے دھکیل دیا ہے۔
یوکرین کے زیلنسکی اور امریکہ کے ٹرمپ کی زندگی میں سب سے بڑی مماثلت یہ ہے کہ دونوں کا تعلق شوبز سے رہا۔ دونوں مختلف ٹی۔وی شوز، ڈراموں اور فلموں کے ذریعے، عوام کو تفریح فراہم کرتے رہے۔ ٹرمپ برسوں ایک مقبول ٹی۔وی ریلیٹی شو، کے میزبان اور ایگزیکٹو پروڈیوسر رہے۔ کئی فلموں اور ٹیلی ویژن ڈراموں میں اداکاری کی۔ سیاست میں بڑا نام پانے سے بہت پہلے وہ امریکیوں کی جانی پہچانی، مانوس شخصیت بن چکے تھے۔ 2017 ء اور اَب، 2025ء میں اُنہیں ووٹ دینے والوں کی اچھی خاصی تعداد کو ٹرمپ کے کسی فلسفے، ویژن، نظریے یا منشورِ سیاست سے کوئی تعلق واسطہ نہ تھا۔ یہ ایک اندھا گونگا بہرہ، قبیلۂِ عشاق تھا جسے ’’فین کلب‘‘ (Fan Club) کہا جاتا ہے۔ زیلنسکی کا پس منظر بھی یہی تھا۔ وہ برسوں شوبز میں ایک قہقہہ بار مسخرے (Comedian) کے طورپر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے۔ کم وبیش ایک چوتھائی صدی تک ٹی۔وی، ڈراموں، فلموں اور شوبز میں لوگوں کو ہنستے ہنساتے رہے۔ دس بڑی اور کامیاب کامیڈی فلموں میں اداکاری کی۔ زیلنسکی نے اپنے ایک انتہائی مقبول ٹی۔وی سیریل ’’عوام کا خادم‘‘ (Servant of the people) میں ایسے سکول ٹیچر کا کردار ادا کیا جس کے دِل میں ملک کا صدر بننے کی آرزو کا کنول کھلا اور پھر وہ سکول ٹیچر اپنی کرتب کاریوں کے بل پر ایک دن واقعی ملک کا صدر بن گیا۔ شاید یہ سیریل کرتے ہوئے زیلنسکی کو اپنی بے پناہ مقبولیت کا اندازہ ہوا اور اُس نے یوکرین کا صدر بننے کی ٹھان لی۔ 2019ء میں جب اُس نے یکایک اعلان کیا کہ وہ صدارتی الیکشن لڑنے جارہا ہے تو بہت سے لوگوں نے اُسے معروف ’’جگت باز‘‘ کی ایک جگت جانا۔ اُس نے اپنے مقبول ڈرامہ سیریل کے نام پر اپنی سیاسی پارٹی کا نام بھی ’خادمِ عوام‘ (Servant of the People) رکھا۔ یوکرین میں خواندگی کی شرح سو فی صد بتائی جاتی ہے۔ ساڑھے تین کروڑ افراد میں سے ایک بھی ناخواندہ نہیں۔ لیکن جب اُن کے ہونٹوں پرمسکراہٹیں بکھیرنے، اُن کے دلوں کو گرمانے اور اُن کی شامیں دھنک رنگ بنانے والا مقبول اداکار، سیاست کے میدان میں اُترا تو پڑھے لکھے لوگوں میں سے بہت کم نے سوچا کہ کیا ایک عمرنگارخانوں کی نذر کردینے والا اداکار سیاست وقیادت کے معیار پر بھی پورا اُترے گا یا نہیں؟ بس ایک لہر سی اٹھی اور یوکرین اِس موجِ تُند خو میں بہتا چلاگیا۔
زیلنسکی نے ’’عظیم تر یوکرین‘‘ کا نعرہ لگایا۔ کرپشن کے خلاف جہاد کا پیغام دیا۔ روس کی بالا دستی کے تناظر میں ’’غلامی نامنظور‘‘ اور ’’حقیقی آزادی‘‘ کا بیانیہ تراشا۔ سوشل میڈیا کا رنگ جمایا اور 73 فی صدسے زائد ووٹ لے کر یوکرین کا صدر منتخب ہوگیا۔ یہ دنیا میں ’عوامیّت‘ (Populism ) کی ایک اور بڑی فتح تھی۔ مقبول مزاحیہ اداکار نے یوکرین کو کچھ دیا یا نہیں، اپنی بے ڈھب پالیسیوں اور غیرسنجیدہ اقدامات سے روس کے ساتھ تنائو کو ہوا دی جس کا نتیجہ فروری 2022 ء میں روسی حملے کی صورت میں نکلا۔ تین برس سے یہ جنگ جاری ہے۔ ایک لاکھ کے لگ بھگ افراد اِس کا لقمہ تر بن چکے ہیں۔ لاکھوں نقل مکانی کرگئے ہیں۔ لاتعداد بے گھر ہوگئے ہیں۔ اَن گنت معاشی، سماجی اور سیاسی مشکلات کا جنگل گھنا ہوتا جا رہا ہے۔ امداد کا امریکی سرچشمہ خشک ہوگیا ہے اور عوامیّت کے بجرے پر سوار اداکار، اپنے سے بڑے اور طاقت ور، شاہسوارِ ’عوامیّت‘ کے حضور بیٹھا تحقیروتذلیل کے تازیانے کھا رہا ہے۔ ٹرمپ کا مطالبہ ہے کہ ہم نے تمہیں اربوں ڈالر دیے، اب تم بدلے میں ہمیں اپنی قیمتی معدنیات کی کانوں تک رسائی دو تاکہ ہم اپنی رقم مع سود مرکب وصول کرسکیں۔ زیلنسکی ہزار پیچ وتاب کھائے، اُسے اپنے سے بڑے ’’پاپولسٹ‘‘ کے سامنے جھکنا ہوگا۔ تین برس قبل جنگ چھڑی تو زیلنسکی نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی۔ وڈیوخطابات کی برکھا برسنے لگی۔ رنگارنگ بیانیے تراشے جانے لگے۔ بیوی بچوں کو کسی نامعلوم مقام پر پہنچا کر خود فوجی وردی پہن لی اور ’’ٹک ٹاک‘‘ کا نمونہ بن گیا۔ اُس کی شہرت90 فی صد سے آگے نکل گئی لیکن برسرِ زمین حقیقت یہ ہے کہ آج یوکرین جغرافیائی، سیاسی اور معاشی حوالے سے وہ نہیں رہا، جو چھ برس پہلے تھا۔
2019ء سے اب تک انتخابات نہیں ہوئے۔ مارشل لا نافذ ہے اور گھرگھر بے یقینی بال بکھیرے ماتم کر رہی ہے۔ اگلے چند دِنوں میں چھوٹا ’شعبدہ باز‘ اپنے ملک کی بیش قیمت معدنیات کا خزانہ، طشتری میں رَکھ کر بڑے ’شعبدہ باز‘ کو پیش کرنے جا رہا ہے۔ بڑا شعبدہ باز، امریکہ کو کس حال میں چھوڑ جائے گا؟ اس کے لئے چار سال انتظار کرنا ہوگا۔
امریکہ اور یوکرین میں عوامیّت (Populism) کے مظاہروں نے، جہاں تاریخ عالم کے بہت بڑے عوامی پرستار، ہٹلر کی یاد تازہ کردی ہے وہاں یہ نہایت ہی سنجیدہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ اگر ’’عوامیّت‘‘ کی لہر پھیلتی چلی گئی اور سیاسی قیادت جمی جمائی ، پختہ کار اور سنجیدہ جماعتوں کے بجائے ٹیلی ویژن کی سکرینوں، فلمی نگار خانوں، کھیل کود کے میدانوں اور تماشہ گر سرکسوں سے جنم لیتی رہی تو حقیقی جمہوریت پر کیا گذرے گی؟ اور ہتھ چھُٹ مسخرے دنیا کو کن خطرات سے دوچار کردیں گے؟
سیاست پر نگاہ رکھنے اور انسانوں کے نظم اجتماعی کے خدوخال تراشنے والے مفکرین کو سوچنا ہوگا کہ کیا ایسی غارت گر ’’عوامیّت‘‘ کو لگام ڈالنے کا کوئی طریقہ ہے یا نہیں جو حقیقت سے بعید، جھوٹ پر مبنی اور جذبات انگیز نعروں سے تلاطم اُٹھاتی، اور ہر شعبہ زندگی کو زوال، انحطاط اور تباہی سے ہم کنار کرکے، ایک دن، ہٹلر کی طرح، کسی تہہ خانے میں خود کشی کرلیتی ہے۔ خود کشی تو کرلیتی ہے لیکن ساری دنیا میں جنگ کا الائو بھڑکا کر انسانیت کو سیلِ خوں کی نذر کردیتی اور خود اپنے ملک کو کھنڈر بنا جاتی ہے۔
’’عوامیّت‘‘ کا زہر تہذیبی اقدار، سماجی رویوں، مسلّمہ اخلاقیات اور معاشرتی آداب وروایات کی رگوں میں بھی سرطان بو رہا ہے۔ ’عوامیّت‘ کے موضوع پر گرفت رکھنے والے آسٹریلوی پروفیسر، بنجمن موفٹ (Benjamin Moffitt) کا کہنا ہے کہ
“There are other traits associated with the typical populist leader. One is “Bad Manners” or behaving in a way that is not typical of a politician.”
’’معروف معنوں میں ’عوامیّت‘ زدہ لیڈر سے کچھ اور خصوصیات بھی جڑی ہوتی ہیں، ان میں سے ایک ہے ’’بُرے آداب واطوار‘‘ (Bad Manners) یا پھر ایسا طرز عمل اختیار کرنا جو ایک سیاستدان کے طرزِ عمل کے منافی ہو۔‘‘
’’ بُرے آداب واطوار‘‘ کھوکھلے نعروں اور بے سروپا بیانیوں میں گُندھی ’’عوامیّت‘‘ کا ایک تلخ تجربہ ہمارے ہاں بھی ہوا ہے جس کے اثرات ونتائج، جانے کب تک ہماری سیاست، معیشت، اخلاقیات، تہذیبی رویوں اور جمہوری اقدار کو متاعِ کوچہ وبازار بنائے رکھیں گے۔