سرحد پار دہشت گردی کے وسیع مضمرات
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
پاکستان میں دہشت گردی کا عفریت پوری قوت سے سر اٹھا رہا ہے۔ پاکستان دشمن کالعدم گروہ افغان سرزمین سے سرگرم عمل ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف عالمی سطح پہ ہو چکا ہے۔ پاکستان نے سفارتی ذرائع اور مختلف وفود کے ذریعے یہ تلخ حقائق کابل کے تخت پہ براجمان حکمرانوں تک بار بار پہنچائے ہیں۔ ماضی میں اشرف غنی کی حکومت ہو یا آج افغانستان پر حکمران افغان طالبان کا گروہ ہو‘ ہمیشہ پاکستان کے جائز تحفظات کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ حال ہی میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اپنے شہریوں اور سفارتی حملے کو پاکستان میں سفر کے حوالے سے نئی ایڈوائزری جاری کر کے دہشت گردی کے بڑھتے خطرات سے آگاہ کیا ہے۔ اس سفری تنبیہ نے پاکستان کے جائز تحفظات پہ مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر دستیاب ایڈوائزری میں نہایت وضاحت کے ساتھ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں دہشت گردی کے خطرات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے علاوہ گزشتہ ہفتے جاری ہونے والے گلوبل ٹیررزم انڈیکس میں دہشت گردی کا شکار ہونے والے ممالک میں پاکستان کو دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ظاہر کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سال بھر میں پاکستان میں ایک ہزار سے زائد سویلین، دفاعی اہلکار اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ملازمین نے دہشت گرد حملوں میں جانیں قربان کیں۔ یہ غیر معمولی اعداد و شمار پاکستان کو درپیش دہشت گردی کے چیلنج کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں۔ صورتحال کا تقاضہ یہ ہے کہ تمام ادارے اور سیاسی قیادت دہشت گردی کے حساس معاملے پر اتفاق رائے سے موثر حکمت عملی اختیار کریں۔ بدقسمتی سے حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی اس اہم معاملے پہ قومی اتفاق رائے نہیں ہونے دے رہی۔ بعض عقل سے پیدل عناصر امریکہ کی جاری کردہ ٹریول ایڈوائزری کے حوالے سے حکومت کو تنقید کا ہدف بنا کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ نہایت غیر سنجیدہ اور قابل مذمت طرز عمل ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دہشت گرد گروہ کسی مخصوص جماعت یا حکومت وقت کو نہیں بلکہ ریاست کے وجود کو مٹانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ درحقیقت امریکہ کی ٹریول ایڈوائزری نے پاکستان کے اس دیرینہ موقف کو تسلیم کیا ہے کہ پاکستان بھانت بھانت کے دہشت گرد گروہوں کی شر پسندی کا ہدف بنا ہوا ہے۔ رپورٹ میں فتنہ خوارج پر مشتمل کا لعدم ٹی ٹی پی اور بلوچستان میں قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے نام نہاد قوم پرست دہشت گرد گروہ بی ایل اے کا واضح الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ پہلو توجہ طلب ہے کہ جو نام نہاد قوم پرست عناصر یورپ اور امریکہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا واویلا مچا کر پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں انہی عناصر کے حمایت یافتہ گروہوں کا شمار دہشت گرد تنظیموں میں کیا جا رہا ہے۔ یہ راز رفتہ رفتہ طشت از بام ہوتا جا رہا ہے کہ بلوچ حقوق کی آڑ میں نام نہاد قوم پرست عناصر بھارتی سرمائے کے بل بوتے پر پاکستان کے خلاف منظم دہشت گردی اور زہریلے پروپیگنڈے کے ہتھیاروں سے حملہ اور ہو رہے ہیں۔ دراصل دہشت گرد گروہ اور علیحدگی پسند نام نہاد کامریڈ بلوچ عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کے ہاتھ میں قلم اور کتاب کے بجائے ہتھیار تھما کر دہشت گردی، جرائم اور تباہی کا درس پڑھانے والے گروہ بلوچ سادہ لوح عوام کی بربادی کے ذمہ دار ہیں۔
دہشت گردی کے پے در پے واقعات کی وجہ سے سی پیک سمیت غیر ملکی سرمایہ کاری کے اہم معاشی امکانات کو ضائع کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ یہی مسئلہ صوبہ کے پی میں بھی درپیش ہے۔ دہشت گرد گروہوں کے علاوہ کالعدم نسل پرست گروہ سیاسی جماعتوں کا نقاب اوڑھ کر لسانی تعصب کی آگ کو ہوا دے رہے ہیں۔ حال ہی میں کالعدم قرار دیئے جانے والے پریشر گروپ پی ٹی ایم نے صوبہ کے پی میں دہشت گردی سے پیدا ہونے والی بحرانی کیفیت میں ریاست کے خلاف نفرت کے بیچ بوکر داخلی استحکام کو مزید کمزور کرنے کے لئیے لسانی تعصب کا ہتھیار استعمال کیا۔ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی آزادانہ نقل و حرکت افغان طالبان کی حمایت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عالمی اداروں کی تحقیق بھی یہ ثابت کر رہی ہے کہ آج کا افغانستان دراصل دہشت گرد گروہوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ داعش خراسان، القاعدہ اور ٹی ٹی پی جیسے عالمی دہشت گرد گروہ پورے خطے کے امن اور سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ داعش خراسان کے دہشت گرد شریف اللہ جعفر کی سنسنی خیز گرفتاری اور امریکہ حوالگی نے ایک بار پھر دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے اور پاکستانی خفیہ اداروں کی پیشہ ورانہ مہارت کو اجاگر کیا ہے۔ شریف اللہ عرف جعفر کابل ایئرپورٹ دھماکے کے علاوہ متعدد دہشت گرد حملوں میں ملوث تھا۔ افغان عبوری حکومت کی اہم شخصیت نے داعش خراسان سے وابستہ افغان دہشت گرد کی گرفتاری سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان پر الزام تراشی کر کے ایک مرتبہ پھر روایتی ہٹ دھرمی پر مبنی غیر دانشمندانہ حکمت عملی اختیار کی ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ طالبان کی عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ یہ تلخ حقیقت مزید تشویش کا باعث ہے کہ افغانستان سے جنم لینے والی دہشت گردی کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو پہنچ رہا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دہشت گرد گروہوں دہشت گرد گروہ دہشت گردی کے پاکستان کے نام نہاد رہے ہیں رہا ہے
پڑھیں:
دہشت گردی کیخلاف تعاون پر پاکستان اورامریکا کا اتفاق رائے
پاکستان میں تعینات امریکی ناظم الامور نیٹلی اے بیکر نے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ملاقات میں دونوں ممالک نے تجارت اور سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ انسدادِ دہشت گردی اور سکیورٹی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق امریکی قائمقام سفیر نے وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے دو طرفہ امور سمیت مختلف معاملات پر تبادلہ خیال کے دوران دہشت گردی کیخلاف باہمی تعاون پر اتفاق کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
واضح رہے کہ امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والٹزنے بھی نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار سے گزشتہ ہفتے ٹیلیفون پر رابطہ کرکے انسداد دہشت گردی کے ضمن میں پاکستانی کوششوں پرامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پیغام تشکر پہنچایا تھا۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے اپنی گفتگو میں پاکستان اورامریکا کے درمیان انسداد دہشت گردی میں تعاون جاری رکھنے پراتفاق کیا تھا۔
مزید پڑھیں:
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے فوجی ساز و سامان کی واپسی کے اعلان کو پاکستان کی جانب سے سراہا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان نے سی آئی اے کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر داعش کےکمانڈرشریف اللہ کو گرفتار کرکے امریکا کے حوالے کیا تھا، جو 2021 میں افغانستان میں امریکی فوج کے انخلا کے موقع پرکابل ایئرپورٹ پر دہشتگردی کی سازش میں ملوث تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسحاق ڈار امریکا انسداد دہشت گردی پاکستان تجارت تعاون سرمایہ کاری سیکیورٹی معاملات نائب وزیر اعظم نیٹلی بیکر وزیر خارجہ