جماعت اسلامی ہیرے تراشنے میں کمال رہی ہے،پروفیسر غفور احمد سے موجودہ امیر انجینئرحافظ نعیم الرحمان تک ایک ایک ہیرا تراش کر دھرتی کی نذر کیا۔مگر اس حوالے سے جماعت کے مقدر میں سیاسی کامیابیاں بہت کم آئیں کہ مولانا کوثر نیازی سے مخدوم جاوید ہاشمی تک جو سیاست کے آسمان کا ستارہ بنا وہ ٹوٹ کر کسی اور کے آنگن میں اترگیا ۔
دراصل ایک قاری نے مولانا کوثر نیازی مرحوم کی مشہور زمانہ کتاب ’’ اور لائن کٹ گئی‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کی بھی لائن کٹ گئی کہ سیاست پر سے یکسر ہاتھ اٹھا لیا ہے اور قلم مذہبی شخصیات کو معنون کردیا ہے‘‘ انہیں کیا عرض کروں کہ سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے چالیس برس سے زیادہ عرصہ گزر گیا ،مجال ہے میرے یا مجھ ایسے دشت سیاست میں آبلہ پائی کرنے والے کسی ایک شخص کے بھی سیاست یااہل سیاست پر اثرات مرتب ہوئے ہوں ، ہم نے راہ سیاست کے کانٹے بہت چنے مگر کانٹے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی چلے گئے مگر ہم بھی وہ ٹھہرے کہ بقول شاعر۔
کانٹے کی رگ میں بھی ہے لہو سبزہ زار کا
پالا ہوا ہے یہ بھی نسیم بہار کا
مارشل لا ء یا نیم مارشل لا ء ادوار میں تو جو سہا سو سہا ،جمہوری ادوار میں تو سانس تک لینا دشوار رہا کہ کہیں سے عملی دبائو آیا یا نہیں اپنے ضمیر نے اس قدر کچوکے لگائے کہ الامان الحفیظ ۔اکثر شکیب جلالی کا یہ شعر پڑھ کر روپڑے یا ہنس دیئے کہ
جو بھی حساس ہے زمانے میں
اس سے کہہ دو گھٹ کے مرجائے
شکیب تو بہت ہی حساس نکلے کہ ریل گاڑی سے سر ٹکرا کر اس جہان فانی سے رخصت ہوئے اورہم تو یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائے کہ کیا کریں ،حکمرانوں ہی کی مہربانیوں سے نہیں شہر کے دوست نما دشمنوں کے ہاتھوں بھی رسوا ہوئے مگر گلانہیں کیا کہ مروت بھی کوئی شے ہوتی ہے اور اب جوسیاسی حالات سے روگردانی کی ٹھانی ہے تو ابھی تک یکسر فیصلہ نہیں کرپائے ،کبھی پانی سر تلک پہنچ جاتا ہے تو ایک ذرا سی دیرکو سیاسی حالات پر لکھنا اندر کی مجبوری بن جاتا ہے ۔
یوں بھی بنیادی طور پر کہانی گر ہوں اور ملک کے مشہور سرجن (ماہر میل انفرٹیلیٹی) معروف مصور و مجسمہ ساز دوست ڈاکٹر خلیق الرحمان سال ہا سال سے ایک ہی شکوہ کرتے رہے ہیں کہ ’’اندر کا کہانی کار مارنے پر تلے ہو پروہ بھی اتنا سخت جان ہے کہ مرنے نہیں پارہا‘‘ اور اب تو میرے گھر میں اس تحریک کا زور ہے کہ اخبار سے رشتہ توڑدوں اور اپنی بچھڑی ہوئی کہانیوں کو پھر سے گلے لگالوں کہ اسی میں پناہ اور اسی میں عافیت ہے ۔جب سے بڑے بیٹے حسن سرمد کے سر میں کہانی گری کا سودا سمایا ہے اپنے ساتھ ساتھ اس پر بھی ترس آنے لگا ہے کہ یہ راستہ کا نٹوں بھرا ہے اب اسے بھی یہ چننے پڑیں گے پھر کسی دن کسی ’’ماہ نو‘‘ جیسے ادبی جریدے سے کوئی کہانی اس جملے کے ساتھ واپس آئے گی کہ ’’اپنے پاس رکھو یہ کہانی کہ ہم آئینہ دیکھنے کے موسم میں پیدا نہیں ہوئے تھے‘‘ ۔
(کشور ناہید) اظہاریئے کا آغاز مولانا کوثر نیازی کے ذکر سے ہوا تھا ،اتفاق سے ان کی وفات بھی اسی ماہ یعنی مارچ کی انیس تاریخ(1994) میں ہوئی تھی ،سیاسی زندگی کی ابتدا جماعت اسلامی سے ہوئی ،مولانا مودودی کی فکر کے متاثرین میں ان کا شمار ہوتا تھا ۔جتنا عرصہ جماعت میں رہے سرگرم کارکن رہے ،پائے کے مقرر تھے اور بہت ہی عمدہ صحافی بھی مگر انہوں نے اپنا اندر کا صحافی پاکستان پیپلزپارٹی کی بھینٹ چڑھا دیا ،سیکولر مزاج اپنایا تو جماعت سے فاصلے بڑھتے چلے گئے آخر کار جماعت کی سخت گیر پالیسیز اور رجعت پسندانہ نظریات سے گریز پا ہوئے اور 1950 ء میں اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کرلیا اور پی پی پی میں شامل ہوگئے پھر بہت جلد ذوالفقار علی بھٹو سے قربت پیدا کر لی ۔ پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی تو وزارت اطلاعات کا قلمدان مولانا کوثر نیازی کے حصہ میں آیا ،تب خطابت سے سیاست چمکائی اور رواں نثر سے صحافت میں نام پیدا کیا ۔عملی سیاست میں جماعت اسلامی سے وابستگی کا مرثیہ ہی پڑھتے رہے اور جب پھر جب پیپلزپارٹی پر برا وقت آیا تو ایک بار پھر ان پر موقع پرستی کا الزام لگا کہ انہوں نے پارٹی کے ڈوبتے ہوئے سورج کے پیش نظرنئے آنے والے حکمرانوں کے ساتھ پینگیں بڑھانا شروع کردیں ۔
بہر حال جو کچھ بھی تھے ان کا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم کردار رہا ، جسے بھلایا نہیں جاسکتا اور رہے ہم تو چلتی پھرتی کہانیاں ہیں کبھی ہم بھی قصہ پارینہ ہوجائیں گے کہ۔
اجل کے ہاتھ کوئی آرہا ہے پروانہ
نہ جانے آج کی فہرست میں رقم کیا ہے
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: مولانا کوثر نیازی
پڑھیں:
تمام الائنس کی میٹنگ بلا رہے‘ جد و جہد تیز ہو گی: پی ٹی آئی
پشاور (نوائے وقت رپورٹ + آئی این پی) عمر ایوب نے کاہ کہ مسائل کا حل شفاف الیکشن‘ خاتون کی حکمرانی کیلئے جد و جہد تیز کرینگے‘ جبکہ پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے وزیراعظم شہباز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر تے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے او ر بے روزگاری بڑھ چکی ہے، حکومت کو فوری طور پر آزاد اور منصفانہ الیکشن کرانا چاہیے۔ انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ رواں ہفتے ہم اپنے تمام الائنس کی میٹنگ بلا رہے ہیں جس میں جامع قومی ایجنڈا بنایا جائے گا، قومی ایجنڈے کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی عوام کے پاس جائیں گے اور عوام کو اکٹھا کریں گے۔ اسد قیصر کا کہنا تھا کہ اڈیالہ جیل کے باہر دھرنے کے حوالے سے کوئی اجلاس یا فیصلہ نہیں ہوا، اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر جامع پلان لے کر آ رہے ہیں، گرینڈ الائنس کے ساتھ مل کر احتجاج کا لائحہ عمل دیا جائے گا۔ اڈیالہ جیل کے باہر دھرنا پی ٹی آئی کا اپنا فیصلہ ہوگا، اپوزیشن کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا ہے کہ قانون کی حکمرانی کیلئے اپنی تحریک تیز کریں گے۔ ہری پور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رہنما پی ٹی آئی عمر ایوب نے کہا تحریک تحفظ آئین پاکستان کے پلیٹ فارم سے سب پارٹیوں سے مل کر پلان بن رہا ہے، اختر مینگل اور سراج ترین پر جھوٹی ایف آئی آرز کی مذمت کرتے ہیں، معیشت روز بروز خراب ہو رہی ہے، کرپشن بڑھ گئی، مزید دو کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ دو سالوں میں20 لاکھ لوگ پاکستان سے ہجرت کر گئے، حکومت ہر جگہ ناکام نظر آ رہی ہے۔